قانون و عدلیہ سے مسلمانوں کا یقین اٹھ چکا ہے!

شہاب مرزا
9595024421
اس ملک میں عدلیہ قانون, جمہوری اقدار وغیرہ وغیرہ جیسی چیزوں سے تو مسلمان کب کا بھروسہ چھوڑ چکے جو لوگ یا لیڈر مزکورہ باتوں کا واسطہ دے کر جمہوری نظام کی تائید کرتی ہے وہ ایک بھدہ مذاق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتاکیوں کہ جس ملک میں اکثریتی طبقے کے لوگ معمولی سی موٹر سائیکل چوری کے بہانے ایک مسلمان نوجوان تبریز انصاری کو بارہ گھنٹے تک بجلی کے ستون سے باندھ کر پیٹ پیٹ کر قتل کرتے ہیں اور اس کا باقاعدہ ویڈیو بنا کر پورے ملک میں وائرل کرتے ہیں دنیا کی تاریخ نے کبھی ایسی حیوانیت نہیں دیکھی ستم تو یہ ہے کہ جس قانون اور عدلیہ کی بات کی جاتی ہے اور اس کا جھوٹا سہارا مسلمانوں کو دیا جاتا ہے وہ سرے سے صفاک مجرموں کی م تائید اور امداد میں اپنی پوری سرکاری قوت صرف کر دیتا ہے ایسے حالات میں اگر کوئی یہ کہے کہ ابھی قانون زندہ ہے، ابھی انصاف زندہ ہے ابھی جمہوری اقدار باقی ہے، تو اسے بڑا مزہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ ان اقدار پر یقین کرنے کی قیمت مسلمان روزانہ ہندوتوادیوں اور گورکشکوں کے ہاتھوں قتل ہو کر ختم چکا رہے ہیں حد تو یہ ہے کہ جس ملک میں کھلے عام ہاتھوں میں ہتھیار لے کر جئے شری رام کے نعرے لگا وائے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے مسلمانوں کو اس ملک سے صفحہ ہستی سے مٹانے کے نام پر حکومت قائم کی جاتی ہے اور حکومتی ایوانوں میں سب سے بڑا مقام حاصل کرنے کا معیار ہی مسلم دشمنی سے طئے کیا جاتا ہےاور اس کے باوجود مسلمان ہی کو اللہ ھو اکبر کہنے پر ملک کی سلامتی کو خطرہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو فرقہ پرستی کے خلاف ووٹ دے کر خود کو سیکولر بتاتے ہیں اور نربھیا کے واقعے میں پورے ملک بھر میں موم بتی جلا کر سوگ مناتے ہیں ان لوگوں کو بھی ان واقعات کے خلاف آواز بلند کرنے کے دوران سانپ سونگھ جاتا ہےایسے میں انکی خاموشی ملک کے مسلمانوں میں اس بات کا شدید احساس پیدا کرتی ہے کہ اب اس ملک میں مسلمان کو اپنی حفاظت خود ہی کرنی ہوگی غضب زمانہ قدیم کی طرح یا تو خیالوں میں محسوس ہونا ہوگا یا کوئی اور راستہ جمہوریت کے خلاف محسوس ہوتا ہےان حالات کا ذمہ دار تو کسی اور کو گرد عناصر یہ بیوقوفی ہوگی اور کسی جمہوریت کا حوالہ دینے والا کھائے کی بات ماننا بھی سرے حماقت ہوگی کیونکہ اب ہمارے پاس مزید بلقیس بانو، آصفہ، احسان جعفری، رقبر ، اخلاق احمد، پہلو خان، محسن شیخ، حافظ جنید سے لیکر تبریز احمد تک تمام ہی کی طرح ہندوازم کابلی چڑھنے کے لیے کوئی باقی نہیں رہا ساری دنیا جانتی ہے اور اقوام متحدہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ جو شخص جہاں پیدا ہوا اسے اس کا اور اپنی جان مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کا پورا حق حاصل ہےچاہے اس کا طریقہ کوئی بھی ہو اسے حق سے اس ملک میں مسلمان کو کوئی محروم نہیں کر سکتا نہ عدلیہ نہ قانون اور ناہی مودی کی ملٹری!
جو ہوا وہ اتنا کافی ہے کہ گذشتہ 70 سالوں سے مسلمانوں کی پیشانیوں پے امن پسندی ،جمہوریت پسندی اور ملک کی عدلیہ کے احترام کا طمغہ سجایا جا سکے اسی کے لئے آپریشن پولو سے لے کر اب تک لاکھوں بے قصور مسلمانوں کی جانیں اور عزتیں تار تار ہوتی رہیں اس سے زیادہ اس طمغے کی قیمت مسلمان نہیں چکا سکتے لہذا جمہوری اقدار اور ملک کی عدلیہ و قانون کی قصیدہ خوانیاں محض ایک افسانے سے زیادہ کچھ نہیں…
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.