حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری

ڈاکٹر سلیم خان

سورۂ آل عمران کے آخری رکوع میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ‘‘اللہ کے لیے ہی ہے آسمانوں اور زمین کی حکومت اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے’’۔ اس حکومت کا ثبوت اور قدرت کی نشانی اگلی آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ‘‘زمین و آسمانوں کی پیدائش میں اور رات و دن کے باری باری سے آنے میں ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں’’۔ مثلاً اکیس جون کادن طویل ترین اور ۲۲ کی رات سال بھر میں مختصرترین شب ہوتی ہے۔ دنیا کا بڑا سے بڑا حکمراں اس کو آگے پیچھے نہیں کرسکتا ۔ اس کے بعد گردش زمانہ ۲۲ ستمبر کودن اور رات کا دورانیہ تقریباً برابر کردیتا ہے۔ دنیا بھرکے حکمراں مل کربھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتے۔اسی طرح ۲۲ دسمبرکو سال کا سب سے چھوٹا دن اور طویل ترین رات وارد ہوجاتی ہےکسی کی مجال نہیں کہ وہ رب کائنات کے اس منصوبےمیں تعجیل یا تاخیر کرے نیزا کیس یا ۲۲ مارچ کو دن اور رات کے مساوی ہوجانے میں رکاوٹ ڈالے ۔

کائنات ہستی میں اللہ کے اقتدار اعلیٰ سے غافل ہوکر جب انسان ظالموں کے ٹھاٹ باٹ کو دیکھتا ہے تو مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ گردش لیل و نہار پوری طرح اللہ کے قبضۂ قدرت ہیں اور اس کی مرضی سےکبھی دن کو طویل تو رات کو ہوجاتی ہے اور کبھی اس کے اذن سے رات لمبی اور دن چھوٹا ہوجاتا ہے ۔ درمیان وہ دونوں یکساں بھی کر دیئے جاتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہے‘‘دنیا کے ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ محض چند روزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے’’۔ یعنی اس دنیا کی زرق برق کامیابی ایک سراب ہے، اس کے برعکس ‘‘ جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ کی طرف سے یہ سامان ضیافت ہے ان کے لیے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے’’۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے ہوشمندی شرطِ لازم ہے۔

اللہ کی معرفت کا مطلب بے اختیار پکار اٹھنا ہے کہ ‘‘اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بےمقصد نہیں بنایا’’۔ذات باری تعالیٰ اس عیب سے ‘‘پاک ہے’’ کہ وہ کوئی کارِ عبث کرے۔ یہی احساس انسان کو اپنے مقصدِ حیات کی نشاندہی کراتا ہے۔ اس آیت کے باقی ماندہ حصے میں انسانی زندگی کا مقصد بیان کرنے کے بجائے اس کی روشنی میں اختیار کیا جانے والا رویہ بصورتِ دعا پیش کیا گیا فرمایا‘‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے پروردگار! بے شک جسے تو نے دوزخ میں داخل کر دیا اسے تو نے ذلیل و رسوا کر دیا۔ اور ظالموں کے لئے کوئی یار و مددگار نہیں ہیں’’۔ آخرت کے اس منظر میں جس ظلم کا ذکر ہے وہ کوئی فرد کسی اور پر نہیں کرتا بلکہ انسان خود اپنے آپ پرکرتا ہے۔

اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے چہار جانب پھیلی ہوئی نشانیوں کا مشاہدہ کافی ہے مگر آخرت کی رسائی کے لیے غورو تدبرلازمی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے ‘‘ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتےہیں ’’ ۔ یہ دانشمندذکر و فکر کے علاوہ غورو فکر بھی کرتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی خدا کو یادتو کرے مگر زمین و آسمان کی خلقت پر غورو خوض نہ کرے تو اللہ کی معرفت کے باوجود آخرت کے ادراک سے محروم رہ سکتاہےمگر جورب کائنات سے غافل ہوکرغور و فکر کرتاہے وہ وہم وقیاس کے سہرا میں بھٹکتا رہتا ہے۔ انہیں حکمرانی تو نظر آتی ہے مگر حکمراں نظر نہیں آتا۔ ایسےسائنسدانوں ، مفکرین و دانشوروں پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ؎

ڈھونڈنے والاستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکار کی دُنیا میں سفر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا

زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

Comments are closed.