لبرل مسلمان

مدثراحمد
ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب ۔شیموگہ۔کرناٹک:9986437327
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہم نے تمہار ے لئے اس دین اسلام کو آسان کیا ہے اور اللہ نے قرآن پاک کو بھی آسان کرنے کی بات قرآن پاک میں کی ہے ۔ لیکن ہمارا دین اس قدر بھی آسان نہیں ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق ، اپنی سہولت کے مطابق عمل کرے اور دوسروں کو یہ بتانے کی کوشش کرے کہ دین اسلام کو اپنی من مانیوں کے ذریعے سے اپنایا جاسکتاہے ۔ پچھلے کچھ دنوں سے دیکھا جارہاہے کہ مختلف مسلکو ں ومکتبوں کے لوگ دین اسلام میں اس طرح سے تبدیلیاں لانے لگے ہیں جیسے کہ اسلام ، خدائی دین نہیں بلکہ ہمارے اور آپ کے خیالات سے بنا ہواہے ۔ آج کل ایک بڑا طبقہ اپنے آپ کو لبرل مسلمان کہنے لگا ہے ، لبرل مسلمان کے معنی یہ ہوچکے ہیں کہ اپنی سہولت کے مطابق اسلام کو اپنایا جائے اور جو پسند ہو وہ قبول کیا جائے باقی کو نظر انداز کیا جائے ۔ کچھ گوگل اور ماڈرن اہل علم حضرات سے متاثر ہونے والے لوگ اپنے آپ کو لبر ل مسلمان کہنے لگے ہیں اور قرآن و حدیث کو اپنی سوچ کے مطابق استعمال کرنے لگے ہیں ۔ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اسلام کو ماننے والے لوگ آخر ی وقت میں قرآن و حدیث کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے لگیں گےیہی آج ہورہاہے ۔ اب تک ہم نے سنا تھا کہ جو شخص اللہ کے نبی کی سنتوں پر عمل نہیں کرتا وہ مومن نہیں ہوسکتا ، لیکن ایک اہل علم نے یہ فتنہ شروع کیاہے کہ احادیث کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو یا تین درجن ہی ہیں اس سے زیادہ احادیث نہیں ہیں ، اسی طرح سے زکوٰۃ کے معاملے میں بھی فتنہ شروع کیا گیا ہے جس میں کہا جارہاہے کہ جو زیورات زیب تن کیے جاتے ہیں اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے بلکہ صرف انویسٹمنٹ کے لئے استعمال کئے جانے والے سونے پر ہی زکوٰۃ فرض ہوتاہے ۔ دین کے ہر معاملے کو نئے سرے سے پیش کرنا اب مسلمانوں میں عام ہوتا جارہاہے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے درمیان مسلمانوں کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود مومنین کی تعداد نہ کہ برابر ہوتی جارہی ہے ۔ لبرلزم کا انقلاب یوں تو یوروپ میں برپا ہوا تھا اور وہاں کے عیسائیوں نے لبرلزم کے نام پر عیسائی مذہب کو ہی بدل کر اپنے طریقے سے پیش کیا ، جو چیزیں حرام تھیں انہیں حلال بنا لی تھیں ، زناء ، شراب نوشی ، فحاشی کو انہوںنے اپنے لیے حلال بنالیا اب مسلمان بھی اسی کی طرف جانے لگے ہیں ۔ عرب ممالک میں شمار ہونے والے سعودی ، عمان ، قطر ، مراکش جیسے ممالک میں بھی لبرلزم کا فتنہ عام ہوتا جارہاہے اور وہاں کی حکومتیں اسلامی قوانین کو معیوب سمجھنے لگی ہیں ۔ اسکی تازہ مثالیں سعودی عرب کے موجودہ قوانین کے ذریعے سے دیکھی جاسکتی ہیں ۔ پہلے تو سعودی حکومت میں اسلامی قوانین کو سختی سے نافذ کیا جارہاتھا لیکن اب ان قوانین کو یہ کہہ کر ہٹایا جارہاہے کہ یہ حقوق انسانیت کو پامال کرنے والے قوانین ہیں اور ان قوانین میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے مطابق مرد و خواتین کو یکساں حقوق دئے جارہے ہیں ، کل تو جوعورتیں باپردہ اپنے محرمین کے ساتھ نکلا کرتی تھیں وہی خواتین آج بے پردہ ہوکر سیر سپاٹے کرنے لگی ہیں ، غرض کہ اسلام نے جن چیز وں سے مسلمانوں کو روکا تھا وہ تمام کام آج معتدلیت کے نام پر اپنائے جارہے ہیں ۔ سعودی حکومت میں لبرلزم کے نام پر یہاں تک حدیں پارکردی ہیں کہ اب امریکی حکومت اور سعودی حکومت کے اشتراک سے ایک ایسی کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا کام یہ ہے کہ قرآن پاک میں موجود جہاد ، پردہ ، اسلامی تجارت کے اصولوں کے احکامات کو ہٹانے یا اس میں ترمیم کرنا ہے ۔ اس کے لئے سعودی حکومت نے بھی اپنے علماء نما لوگوں کو کمیٹی میں شامل کیا ہے اور یہ کام تیزی سے چل رہاہے ۔ اس طرح سے سعودی حکومت نے امریکہ اور زیونسٹ کا جو منصوبہ اسلام کو ختم کرنے کا ہے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات کردی ہے ۔لبرل مسلمان بننے کا نشہ صرف سعودی حکومت کو ہی نہیں بلکہ ہمارے ہندوستان میں بھی یہ تیزی کے ساتھ پنپ رہاہے ، 1857 کے بعد جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا قبضہ جمایا ، اس وقت کے علماء نے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی حکم کو فتویٰ بھی مانا گیا ، مجاہد آزادی شاہ ولی اللہ نے اس سمت میں باقاعدہ طورپر فتویٰ بھی جاری کیاکہ اللہ کی راہ میں نکلو ، جہاد کرو۔ اسی جہاد کے فتوے کے بعد مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف ہونے والی جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اللہ کی راہ میں نکلنے کے حقیقی مفہوم کو عمل کے ذریعے سے ثابت کردکھا یا ۔ لیکن آج ہم مسلمان ہم پر ہورہے ظلم و ستم کے باوجود اس قدر خاموش ہوچکے ہیں کہ مانو کچھ ہو ہی نہیں رہاہے ۔ جو لوگ مررہے ہیں انکی موت پر بھی ہماری خاموشی ہے اور جن لوگوں کی جانب سے اسلامی احکامات کے تحت آواز اٹھنی چاہئے تو وہ بھی خاموش ہوچکے ہیں ، یہی لبرلزم ہے یہی آزاد خیالی ہے ۔ جب تک مسلمان قرآن اور حدیث کو حقیقی طورپر نہیں سمجھتے اس وقت تک مسلمان مومن مسلمان نہیں بن سکیں گے ۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ آج لوگ قرآن و حدیث کو صحیح طریقے سے ماننے والوں کو شدت پسند یعنی فنڈامنٹلسٹ کہتے ہیں اور انکے طریقہ کار کو مذاق بناتے ہیں شاید یہی مذاق آج ہماری زندگیوں کے ساتھ مذاق بن رہاہے ۔ لبرل مسلمانوں کی وجہ سے ہی مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بھاگ رہی ہیں ۔ لبرل مسلمانوں کی وجہ سے آئی یم اے جیسی کمپنیاں مسلمانوں کو چونا لگارہی ہیں ۔ لبرل مسلمانوں کی وجہ سے ہی مسلم نوجوان نشے کے عادی ہورہے ہیں ۔لبرل اسلام کی سوچ کی وجہ سے ہی مدرسوں سے عالموں کے بجائے راویوں کی جماعتیں نکل رہی ہیں ۔ لبر ل اسلام کی سوچ کی وجہ سے ہی ہمارے یہاں ہونے والی گیارہویں ، بارہویں اور فاتحہ خوانی کے دستر خوانوں پر غریب ، مسکین ، یتیموں کے بجائے کافر ، مشرک تشریف فرمارہے ہیں ۔ لبرل مسلمانوں کی وجہ سے ہی اللہ کی راہ میں نکلنے والے مسلمانوں کو مجاہدین کے بجائے دہشت گرد کہاجارہاہے ۔ ہمیں آج لبرل اسلام کی نہیں بلکہ اللہ کے اسلام کی ضرورت ہے ، لبر ل اسلام کی نہیں قرآن میں بیان کردہ اسلام کی ضرورت ہے ۔ لبرل مسلمانوں کی نہیں بلکہ مومن مسلمانوں کی ضرورت ہے ۔ تبھی جاکر ہم اللہ کے حکم کے مطابق اللہ اشرف المخلوقات بن سکتے ہیں۔
Comments are closed.