ہم کہیں ہیں بھی یا نہیں؟

مشرّف عالم ذوقی

پپو منڈل کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے . تبریز گم ہوتے جاہیں گے . آج ملک کے کیی گوشوں میں مظاہرے ہوئے . اسد الدین اویسی ، اعظم خان ، بدر الدین اجمل نے آواز بلند کی . سیاست اپنا کھیل ، کھیل رہی ہے .پہلے سے زیادہ مسلمانوں کے تعلق سے بیان آ رہے ہیں . پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ایک مخصوص نظریہ مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا ہے . سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا . اور دوسری طرف کہانی کچھ اور . مظالم بڑھ گئے . پپو منڈلوں کی اشتعال انگیزی بڑھ گیی . ہم پہلے بھی خاموش تھے .اب بھی خاموش . ہماری حیثیت کیا ہے ، سیاست سے سماج تک ؟ ہم بولتے بھی ہیں تو کون سنتا ہے ؟ اب دہری مار ہے . پیار بھی دکھاؤ ، اوقات بھی . کیا اس سیاست سے جنگ آسان ہے ؟ نہیں . نشانے پر کون ہیں ؟ مسلمان . کیا مسلمان کسی بھی طرح کی جنگ لڑنے کے قابل ہیں ؟ نہیں . نہیں کو ہاں میں تبدیل کرنا ہوگا . متحد ہونا ہوگا . تمام ملی تنظیموں کو ایک ہونا ہوگا . مظاہرے کرنے ہونگے . حکومت سے مکالمہ کرنا ہوگا . اب حکومت کو ہر حال میں ساتھ لینا ہوگا . ناگپور سے بھی گفتگو کے دروازے کھولنے ہونگے . پوچھنا تو ہوگا کہ ایک طرف ہوا محبت بھری تو دوسری طرف فضا میں نفرت کا زہر کیوں ہے ؟ راستہ کیا ہے . پوچھنا تو ہوگا کہ حکومت چاہتی کیا ہے ؟ پانچ برس خوف میں گزرے . آگے بھی خوف کا سمندر ہوگا یا حکومت اس آگ کو بجھانے کے لئے کچھ قدم بڑھاہے گی . بڑھانا چاہیے .کیوں کہ ان دنوں حکومت میں ہر شخص مسلمانوں کی باتیں کر رہا ہے . تعلیم کی باتیں کر رہا ہے . مسلمانوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی بات ہو رہی ہے . تو پھر ان سوالوں کا جواب کون دے گا کہ بار بار اخلاق ، تبریز اور پہلو خان کیوں ؟ مسلمان آپ کے نیے پراجیکٹ کا اہم حصّہ ہیں تو پپو منڈل جیسے لوگ آزاد کیوں گھومتے ہیں ؟ایک فلم میں یہ مکالمہ بہت مشہور ہوا تھا ، ہمیں پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب . مسلمان اب محبت سے ڈرنے لگے ہیں صاحب .

محمد اخلاق کی فریج کا مٹن ، بیف بن جاتا ہے ۔

اور اخلاق اپنے گھر میں بے دردی اور بے رحمی سے ذبح کردئے جاتے ہیں۔

-پہلو خان بھی ذبح کردئیے جاتے ہیں۔ ہاتھ میں ترشول لئے خوفناک چہروں والے گﺅ رکشک دھوکہ سے مسلمانوں کوہندوستان کے ہر صوبے میں قتل کرنے کے بہانے تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ حکومت چپ ۔ مسلمان چپ ۔ غلطی سے کسی ایک مسلمان سے کوئی ایک معمولی سا جرم بھی سرزد ہوجائے تو میڈیا اسے غدار اور دشمن بناکر چلانے لگتا اہے ۔

ہم کہیں ہیں بھی یا نہیں ؟ یہ سوال تو اٹھے گا .

-راجستھان ،پورے ہوش وحواس میں ایک بے رحم قاتل شمبھولال ایک نوجوان مزدور مسلمان کو دھوکہ سے جنگل میں لاتا ہے ، اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے ۔ اس کی لاش کو جلاتا ہے ۔ اس کا بھانجہ اس پورے منظر کی ویڈیو گرافی کرتا ہے ۔ اکثریتی طبقہ اسے سوشل ویب سائٹس پر ہیرو بناتا ہے ۔ جب بہت ہنگامہ بڑھتا ہے تو شمبھولال جیل جاتا ہے ۔ لیکن جیل سے بھی وہ مسلمانوں کے خلاف ویڈیو بھیجتا ہے جس میں وہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا ہے ۔ مگر کوئی آواز نہیں اٹھتی ۔

بے رحم موت نے مسلمانوں کا گھر دیکھ لیا ہے ۔ہر شہر میں موت ۔ گلی میں موت، چوراہے پر موت ، نکڑ پر موت….

ہم کچھ بھی کہنے اور کرنے کے قابل نہیں تھے .کیوں کہ سیاست سے سماج تک ہمارے لئے کویی جگہ کویی حیثیت تھی ہی نہیں . ہم متحد ہوئے تب بھی ہلاک ہوتے رہینگے . راستہ تلاش کرنا ہوگا . حکومت یہی ہے .آئندہ بھی ہوگی .اپازیشن مر چکی ہے .لیکن ہم ابھی بھی زندہ ہیں . ہمیں اپنی آواز تیز کرنی ہوگی . تبریز کی موت کے بعد فیس بک پر دو غیر مسلموں کا بیان دیکھنے میں آیا . دونوں نے لکھا تھا ، کہ ہم تبریز کی مدد کرنا چاہتے ہیں . مدد کرنے والے اب بھی ہیں . سچ بولنے والے بھی ہیں . سیاست یہی رہے گی .آندھیاں تیز ہونگی . نا امیدی کفر ہے . سب کو مل کر آگے کی فکر کرنی ہے . ہندوستان کی دیگر اقلیتوں کو بھی ساتھ لینا ہے . حکومت سے مکالمے کرنے ہیں .اسکے لئے ملی تنظیموں کو بھی آگے آنا ہوگا . ظلم کے خلاف اب خاموش نہیں رہنا ہے .

Comments are closed.