کیا ہم بے حس ہو گئے ہیں؟

ذاکر اعظمی

ریاض، سعودی عرب

اگر ہم عہد وسطی کے ہندوستان نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی قبل از 1947 اور ما بعد کی نفسیات کا جائزہ لیں تو واضح طور پر اس نتیجے پر پہونچیں گے کہ غلام ہندوستان کا مسلمان غیور، حوصل مند، بہادر اور نڈر ہوا کرتا تھا، اسکے برعکس آزاد بھارت میں مسلمان بے حس، بزدل، بے غیرت ہونے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر غلامی اور دوسرے درجے کی شہریت قبول کرتا جارہا ہے، 2014 سے اس نفسیاتی غلامی کی سمت میں ہمارا سفر قدرے تیزگام رہا، اخلاق کو گھر میں گھس کر مارا گیا ہم خاموش رہے، پہلو خان ہجومی تشدد کا شکار ہوا ہماری حمیت نہ جاگی، جھارکھنڈ میں درجنوں موب لنچنگ کے واقعات رونما ہوئے ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا، اور تازہ واقعہ میں جوان سال تبریز کو جس بیدردی سے قتل کیا گیا وہ ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے کافی تھا مگر ہم نہ جاگے۔ یہ انتہائی خطرناک علامت ہے، کیوں کہ تاریخ انسانی کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم کو محکوم بنانے کا سب سے کار گر ہتھیار یہ ہے کہ اسے مستقبل کے خوف میں مبتلا کردیا جائے، مستقبل کا یہی وہ خوف ہے ہریجن اور دیگر پساماندہ اقوام نے تنزلی کا جو سفر صدیوں میں طے کیا تھا بھارتی مسلمانوں نے وہ سفر سات آٹھ دہائیوں میں ہی غیر شعوری طور پر طے کرلیا۔

 

ایسا نہیں ہے کہ برٹش راج میں ہم مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ نہ توڑے گئے، ہماری قیادت کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت نہ کرنی پڑی ہو، مگر ہم نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا، ظلم کے خلاف ہمیشہ سینہ پر رہے، یہی مومنانہ عزیزیمت بھی ہے، مگر نہ جانے ہندو فاشسٹ قوتوں نے ہماری نفسیات کے ساتھ کون سا ایسا گھناونا کھیل کھیلا کہ بزدلی ہمارا قومی شعار بن گئی، استقامت وپامردی کے بجائے ہم نے ہزیمت کو گلے لگا لیا، افسوس اس بات کا کہ سنگھ پریوار ہمیں محکوم ودوسری درجے کا شہری بنانے کا اعلانیہ جس اجنڈے پر کام کررہی ہم اس سے واقف نہیں بلکہ اس پریوار کے ہندو راشٹر کا پورا پلان ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہے پھر بھی اس سے نپٹنے کے لئے ہم موثر لائحہ عمل بنانے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔

 

یاد رکھئے اخلاق، پہلو خان اور تبریز کی موب لنچنگ پر ہماری مجرمانہ خاموشی ایک ایسے تباہ کن طوفان کو دعوت دے رہی ہے جو بھارت میں ہمارے وجود کے درپے ہے۔ اب وقت قومی یکجہتی کانفرسوں، دہشت گردی مخالف جلسوں، گاندھیائی فلسہ عدم تشدد یعنی ظلم کو برداشت کرنے کا نہیں بلکہ منظم ہجومی تشدد کے ٹھیکیداروں کو انہیں کی زبان میں بات کرنے کا ہے، میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں وہی مسلمان جنہوں نے انگریز ظالموں کے ظلم کے خلاف پنجہ آزمائی سے گریز نہیں کیا آج سیکولر وآزاد ہندوستان میں اتنا بزدل کیسے ہوگیا کہ ہجومی تشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی ہمت بھی نہیں جٹا پارہا ہے، جبکہ ہمارے ملک کا دستور پر امن احتجاج کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ یقین مانئے اگر ہم نے وقت رہتے جرات کا مظاہرہ نہیں کیا تو ہمارا حشر بھی روہنگیا مسلمانوں جیسا ہوگا۔

Comments are closed.