کتّا بہتر ہے یا انسان؟

ڈاکٹر علیم خان فلکی حیدرآباد
اِس تصویر کو غور سے دیکھئے۔ آپ یقینا یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ایک کتّے کی لاش کی آخری رسومات ایک شہید سپاہی کی رسومات کی طرح ادا کرنا کیا صحیح ہے؟ صحیح یا غلط کی بحث ہم پھر کبھی کریں گے، فی الوقت اِس تصویر سے ہمیں ایک انتہائی اہم سبق ملتا ہے، وہ یہ کہ اگر کوئی انسانیت کے کام آئے تو وہ انسان تو کیا اگر کتاّ بھی ہوتو قابلِ احترام ہے، ورنہ یوں تو ہر روز گلی میں کئی کتّے گاڑیوں کے نیچے آکر مرتے ہیں کوئی پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں،لیکن یہ کتا جو اِس تصویر میں آپ دیکھ رہے ہیں یہ آندھراپردیش کے تِروپتی پولیس ڈپارٹمنٹ کا وہ اِسنیفرڈاگ یعنی سونگھنے کی صلاحیت رکھنے والا کتا ہے جس کی وجہ سے ایک سو زیادہ مجرمین پکڑے گئے۔
اگر یہ کتّا بھی کوئی عام سا کتا ہوتا تو کیا اُسے یہ اعزاز دیا جاتا؟ نکتہ یہ ہے کہ اگر انسان بھی عام کتّوں ہی کی طرح زندگی گزارے تو قدرت کا قانون بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسے کتّوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اُسے کوئی یاد نہیں رکھتا۔ غور کیجئے ہمارے اطراف انسانوں کی اکثریت جس طرح زندگی گزارتی ہے ان میں اور کتّوں کی زندگی میں کتنا کم فرق ہے جیسے:کتے صرف اپنی ذات کیلئے زندگی گزارتے ہیں انہیں اخلاقیات یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔انسان بھی صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے زندگی گزارتے ہیں انہیں قوم، ملت، دین، زبان یا تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کتّوں کا روزانہ کا معمول یہ ہوتا ہے صبح اٹھتے ہیں پیٹ بھرنے دن بھر کچہرے کے ڈھیروں پر گھومنا، شام میں دوستوں کے ساتھ بھونکنا، پھر ایک جنس مخالف کا شوق، رات کو سوجانا اور اگلی صبح اٹھتے ہی وہی مارا ماری۔
انسان بھی صبح اٹھتے ہی پیٹ کے چکر میں اسکول، کالج، نوکری، دوکان یاکاروبار وغیرہ کی طرف بھاگتا ہے، شام میں دوست، پھر ایک بیوی ، پھر رات کو سو کر اگلی صبح ہوتے ہی انہی کچہرے کے ڈھیروں پر روانہ ہوجاتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان ایک اشرف المخلوقات ہے اسلئے اس کے کچہرے کے ڈھیر وں کا معیار اعلیٰ ہوتا ہے۔
کتّا ہڈّی کے لئے جائز ناجائز نہیں دیکھتا، کہیں بھی منہ مارسکتا ہے۔
انسان بھی اپنے فائدے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ، زمینات پر قبضے وغیرہ۔ اس کیلئے خوبصورت جواز بھی پیدا کرلیتا ہے۔
کتّوں میں قطع کلامی کی بیماری ہوتی ہے۔ بیک وقت دو دو تین تین کتّے بھونکنے لگتے ہیں، کوئی کسی کو سننا ہی نہیں چاہتا۔
انسان بھی بیچ بیچ میں بول پڑتا ہے، سامنے والے کی بات مکمل ہونے کا انتظار ہی نہیں کرتا۔ بعض بعض وقت تو ہمارے سعودی بھائیوں کی طرح ایک ساتھ دو دو تین تین لوگ بھونکنے لگتے ہیں ،،،،،،،،،، معذرت خواہ ہوں ۔۔۔۔۔ بولنے لگتے ہیں۔
سامنے سے کوئی غیرمحرم خاتون گزرے تو انسان کی نظروں اور دماغ میں کیا کیا چلنے لگتا ہے یہ ہر مرد جانتا ہے۔ یہی کمزوری کتّوں میں بھی ہوتی ہے۔ وہ بھی یہ احساس نہیں کرتے کہ اگر ان کی ماں، بیٹی یا بہن کو دیکھ کر کوئی دوسرا بھی ایسا ہی سوچے تو کیا ان کا ضمیر گوارا کرے گا؟
کتّے سڑکوں پر چلتے ہوئے نہ رائٹ دیکھتے ہیں نہ لیفٹ، نہ ون وے دیکھتے ہیں نہ سگنل، اِن کو پہلے نکلنے کی جلدی ہوتی ہے۔
انسان بھی اسی طرح بدتمیزی اور لاقانونیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسروں کا راستہ کاٹ کر پہلے نکلنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
بچّے دونوں کے پیدا ہوتے ہیں، پھر وہ بچے بڑے ہوکر بچے پیدا کرتے ہیں، پھر وہ بچے بڑے ہوکر بچے پیدا کرتے ہیں سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان بچوں کو پیدا کرنے کا ایک مقصد بھی بتایا ہے۔وہ مقصد اِن بچوں کو بڑا کرکے انہیں صرف اعلیٰ یا ادنیٰ کچہرے کے ڈھیروں پر گھومنے کا قابل بنانا نہیں ہے کچھ اور بھی ہے، لیکن اس کا شعور نہ کتوں میں ہوتا ہے نہ اکثر انسانوں میں۔
کتّوں میں ہرکوئی لیڈر ہوتا ہے اسی لئے کوئی ایک بھونکے تو دوسرے ذرا چُپ ہو کر اس کو سن نہیں سکتے، سارے اپنی اپنی بھونک کے حقِ آزادیِٔ اظہار کے تحت بھونکنے لگتے ہیں، ان میں بھی انٹلکچویل کلاس ہوتی ہے جو دور سے بیٹھ کر غرّاتی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کو نہیں آتے لیکن سمجھتے ہیں سارے مل کر بھونکیں گے تو دشمن ڈر جائیگا۔ اس لئے بلدیہ والوںکو سارے کتّوں کو پکڑ کر لے جانا پڑتا ہے۔ آج آریس یس اور بی جے پی ہمارے لئے بلدیہ بن چکی ہے۔ اُسے پتہ ہے کہ کسی کو بھی پکڑو، مارو، انکاؤنٹر کردو یا جیلوںمیں ٹھونس دو کوئی آگے نہیں آئیگا، سارے صرف سوشیل میڈیا پریا اردو اخبارات کے تیسرے چوتھے صفحے پر غرّا لیں گے یا پرانے شہروں کے مسلم علاقوں میں کوئی جلسہ کرکے بھونک لیں گے، خود ان کی قوم کے لوگ اسکی نوٹس نہیں لیں گے، حافظ جنید شہید جنہیں ٹرین سے اتار کر خنجروں سے شہید کردیا گیا، سارے لوگ پلیٹ فارم پرکھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ اس شہید کی ماں نے کہا تھا کہ ’’اگر جنید کے مدرسے کے ایک دو ساتھی بھی ٹرین سے اتر کر نیچے آجاتے تو میرا بیٹا بچ سکتا تھا‘‘۔
کتّے اپنے مالک کے تو بہت وفادار ہوتے ہیں لیکن اپنی قوم کے غدّار ہوتے ہیں۔ انسانوں میں بھی دیکھئے ہم کو جو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں وہ ہمارے ہی لیڈر، ہمارے ہی مخبر اور ہماری قوم کے ہی افسر۔ جتنا نقصان یہ لوگ پہنچاتے ہیں مجال ہے کوئی دشمن اتنا نقصان پہنچائے۔
یہ باتیں جب میں نے کچھ مزاح کے طور پر تقریروں میںکہہ دیں تو کئی لوگوں پر بہت گِراں گزریں، کچھ نے کہا یہ علیم خان کا تکبّر ہے اور کچھ نے کہا دین کا پیغام اگر نبیوںکے اسلوب میں نہیں کہہ سکتے تو منہ بند رکھئے۔ میں ان تمام سے معذرت کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسانوںکے کتّے ہونے کی مثال تو خود قرآن نے دی ہے۔ ورنہ میری کیا حیثیت کہ میں اشرف المخلوقات کا ایک حقیر جانور سے تقابل کروں۔ سورہ اعراف آیت ۱۷۵ تا ۱۷۸ پڑھتے جایئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم نے انسانوں کو اپنی آیتوں کا علم دیا اور انہیں اسی علم کی بِنا سربلندی عطا کرنا چاہا تو انسان اپنی خواہشات کا غلام بنا رہا اور زمین سے چِمٹا رہا۔ یاد رہے کہ یہ آیت یہود و نصٰری یا کفار و مشرکین کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ہم جیسے ان مسلمانوں کے بارے میں ہے جن کو اللہ کی آیت کا اچھی طرح علم ہے۔ اس کے بعد اِن علم رکھتے ہوئے بھی جہالت کی روِش پر اڑے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کہا کمثل الکلب ہیں یعنی ان کتوں کی طرح ہیں جو اِن تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث، یعنی جنہیں مارو بھی تو زبان لٹکائے رہتے ہیں اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رہتے ہیں۔ سیاست، شہرت، عزت، دولت اور طاقت کی ہوس میں کتّوں ہی کی طرح زبان لٹکائے ھل من مزید کی تلاش میں دوڑتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوںکو صرف کتے ہی نہیں، کہیں بندر کہا گیا خردۃ خاسئین، کہیں جنگلی گدھے حمر مستنفرہ اور کہیں کمثل الحمار یحمل اسفارا کہا گیا یعنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ لادے گدھے۔
اس لئے انسانوں کا کتّوں سے تقابل کرنے پر برا مت مانئیے، نکتہ یہ ہے کہ جب نفسانی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کے سوا زندگی میں اور کوئی مقصد نہ ہو تویہ زندگی کتّوں، بندروں اور گدھوں سے مختلف نہیں ہوتی۔ پچھلی قومیں جو ہلاک کردی گئیں وہ نبیوں سے کہتی تھیں ’’جب عذاب آئے گا دیکھا جائیگا‘‘۔ آج ہم بھی اپنے رویّئے سے یہی کہہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ جس لمحے عذاب آیا اس لمحے تک بھی وہ مستیوں میں چور تھیں۔پھر جب عذاب آگیا تو کسی قوم کو غلام بنادیاگیا، کسی کو تباہ کردیا گیا اور کسی کو چالیس سال تک صحرا میں بھٹکنے کی سزا دی گئی۔ کم از کم دو عذاب تو ایسے ہیں جنہیں آج ہم ہماری قوم پر نازل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہندوستان میں پیدا کیا تھا تاکہ ہم دوسری قوموں کو اسلام کی دعوت دیں، انہیں گائے کے شرک سے باہر نکالیں۔ یہ کام ہمارے آباواجداد نے کبھی نہیں کیا جس کی سزا یہ ہوئی کہ آج انہی قوموں نے ہمیں دوسرے درجے کے شہری بنادیا ، گائے ہم پر مسلّط ہوچکی ہے۔ اگر آج ہم نے بھی دعوت کا کام نہیں کیا تو کل ہماری نسلیں مکمل غلام بنادی جائنگی۔ یہ عذاب نازل ہونا شروع ہوچکا ہے جس کا ثبوت یہ ہیکہ پوری قوم ڈرائیوروں اور کلرکوں یا ماتحتوں کی قوم بن چکی ہے۔ دوسرا عذاب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سنّتوں کی جگہ جب ہم نے رسم ورواج کو دے دی تو پوری زندگی کتّوں کی طرح مارے مارے پھرنے اور کما کر شادیوں پر لٹادینے کے عذاب میں ہم کو مبتلا کردیاگیا ہے۔ کم سے کم80% اکثریت انہی شادیوں کی وجہ سے غربت و افلاس کے پستیوں میں گِھرچکی ہے۔
مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے والے ہلاکو خان کے پوتے قبائل خان کے واقعہ پر غورکیجئے۔ وہ جنگل میں شکار کھیل رہا تھا، ایک بزرگ وہاں سے گزررہے تھے۔ انہیں بلوایا اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھا کہ ’’تم بہتر ہو یا میرا کتّا؟‘‘۔ بزرگ کا جواب سن کر وہ ایمان لانے پر مجبور ہوگیا، سبحان اللہ۔ بزرگ نے فرمایا ’’اگر میرا خاتمہ ایمان پر ہوا تو میں تمہارے کتے سے بہتر ہوں، ورنہ یہ کتّا مجھ سے بہتر ہے‘‘۔
انسان کا کتّے سے موازنہ کرنے پر ہمارے احباب ناراض نہ ہوں، اگر انسان کا خاتمہ ایمان پر ہو تو وہ کتے سے بہترہیں ورنہ کتا ان سے بہتر ہے۔ اسی لئے کئی لوگ ہر روز مرتے ہیں کوئی انہیں یاد نہیں رکھتاسوائے ان کے بیٹوںاور دامادوں کے، وہ بھی اسلئے کہ اس میں ان کی خودغرضی چھپی ہے کہ ابّاجان ساری زندگی مرمرکرکماتے رہے اور کما کما کر مرگئے، ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ کر گئے۔ یہ دنیا انہیں اسی طرح بھلادیتی ہے جس طرح جانوروں کو۔ دنیا اور تاریخ انہی لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اپنامال، اپنی صلاحیتیں اور اپنا وقت دوسروں کیلئے وقف کرتے ہیں۔
Mobile: +91 9642571721
Email: [email protected]

Comments are closed.