کیا آپ اپنے بچوں کو عالم دین بنانا چاہتے ہیں؟

ابو حمران
اگر ہاں؟ تو اس کے لیے آپ کو بڑی قربانیاں دینی ہوں گی، اگر دے سکتے ہیں تو یقینا اسے عالم دین بنائیں ورنہ اپنے بچے کی زندگی تباہ نہ کریں۔
آپ کہیں گے کہ اپنے لختِ جگر کو خود سے دور کرکے علم دین سیکھنے کے لیے مدرسوں میں بھیجنا قربانی ہی تو ہے، گھر پر اسے اپنی نظروں کے سامنے رکھ کر اچھا کھلا پہنا سکتے ہیں لیکن دل پر پتھر رکھ کر اللہ کے راستے میں بھیج کر ہم قربانی ہی تو دیتے ہیں، اور عالم بننے سے کسی کی زندگی کیسے تباہ ہوسکتی ہے؟
بے شک یہ بھی قربانی ہے لیکن بچے کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے آپ کی یہ قربانی کوئی قربانی نہیں، آپ اپنی اس قربانی سے بچے کو عالم دین تو بنا دیتے ہیں لیکن اس کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، قربانی یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کو عالم دین تب ہی بنائیں جب اس سے دنیا کی امید نہ ہو، فارغ ہوکر آئے تو دو چار سال تک اس کا خرچ برداشت کرنے کی طاقت ہو، شادی ہوجائے تو اس کے بچے کو سنبھالنے کا حوصلہ رکھتے ہوں، اس لیے کہ جس بچے کو آپ عالم دین بناتے ہیں وہ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی مدرسے کی چار دیواری میں چلا جاتا ہے اور فارغ ہونے تک اسی چار دیواری کے اندر کی زندگی جیتا ہے، دنیا کیا ہے اسے پتہ نہیں ہوتا، دس بارہ سال مدرسے کی چار دیواری میں گزار کر جب نکلتا ہے تو گویا اس دن اس کی نئی پیدائش ہوتی ہے اور وہ نیا نیا دنیا میں قدم رکھتا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے دنیا کو سمجھنے کی مہلت دی جاتی؛ لیکن دنیا میں آنے کے پہلے ہی دن سے اس کی کشمکشانہ زندگی کا دور شروع ہوجاتا ہے، فارغ ہوتے ہی یا تو ماں باپ شادی کر دیتے ہیں یا کمانے کی شرط پر شادی کو موقوف رکھتے ہیں، اور دونوں ہی صورتیں بے چارے کو پریشانی میں ڈال دیتی ہیں، جس کی شادی ہوجاتی ہے وہ معاش کو لے کر پریشان رہتا ہے، مدارس و مکاتب کے چکر لگاتا ہے کہ کہیں بات بن جائے لیکن در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کبھی کامیاب ہوتا ہے تو کبھی ناکام لوٹتا ہے، کامیابی بھی ایسی کہ دن رات کی محنت کے بعد چھ ہزار ،آٹھ ہزار، زیادہ سے زیادہ دس ہزار تنخواہ، اب اس معمولی رقم میں اسے خود کا بھی دیکھنا ہے گھر کا بھی دیکھنا ہے کیونکہ گھر والے کبھی صراحتا کبھی اشارتاً اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گھر کا خرچ بھی دینا ہے، اس چکر میں بے چارہ "مذبذبین بین ذلک لا الی ھؤلاء ولا الی ھؤلاء” ہوکر رہ جاتا ہے، نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا،میں یہ نہیں کہتا کہ سارے ماں باپ ایسے ہی ہوتے ہیں بلکہ کچھ سوجھ بوجھ والے بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچے کی کیفیت سمجھتے ہیں اور اس پر زور نہیں ڈالتے؛ لیکن اکثریت ایسے ہی ماں باپ کی ہے جو اپنے عالم بچے سے اس بات پر نالاں رہتے ہیں کہ وہ کماتا نہیں،کوئی ان سے پوچھ لے کہ پڑھایا کس لیے تھا؟ علم دین سکھایا تھا تو دین کا مطالبہ کرنا چاہیے، دنیا کا مطالبہ کرکے بے چارے کا دین و دنیا دونوں کیوں خراب کرتے ہو؟
لڑکا سمجھ دار ہوتا ہے تو اس کی خود ہی کوشش رہتی ہے کہ وہ والدین پر بوجھ نہ بنے؛ بلکہ خود کفیل ہوجائے اس کے لیے کوششیں بھی کرتا ہے، والدین کو کیا معلوم کہ اس عالم بچے کے دل میں کتنی کڑھن ہے، ملازمت پانے کے لیے کتنے مدارس و مکاتب کے چکر لگا چکا ہے؟ کتنا خوار ہوچکا ہے، کتنا مایوس ہوچکا ہے، وہ اپنا درد گھر والوں سے بیان نہیں کرتا بس ذریعہ معاش کی تلاش میں بے چین رہتا ہے، گھر والے سمجھتے ہیں کہ وقت گزاری کرکے بیٹھے بیٹھے روٹیاں توڑ رہا ہے، اس کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کمانے والا بن جائے، تاکہ بے فکر ہوکر دین کی خدمت کرسکے، اور کم ازکم اپنے بیوی بچوں کا خرچ اٹھا سکے؛ لیکن اس کے سامنے یہ سوال دیوار بن کر کھڑا جاتا ہے کہ وہ کرے تو کیا کرے؟
کوئی بھی فن یا ہنر سیکھنے کی عمر تو اس نے حصولِ علم میں صرف کردی، بڑی تجارت کے لیے پیسہ تجربہ اور جانکاری کی ضرورت ہوتی ہے،کسی کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہوتیں اور کسی کے پاس ایک چیز ہوتی ہے تو دوسری نہیں ہوتی، چھوٹی تجارت بھی سب کے بس کی نہیں ہوتی ،کچھ عالم ہمت کرکے چھوٹی تجارت شروع کرتے ہیں ان میں سے بعض کامیاب ہوتے ہیں بعض ناکام ہوجاتے ہیں، بعض کام ایسے ہیں جو ہر شخص کرسکتا ہے لیکن ایک عالمِ دین ایسا کام کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا جیسے تھوڑی پونجی سے کوئی چیز خرید کر پھیری کرکے یا سڑکوں کے کنارے کھڑے ہوکر بیچنا، علم اللہ تعالیٰ کی بڑی صفات میں سے ہے جو بھی شخص اللہ کی یہ صفت اپنے اندر پیدا کرے گا تو یقیناً اس کے اندر علو یعنی بلندی کی بھی صفت آئے گی، اس لیے وہ اس طرح کمانے میں عار محسوس کرتا ہے، بعض عالم مدرسوں کا رخ اس لیے نہیں کرتے کہ اب مدارس میں تقرری جوئے شیر لانے سے کم نہیں، خاص طور سے ان کے لیے کسی مدرسے میں تقرری تو بالکل دشوار ہوجاتی ہے جو کسی بڑی شخصیت سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سے سفارش کروا سکتے ہیں، مجہول سا چہرہ لے کر مہتمم کے پاس جاتے ہیں مہتمم چہرہ دیکھ کر ہی واپس کر دیتا ہے کیونکہ اس کے پاس نہ تو کسی کی سفارش ہوتی ہے اور نہ ہی کسی ایسے بڑے سے تعلق ہوتا ہے جس کے واسطے سے مہتمم اس کی تقرری کرلے، یہ بات تو میرے بھی تجربے کی ہے کہ مدارس میں زیادہ تر تقرری صالحیت و صلاحیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سفارش یا پہچان کی بنیاد پر ہوتی ہیں، آپ کتنی بھی اچھی صلاحیت کے مالک ہوں آپ کا تقرر اچھے مدرسے میں بنا سفارش اور تعلق کے بالکل محال ہے الا ماشاء اللہ، کیونکہ صلاحیت کا امتحان بھی اسی وقت لیا جاتا ہے جب ساتھ میں کوئی سفارشی خط یا تعلق نامہ ہو، پھر جیسے تیسے اگر تقرری ہو بھی جاتی ہے تو مدارس کے اساتذہ کا جو حال ہے وہ اکثر احباب جانتے ہی ہوں گے، ابھی اس کا موقعہ نہیں اس کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ابھی تو بات ہو رہی ہے ان فارغین مدارس کی جو دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن گھر کے ماحول کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہتے ہیں۔
اگر آپ اپنے بچے کو عالم دین بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو ڈبل کمانا پڑے گا ایک اپنے لیے اور ایک اپنے عالم دین بچے کے لیے، مدرسے سے فارغ ہو کر آئے تو آپ اس سے کہہ دیں کہ بیٹا جا اور بے فکر ہوکر کسی بھی جگہ دین کی خدمت میں لگ جا، علم دین سیکھ کر اگر بچے کے اندر امت کا درد اور اسلام کی اشاعت کا جوش پیدا ہوا ہوگا تو وہ ضرور کوئی بڑا کارنامہ کرے گا، کچھ ہی سالوں میں آپ کو اس کے خرچے کی بھی فکر نہیں ہوگی کیونکہ اللہ اس کے لیے راستے کھول دے گا، جو بندہ خالص نیت سے اللہ کے راستے میں لگ جاتا ہے اللہ تھوڑی ہی مدت میں اس کے لیے دنیا کی زندگی کو بھی آسان بنا دیتا ہے، اور آخرت تو سنورتی ہی ہے، اور فارغ ہوکر آنے کے بعد ہی سے لڑکے کے سر پر بوجھ آجائے تو نہ وہ ادھر کا ہوکر رہتا ہے نہ ادھر کا کیونکہ دنیا میں لگا رہتا ہے تو اس کا ضمیر اسے جھنجھوڑتا رہتا ہے اور اس کا دھیان بٹا رہتا ہے، یا کچھ مدت میں وہ کامیاب تو ہوتا ہے لیکن دنیا کو لے کر اور صرف دنیا کا ہوکر رہ جاتا ہے، ماں باپ کو پیسے تو بہت ملتے ہیں لیکن ان کی قربانی ضائع ہوجاتی ہے اور امت ایک عالم کے فیض سے محروم ہوجاتی ہے۔
مدارس سے فارغ ہونے والے بچے معصوم ہوتے ہیں، ان کے ذہن پر پریشر نہ ڈالیں، انہیں آزاد چھوڑ کر ان سے بس دین کی خدمت کا مطالبہ کریں، پیسہ ہی چاہیے تو اس کے لیے تجارت کے اسباب مہیا کیجیے، اس کی مدد کیجیے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیجیے، پھر یہ ضروری نہیں کہ وہ پہلی ہی تجارت میں کامیاب ہوجائے، ناکام بھی ہوسکتا ہے، اچھے اچھے تجربہ کار تاجروں کو بھی کبھی کبھی تجارت میں خسارہ ہوجاتا ہے، ایک مرتبہ گرے تو اسے پھر سے اٹھائیے، اس وقت آپ کا اس سے پیسوں کا مطالبہ جائز ہوگا، اس کے بغیر اگر آپ اس سے پیسے کے طالب ہیں تو اب وہ کہیں ڈاکہ تو ڈالنے سے رہا، خود کو اپنے بچے کی جگہ رکھ کر دیکھیے کہ ایسے وقت میں آپ کیا کرتے؟
اگر بچہ صلاحیت مند ہے تو کوشش کیجیے کہ اسے کسی مدرسے میں لگوادیں اور اس سے کہہ دیں کہ پیسے کا ٹینشن نہ لے بس دل لگا کر پڑھائے، اس طرح اس کا خرچ بھی نکلے گا اور دین کی خدمت بھی ہوتی رہی گی، اور صلاحیت نہ ہو تو بھی کوشش کیجیے کہ وہ مدرسے میں ہی لگے کیونکہ تدریس کے لیے صلاحیت ضروری نہیں، تدریس کا ملکہ درس دیتے دیتے پیدا ہو ہی جاتا ہے۔
آپ کی یہ قربانی کسی اور کے بچے کو عالم دین بنا سکتی ہے، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ آپ کا بچہ عالم دین بن کر آیا اور تذبذب کا شکار ہوکر نہ دین کا رہا نہ دنیا کا تو دوسرے مثال میں اس بچے کو پیش کرتے ہیں کہ دیکھو عالم بناؤ گے تو آپ کے بچے کا بھی یہی حال ہوگا اور اگر آپ نے بچے کی فراغت کے بعد اس کا بھرپور ساتھ دیا اور اسے صحیح جگہ دین کی خدمت پر لگادیا تو چند سالوں بعد وہ مثالی بن جائے گا لوگ مثال میں اس کا نام لیں گے کہ اپنے بچے کو بھی عالم بناؤ فلاں کے بیٹے کی طرح نام پیدا کرے گا۔یاد رکھیے آپ کے تعاون ہی سے آپ کا عالم بچہ کامیاب ہوسکتا ہے۔جس طرح آپ نے اس کی پڑھائی کے زمانے میں اس کا ساتھ دیا ہے اسی طرح فارغ ہونے کے بعد بھی اسے اکیلا نہ چھوڑیں، آپ کی ہمت افزائی اسے بلندیوں کی سیڑھی پر چڑھا سکتی ہے اور آپ کی لاپرواہی اس کے مستقبل کو تباہ کرسکتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میرے اکیلے کے من کی بات ہے ہر عالم کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا تو آپ غلط سوچ رہے ہیں، میرا نو فارغین علما سے ملنا جلنا ہے ان میں سے بہت سے مجھ سے بے تکلف ہیں جن سے باتوں باتوں میں اتنی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ گھر والوں کا ان پر کتنا پریشر ہے اور وہ خدمت دین سے زیادہ اپنے عالم بچے سے دنیا کے طلب گار ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے کا ذہن بھی خدمتِ دین سے زیادہ طلب دنیا میں لگ جاتا ہے،بالفاظِ دیگر ایک عالم دین طالب دنیا بن جاتا ہے، اگر آپ کے پاس طاقت و ہمت نہیں ہے تو مت بنائیے اپنے بچے کو عالم، ایسا عالم ہوکر کیا فائدہ کہ فراغت کے بعد غیر عالموں کی طرح زندگی گزارے، عالم بن کر اگر وہ دنیا دار بن جاتا ہے تو اس کا خسارہ زیادہ ہوتا ہے، غیر عالم اگر غلط کام کرے تو اس کو اتنا گناہ نہیں ملتا جتنا ایک عالم کو غلط کام کرنے سے ملتا ہے، اور دنیا داری میں تو ہزاروں دفعہ غلط کاموں سے واسطہ پڑتا ہے، اب بندے کا ایمان اگر مضبوط ہے تو وہ غلط کام نہیں کرے گا لیکن اگر ضعف ایمان کی وجہ سے غلط راستے پر چل دیا تو علم ہونے کی وجہ سے اسے گناہ بھی زیادہ ملے گا، اگر عالم نہ بنایا ہوتا تو شروع سے دنیا داری میں لگ کر پیسے بھی خوب کماتا اور غلط کاموں پر گناہ بھی نہیں ملتا، لیکن والدین کی کم ہمتی ایک معصوم عالم دین کو دنیا دار بنا کر اس پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
دنیا تو مقدر کی ہے جتنا رزق مقدر ہوچکا ہے وہ مل کر رہے گا، زمین و آسمان میں جتنے بھی جاندار ہیں سب کے رزق کا ذمہ اللہ نے اپنے اوپر لیا ہے، حیاتِ طیب اور اچھے رزق کے لیے اللہ نے اعمال صالحہ کی شرط لگائی ہے، کوئی بھی مؤمن مرد یا عورت بحالتِ ایمان اچھے اعمال کرے تو اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم اسے حیاتِ طیب یعنی پاکیزہ اور بے فکری کی زندگی عطا کریں گے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیں گے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوگا، اب سوچیے اگر ایک عالم دین نیک اعمال کرے اور اللہ کے واسطے اللہ کے دین کی خدمت کرے تو کیا اللہ اسے مایوس کرے گا؟ کچھ دنوں کی آزمائش ہوگی پھر اللہ آسان کر دے گا۔
آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ میری اس تحریر کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ اگر آپ غریب ہیں تو آپ اپنے بچے کو عالم دین نہ بنائیں، ضرور بنائیں لیکن فراغت کے بعد ان کے ساتھ برتاؤ بھی عالم سمجھ کر کریں نہ کہ تاجر سمجھ کر۔اگر والدین اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لیں تو پتہ نہیں کتنے کیچڑ آلود ہیرے دنیا میں جگمگانے لگیں اور مولویوں کو برا بھلا بولنے والوں کی زبانیں ان کے خلاف زہر اگلنے سے پہلے ہزاروں بار سوچیں؟!
Comments are closed.