پنچایت سے پارلیمنٹ تک گونجے اللہ اکبر

مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ ،کرناٹک۔9986437327

ملک میں حالات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں ، موجودہ حالات ایمرجنسی کے حالات سے بدتر ہوچکے ہیں ، اندرا گاندھی کے دور میں اعلانیہ ایمرجنسی کا دور تھا لیکن مرکز میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہوچکی ہے اور یہاں مسلمانوں و دلتوں کا قتل عام شروع ہوچکا ہے ۔ ملک بھر میں نفرت کی آگ اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس آگ کو برداشت کر نا اب حد سے باہر ہوگیاہے ، ان حالات میں مسلمانوں کو جس طرح سے رد عمل ظاہر کرنا تھا اس رد عمل کو ظاہر نہیں کیا جارہاہے ، کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ، بنگال سے لے کر احمد آباد تک سنا ٹا ہی سناٹاہے ۔ مسلم تنظیمیںایک طرح سے مفلوج نظر آرہی ہیںاور ایسا محسوس ہورہاہے کہ مسلمانوں کی تنظیموں کو گروہی تشدد کی کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔ ہاں کچھ مقامات پر مسلمان احتجاج کررہے ہیں لیکن اس احتجاج کی آواز وہیں کہ وہیں دب کر رہ گئی ہے ۔ ملک بھر میں مسلمان پریشان ہیں کہ آج تبریز انصاری کا نمبر ہے تو کل ہمارا نمبر ہوگا۔ کل ہمارے گھروں سے میتوں کے جلوس نکلیں گے اور ان جلوسوں کو شان سے نکالاجائیگا۔ ہمارے مرنے پر بھی تنظیموں کے ذمہ داران ہمارے گھر آئینگے، لواحقین کے ہاتھ میں لاکھ ۔ دو لاکھ روپیے کا چیک تھمائینگے ، کچھ لوگ اپنی طرف سے مقدمہ لڑنے کا دعویٰ کرینگے ۔ کچھ تنظیموں کی جانب سے یہ کریڈیٹ لینے کی دوڑ ہوگی کہ ہم نے ہی مرحوم کے لئے انصاف کی آواز اٹھائی ہے ۔ کچھ سیاسی و ملی لیڈران آئینگے اور ہماری میت کے ساتھ ایک سیلفی لینگے ، سیلفی ہماری میت کے ساتھ لینے کا موقع نہ ملے گا تو ہماری بیوائوں اور ہماری مائوں و بچوں کے ساتھ لینگے ، اسے سوشیل میڈیا پر شئیر کرینگے ، اس پر لائک اور کمنٹ کی برسات ہوگی ، کچھ لوگ تبصرے کرینگے اور کچھ آہیں بھرینگے اور کچھ یہ کہیں گے کہ چلو ایک گیا اچھا ہی ہوا بہت قوم کی باتیں کرتا تھا یاپھر کہینگےبہت اڑتا تھا ۔ آزادی سے قبل جس طرح سے مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہاتھا اسی طرح کا مناظر آج ملک میں دیکھنے کو مل رہے ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دور میں انگریز زندہ باد کے نعرے لگوائے جاتے تھےاب جئے شری رام کے نعرے لگاوائے جارہے ہیں ، نعرے لگا کر بھی مسلمان مررہاہے ، نعرے نہ لگا کر بھی مررہا ہے ایسے میں مسلمانوں کے عمائدین ، قائدین اور مفکرین اب بھی عید ملن پر وگراموں میں سرگرم نظر آرہے ہیں ۔ جمیعت العلماء کی جانب سے جمہوریت بچائو پروگرام منعقد کیا جارہاہے ، عید ملن پارٹی جمیعت العلماء کی جانب سے منعقد ہورہی ہے ، نظام اسلام کے نام پر جماعت اسلامی کے پروگرام ہورہے ہیں ، عظمت صحابہ کے نام سے جمعیت اہل حدیث پروگرام منعقد کررہی ہے ، صوفی کانفرنسوں کا اہتمام  بریلی مکتب فکر کی جانب سے منعقد ہورہے ہیں ، ہر کانفرنسوں میں لاکھوں لوگ جمع ہورہے ہیں ، ہر کانفرنس پر کروڑوں روپئے خرچ ہورہے ہیں لیکن جب بات مسلمانوں کی خون کی آرہی ہے تو کو ئی تنظیم کوئی جماعت ملک میں سڑکوں پر اترنے کا اعلان نہیں کررہی ہے ۔ ان حالات پر جب علماء سے بات کی جارہی ہے تو کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے اس لئے ہم مار کھارہے ہیں ، ٹھیک ہے تبریز انصاری کے اعمال ٹھیک نہیں ہونگے لیکن دہلی میں خود ایک عالم مارا گیا ، دیوبند کو جانے والے طلباء اکثر تشدد کا شکار ہورہے ہیں تو کیا یہ لوگ بھی اعمال کی برائیوں کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں ؟۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ، ملک کے ہر کونے کونے سے مسلمانوں کو احتجاج کے لئے اترنا تھا، سڑکیں جام کرکے اپنے مطالبات پورے کروانے تھے ، گرام پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ احتجاج کرنا تھامگر اب بھی ہمارے قائدین حکمت کا نام لے کر مسلمانوں کی لاشوں کی گنتی کررہے ہیں ۔ مرنے والے کے لواحقین کی تعزیت کررہے ہیں ،انہیں معاوضہ دینے کی پہل کررہے ہیں ۔ آخر کتنے میتوں کے گھروں میں آپ معاوضہ دینگے ، کتنے بیوائوں کو دلاسہ دینگے ؟۔ کتنے مائووں کی اجڑی گودوں کو دیکھیں گے ، اگر یہی واقعات ہماری تنظیموں کے ذمہ داروں کے گھروں میں خاندانوں میں پیش آئینگے تو کیا تب بھی یہی کہا جائیگا کہ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ؟۔آخر کس عمل کی بات کی جارہی ہے ، ہمارے پاس تو پہلے سے زیادہ مسجدیں ہیں ، گلی گلی میںمدرسے ہیں ، گھروں گھروں میں مکتب بن چکے ہیں ۔ پہلے سے زیادہ لوگ عمرہ پر جارہے ہیں ، پہلے سے زیادہ لوگ حج کررہے ہیں تو کونسا عمل بچ گیا ہے ؟۔ ہماری نظر میں کوئی عمل بچا ہے تو وہ عمل جہاد فی سبیل اللہ کا ہے لیکن جہاد اس ملک میں مقصود نہیں ہے تو ہمیں اس ملک کے قانون کے مطابق اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانی ہوگی ۔ آخر کیا ہوگیا ہے ہماری قوم اور قوم کے قائدین کو جو اس طرح سے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ؟۔ کیا انہیں ان پرندوں کا انتظار ہے جنہوںنے کعبے کو ڈھانے والے ہاتھیوں کو تباہ کیا تھا ؟۔ کیا انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا انتظار ہے جنہوںنے بیت المقدس کو فتح کیا تھا یا پھر وہ محمد بن قاسم ؒ کے انتظار میں ہیں؟۔ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہیں آئیگا بلکہ ان شخصیات کے طرز عمل کو ہمیں اپنانا ہوگا، ہم اس بات کو کیوں ٹھکرا رہے ہیں کہ قرآن نے کہا ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو بدلنے کا فیصلہ نہیں کرتی اس وقت تک اللہ انکے حالات نہیں بدلے گا ۔ قرآن میں آنے والے زکوٰۃکو ہم باریکی سے لوگوں کو سمجھاتے ہیں اور زکوٰۃ کو حاصل کرنے کے لئے ہر طریقے کو اپناتے ہیں لیکن حالات کو بدل کر ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیوں جذبہ نہیں پیدا کررہے ہیں۔

ان سیاسی پارٹیوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا جنہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کا مسیحا کہلایا ہے ۔ ملائم سنگھ یادو ، اکھیلیش یادو ، لالو یادو، مایا وتی ، ممتا بینرجی ، سونیا گاندھی ، راہول گاندھی تو آج ہمارے ملی قائدین کی نظر میں سیکولرہیں تو کیوں کر ان سیکولر لیڈروں کو مجبور نہیں کیا جارہاہے کہ وہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے آگے آئیں ؟۔ کیا ان لیڈروں کو انکی اوقات دیکھا نے کا وقت نہیں آیا یا پھر ان کی جانب سے ملنے والی مراعات و چندے زبان کھولنے کے لئے اجاز ت نہیں دے رہے ہیں ؟۔ مسلمانوں کے لیڈروں ، ملی رہنمائوں ایک بار اس قوم میں جذبہ اخوت پیدا کرکے تو دیکھیں ، ایک بار سڑکوں پر اتر کر ایوانوں کے خلاف کھڑا کرکے تو دیکھیں ، ایک بار ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھاکر جیلوں کو بھر کے تو دیکھیں کس طرح حکومتیں لرز جائینگی ، کس طرح سے ہماری آنے والی نسلیں محفوظ ہوجائیں گی ، روز روز کے مرنے سے اچھاہے کہ ایک ہی بار میں مرجائیں، بچ جائیں تو غازی ، مرجائیں تو شہید کہلائینگے ۔ آج امت کو بچانے کا وقت آگیا ہے ، امت صرف سیلاب ، زلزلے کے قہر سے ہی نہیں بلکہ ظالم حکمرانو ں ، شرپسندوں سے بھی پریشان ہے ، اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے اپنے محل نما گھروں سے باہر آئو ، اپنی ایر کنڈیشن گاڑیوں سے اترو۔ بریانیوں اور مرغیوں کے کھانوں کو ترک کرو ، آؤ مسلمانوں کی حفاظت کے لئے آگے آؤ ۔ گروہی تشدد سے بچانے کے لئے تحریک چلاؤ ، ہمیں اب ریشمی رومال تحریک کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ستیہ گرہ کی ضرورت ہے ۔ہمیں تحریر اسکوائر ہونے والے احتجاج کی طرح احتجاج کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر اب بھی ان ضرورتوں کو ضروری نہ سمجھا جائے تو ہمیں اپنے آپ پر اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھنے کی ضرورت ہے ۔

Comments are closed.