حلف برداری کا مفہوم اور اس کے تقاضے

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
بھارت ایک دستوری جمہوریت ہے اور بھارت کی نظم حکمرانی اسی دستوری ضوابط کے تحت انجام دی جاتی ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص براہِ راست انتخاب کے ذریعہ یا انتظامیہ کے تحت کسی دستوری عہدے پر فائز کیا جاتا ہے تو اپنی منصبی ذمہ داری پر فائز ہونے سے پہلے اسے دستور سے وفاداری اور اس کے اتباع کا حلف لینا ہوتا ہے۔ یعنی وہ خدا کے نام سے یا سیدھے طور پر اس بات کا عہد کرتا/کرتی ہے کہ ملک کا جو دستور قانون کے ذریعے نافذ ہے اس میں یقین رکھے گا/ گی اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے پوری طرح پابند ہوگا/ ہوگی۔ یعنی دستور سے وفاداری اور اس کے احترام و اتباع میں اپنی منصبی حیثیت میں کوئی کمی اور کوتاہی نہیں کرے گا/ گی۔ گویا ملک کے دستور اس کے ہاتھوں میں اور اس کے دائرے میں اس کے قول و عمل دونوں کے ذریعہ نہ صرف محفوظ رہے گا بلکہ اپنی لفظ و روح کے ساتھ نافذ العمل بھی ہوگا۔ دستور سے وفاداری(Faith)اور اطاعت و انقیاد (Allegiance)کا یہ سیدھا اور صاف مفہوم ہے۔
دوسرا حلف اس بات کا لیتا/لیتی ہے کہ ملک کی خود مختاری اور اس کی سالمیت کو قائم اور برقرار رکھے گا/ گی۔ یعنی اس کے ہاتھوں میں ملک کا دستور، ملک کی آزادی و خود مختاری اس کی علاقائی سالمیت یعنی اس کی سرحدیں اور اس کا جغرافیہ محفوظ رہے گا۔ یعنی اپنے راست یا چپ کسی اقدام سے ملک کی آزادی و سلامتی پر آنچ نہیں آنے دے گا/ گی۔
تیسرا حلف اس بات کا لیتا/لیتی ہے کہ وہ اپنی منصبی ذمہ داری پوری وفاداری اور شعور کے ساتھ سمجھ بوجھ کر انجام دے گا/ گی اور ہر طرح کے شہریوں کے لیے دستور کی رو سے اور قانون کے مطابق جو صحیح طریقہ ہوگا اس کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے گا/ گی اور کسی کے ساتھ بے جا طرف داری، اور بدنیتی نہیں رکھے گا/ گی اور بغیر کسی خوف اور جانب داری کے تمام لوگوں کے ساتھ از روئے قانون اور دستور انصاف اور مساوات کے مطابق معاملہ کرے گا/ گی۔
چوتھا حلف یہ لیتا ہے کہ عہدے کی رازداری کو برقرار رکھے گا/ گی۔
آپ حلف عہدہ کے ان الفاظ پر غور کریں تو مندرجہ ذیل باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں:
(۱) دستور سے وفاداری اور اس کی لفظ و روح کے ساتھ اطاعت۔
(۲) ملک کی سالمیت اور خود مختاری کی حفاظت۔
(۳) شہریوں کے درمیان بغیر کسی بھید بھاؤ نفرت اور تعصب کے یکساں سلوک اور ہر کے ساتھ بلا خوف، جانبداری، بے جا ہمدردی کے یکساں برتاؤ۔
(۴) ملکی رازوں کی حفاظت۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دستوری منصب محض اختیار نہیں دیتے ہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہیں جن کو دستور اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انجام دینا فرض عین ہے۔
ان الفاظ کے ساتھ اگر ایک وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، صدر، گورنر، وزراء، جج، عدلیہ اور مقننہ کے دستوری عہدوں پر فائز لوگ اگر اپنی منصبی ذمہ داریوں کی ادائیگی کریں تو کیا کسی شہری یا شہریوں کے کسی گروہ کو کوئی شکایت، اندیشہ اور تکلیف ہوسکتی ہے؟
اگر ملک میں دستور سے سچی وفاداری ہو، اس کا عملی نفاذ کیا جاتا ہو، ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، ہر شہری اور شہریوں کے گروہ کے ساتھ بغیر خوف، بے جا طرف داری، ہمدردی اور بدنیتی کے، قانون کے مطابق برابر کا سلوک ہو تو وہ شخص اکیلا ہو یا ایک مضبوط گروہ کا فرد ہو، اکثریت میں ہو یا اقلیت میں اسے کسی بات کا ڈر نہیں ہوگا اور اگر کچھ زیادتی یا طرفداری ہوتی ہے تو دستور اور قانون کے تحت اس کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد پریس، مضبوط رائے عام اس کی ضامن ہوگی۔ سول سوسائٹی اور جمہوری اداروں کو اس معاملے میں بیدار اور چوکس ہونا چاہیے۔
لیکن جب دستوری عہدوں پر اور علیٰ منصبوں پر بیٹھے ہوئے لوگ دستور اور قانون کا حلف لے کر اس کی خلاف ورزی کریں اور شہریوں کے ایک طبقے کو ڈرائیں، دھمکی دیں، گالیاں دیں، برا بھلا کہیں، ان کے ساتھ انصاف نہ کریں۔ عملاً اور قولاً ان کے جذبات کو مجروح کریں، ان کی عزت نفس سے کھیلیں، ان کے مفاد کی ان دیکھی کریں اور ان کے واجبی حق اور حصہ سے محروم رکھیں تو اس کے خلاف کیسے چارہ جوئی کی جائے؟
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
ہمارے یہاں مرکز اور ریاستوں میں کرپشن کی روک تھام کے لیے لوک پال (Ombudsman)بحال کرنے کی بہت تیز مہم چلائی گئی ہے۔ بعض ریاستوں میں اس ادارے کو قائم بھی کیا گیا ہے۔ مرکز میں بھی اس کے قیام کے لیے دباؤ بنایا جارہا ہے۔ مگر ذہنی کرپشن مالی کرپشن سے بڑا جرم اور بڑا خطرہ ہے۔ لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ لوک پال کی منصبی ذمہ داری کو بڑھا کر جو دستوری ذمہ دار اپنے حلف برداری کے خلاف بولتے اور کام کرتے پکڑے جائیں ان کو نااہل قرار دے کر ان کے منصب سے ہٹادینے کا اختیار لوک پال کو دیا جائے اور پھر کبھی انہیں کسی منصب کا اہل نہ مانا جائے۔ اگر یہ ضروری اصلاح کرلی جائے تو ملک بہت سے خر دماغ لوگوں کی غلط کاریوں سے محفوظ ہوجائے گا اور ملک میں واقعی دستور اور قانون کی حکمرانی ہوگی اور تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کی راہ ہموار ہوگی۔ملک کے دستور کے تحفظ کے لیے اس مہم کو ایک تحریک کی شکل میں چلانے کی ضرورت ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کے مصنف ہیں۔

Comments are closed.