بڑے بڑے بازی گر قائدین کہاں گئے؟

توصیف القاسمیؔ

پیراگپوری، سہارن پور،موبائل نمبر8860931450:

 

ہجومی تشدد کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اخلاق کے قتل 28؍ستمبر 2015 سے شروع ہوکرتبریز انصاری 17؍جون2019 اور 20؍جون2019کو مولانا مبین پر حملے تک تقریباً پچاس لوگوں کو قتل کردیاگیایا نیم مردہ کردیاگیا۔

حالت یہ ہوگئی ہے کہ ٹرینوں، بسوں میں سفر کرنا یا کسی اور مقام پر جانا ’’مرگ مفاجات ‘‘کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ یہ جنونی ہندو ٹولہ ماورائے عدالت Pre-Cort قتل و خونریزی میں آج سے ملوث نہیں ہےبلکہ مہاتما گاندھیکے قتل 30؍جنوری 1948سے یہ آتنک وادی گروہ علانیہ اور خفیہ متحرک ہے۔

بی جے پی کے حکومت میں آتے ہی یہ دہشت گرد گروہ اپنے حوصلے اور امنگیں پورا کرنے کے لیے آزاد ہوگئے، اعلیٰ اداروں میں اور اونچی پوسٹوں پر براجمان اعلیٰ افسران اس جنونی ٹولے کے لیے ’’ہری جھنڈی ‘‘ ہیں۔خیال رہے کہ شیاطین اور بدمعاش افراد ہمیشہ سے اپنے مقدر کی منحوس ذمہ داری پوری کرتے رہتے ہیں۔مقابل گروہ کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی منصوبہ بندی Planningکچھ اس طرح کریں کہ شیاطین اور ظالم افراد اپنی حدوں میں رہیں، ہم مسلمان اگر اپنے محاسبےSelf Accountabilityکے تحت اپنے حالات کا جائزہ لیں،اپنی مذہبی اور سیکولر قیادت Leadershipکا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیں تو آپ ہمالیائی غلطیاں پائیں گے۔ راقم کی نگاہ میں ہندوئوں کی غنڈہ گردی قابل مواخذہ نہیں۔ قابل مواخذہ Criticizable مسلمانوں کی مذہبی اور سیکولر قیادت ہے۔

 

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا

مجھے رہزنوں سے گِلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے

شہاب جعفری

بڑی بڑی تنظیمیں، بڑی بڑی شخصیات جن کے استقبالی کروفر میں شہر کے شہر جام کردیے جاتے ہیں، جن کے اشارۂ کُن (معاذ اللہ) پر میدان بھردیے جاتے ہیں، جن کے انتقال پر ہر طرف یہ صدا گونجنے لگتی ہے کہ حضرت کی جگہ پُر نہیں ہوسکتی، کہاں ہیں یہ بازی گر قائدین؟؟؟شہرت و دولت کے لالچی ان قائدین کو کوئی بتلائےکہ مولانا آزاد نے موجودہ حالات کی پیش گوئی کردی تھی تو کیوں نہیں جنونی ہندو ٹولے کے خلاف مضبوط لائحہ عمل تیار کیاگیا اور آج امت کو میدان قتل و خون میں نہتے چھوڑکر سفر عمرہ ، سفرحج پر رواں دواں ہو، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے ایسے قائدین پرانما اخاف علیٰ امتی الائمۃ المضلین

کیا واقعی ہم بے بس ہیں؟

ہرگز نہیں! صرف منصوبہ بندی Planning، حوصلہ Motivation اور اتحاد Unityکی کمی ہے۔

مجھے حیرت ہے کہ ملت ابھی تک ہجومی تشدد Moblynchingکا جائزہ نہ لے سکی تاکہ ابتدائی مدد First Addکے طورپرملت کی رہنمائی کی جاسکے، ملک میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں ہمیشہ پولیس جانب داری کا رویہ اختیار کرتی ہے تو Self Defanceکے تحت ’’اپنی حفاظت آپ ‘‘کیوں نہیں کی جاتی؟ اور باقاعدہ ہر مسلم ادارے میں ’’خودحفاظتی ‘‘ کی تفصیلی ہدایت و تربیت کیوں نہیں دی جاتی۔

مسئلۂ طلاق میں مسلم قیادت گورنمنٹ کے بل کی مخالفت میں یک زبان ہوگئی، ہجومی قتل کے خلاف ہم بہ یک آواز کب ہوں گے؟ حملہ آوروں پر پلٹ حملہ Counter-attack کرنے کا شوق کب دلائیں گے؟ ہماری وہ قیادت جو صبر و برداشت کا سبق سکھاتی ہے، عزم و حوصلے کے ساتھ حفاظت جان و مال کے طریقے کب سکھلائے گی؟؟اس ملک میں اقلیتیں Minoritesاور بھی ہیں، موت و زندگی میں دکھ سکھ میں ، اظہار خوشی اور نالۂ غم میں اُن کے ساتھ معاہدے اور رابطے کرکے جنونی ٹولے کے ’’زعم اکثریت ‘‘کو بکھیرا جاسئے، اس پس منظر میں دلت فرقہ، سکھ فرقہ اور عیسائی ہمارے لیے انتہائی کارآمد ہوسکتے ہیں۔

بعض لوگوں کو میں نے مقابلہ آرائی کا مشورہ دیاتو انھوں نے کہاکہ نہیں! ملک میں خانہ جنگی Civil-warکے حالات پیدا ہوجائیں گے، یہ تبصرہ سراسر غلط ہے، ایک تو پورا ہندو سماج اس جرم میں مبتلا نہیں، دوسرے یہ کہ ہندوؤں کی بہت بڑی تعداد اس جرم کے خلاف سڑک سے پارلیمنٹ تک سراپا احتجاج ہے، تیسرے یہ کہ خانہ جنگی وہاں ہوتی ہے جہاں دو متوازن قومیں یا گروپ آپس میںبرسرِ پیکار ہوں، بھارت میں موجودہ صورت حال خانہ جنگی کی نہیں، بلکہ مسلم نسل کشی کا معاملہ ہے، اس کا حل صرف اور صرف اقدامی دفاع ہے۔نعرۂ تکبیر اللہ اکبر!

مولانا عمرین محفوظ رحمانی نے اپنے مضمون ’’ہجومی تشدد۔۔ حل کیا ہے؟ ‘‘ کے تحت پانچ چیزیں بتلائی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

(1) مسلمانوں کو اس بات کو ذہن نشین کر لیناچاہئے کہ بزدلی کی موت مرنامسلمان کے لیے باعث ننگ اور عار ہے، خدانخواستہ کوئی مسلمان ہجومی تشدد کاشکار ہو تو اسےقاتلوں ،درندوں اور انسان نما بھیڑیوں سے جان کی بھیک مانگنے اور رحم و کرم کی درخواست کرنے کے بجائے دفاع اوراقدام کاراستہ اختیار کرنا چاہئے،موت برحق ہے اور جب مرنا ہی ٹھہرا تو بے بسی اوربزدلی کے ساتھ کیوں جان دی جائے۔بہادری اور جوانمردی کے ساتھ جاں جاں آفریں کے سپرد کی جائے،اوردوچار قاتلوں اور خونیوں کوجہنم رسید کرکے جنت کی راہ لی جائے،بھاگلپور کے بد ترین فساداوراسی کے آس پاس ملک کے مختلف حصوں میں ہونے والے فسادات کے موقع پر امیر شریعت حضرت مولانامنتﷲ رحمانیؒ نے مسلمانان ہند کو بالکل واضح اوردو ٹوک پیغام یہ کہہ کر دیاتھاکہ ’’فسادات کایہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک کہ فسادی خود اپنی جان کا خطرہ محسوس نہ کریں،اگر اس نسخے پر ملک کے دوچار مقاما ت پر بھی عمل کیاگیاتو صورت حال کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی اورظاہر ہے کہ یہ کوئی لاقانونیت نہیں ہے،دنیاکاہرقانون اپنے دفاع کاحق دیتاہے،جب قاتل بڑھ چڑھ کربیدردی کے ساتھ کسی بے قصو ر شخص کو مار رہے ہوں تو قانون ٬انصاف اور مردانگی سب کا یہی تقاضہ ہے کہ بے بسی کے ساتھ مرنے کے بجائے انسان بہادری کی موت مرے،اور آخری سانس تک اپنادفاع کرے۔

(2) تمام مسلم تنظیمیں جماعتیں، ادارے اور تمام مسلم قائدین اجتماعی طریقے پرصدر جمہوریہ اور وزیر داخلہ سے ملاقا ت کریں، اور انہیں اس صور ت حال کی سنگینی اور اس کے خطرناک نتائج سے واقف کرائیں، اور اس سلسلے میں ایک جرأت مندانہ یادداشت ان کے حوالہ کریں جس میں صاف صاف یہ بات لکھی ہوئی ہو کہ اب پانی سر سے نہیں چھت سے اونچا ہو چکا ہے، اور اگر اس صورت حال پر جلد قابو نہیں پایاگیا تو ملک میں بدترین دہشت گردی پیدا ہونے کاامکان ہے۔

(3) تمام مسلمان ایم ایل ایز اور ایم پیز(چاہے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں )پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہوکرماب لنچنگ کے خلاف احتجاج کریں اور چوں کہ ماب لنچنگ کاشکارپچھڑے سماج کے لوگ بھی ہوئے ہیں،اورہورہے ہیں اس لیے پچھڑے سما ج کے ایم ایل ایزاور ایم پیز کو بھی ساتھ لینے کی کوشش کی جائے۔

(4) حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کو مسلمانوں کی کل ہند تنظیموں اور جماعتوں کے لیٹر پیڈ پر خط لکھے جائیں،جس میں اس پوری صورت حال سے واقف کرایا جائے اوران سے اس میں مداخلت کی گذارش کی جائے۔

(5)جن مسلم ممالک میں دینی حمیت و غیرت ہے ،مثلاً ترکی قطر وغیرہ ان ممالک کے سفارت خانوں کی جانب سے حکومت ہند پردباؤ ڈالا جائے کہ وہ اس صورت حال پر جلد قابوپانے کی کوشش کرے،اس سلسلے میں مسلم تنظیموں کے وفود کو مسلم ممالک کے سربراہان کو خط بھی لکھنا اچاہئے، اورسفارتخانوں میں جاکر ملاقات بھی کرنی چاہئے۔

اوپر جوباتیں لکھی گئی ہیں وہ اس مسئلہ کافوری اور ہنگامی حل ہوسکتی ہیں، جن سے کسی حد تک ان معاملات پرروک لگے گی لیکن اصل اور مستقل حل برادران وطن سے خوشگوار تعلقات کااستوار کرنا، اور نفرت کے اس زہر کو دور کرنے کی فکر کرناہے جو بہت تیزی کے ساتھ پھیلا یاجا رہاہے۔ گاؤں ،دیہات سے لے کر شہروں تک برادران وطن کے ساتھ مختلف مناسبتوں سے گفتگو ، ملاقات او ر باہمی ربط ضروری ہے۔ اس کی بہت آسان اور مفید شکل یہ بھی ہوسکتی ہے ، ہرعلاقے میں ’’مسجدیں سب کے لیے ‘‘مہم چلائی جائے،جس میں برادران وطن کو بلا کر مسجد کادورہ کرایا جائے،ان کااعزاز و اکرام ہو، اور ا ن کی ضیافت مسجد ہی میں کی جائے،اس کے بہت اچھے اور خوشگوار نتائج نکل سکتے ہیں،اور باہمی روابط کے قائم کرنے کے لیے یہ تقریب سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔

نوٹ:

ہماری یہ تحریر اور کوشش حملہ آور ہندو جنونی ٹولے کے خلاف ہے ، باقی ہم سب ہندوستانی مل کر نئے انڈیا کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کریں.

Comments are closed.