ماب لنچنگ؛ پیغام بیداری !

مفتی محمد اشرف قاسمی
[email protected]
ملک میں پری پلاننگ کے تحت مسلمانوں کے ساتھ ماب لنچنگ اور متشددانہ کارروائیاں تسلسل کے ساتھ انجام دی جارہی ہیں۔ انہیں ماب لنچنگ کے بجاے کسی نے بجا طور پر پولیٹیکل مرڈر قرار دیا ہے۔ اس طرح ماب لنچنگ سے مسلمانوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ بلکہ اس کے اسباب و عوامل پر غور کرکے فتوحات کے دروازے کھولے جائیں۔
تعلیم یافتہ باکردار مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے بےہودہ الزام میں پھنسا کر پس دیوار زنداں ڈالنے اور اب ماب لنچنگ کے ذریعے مسلمانوں کو بے حوصلہ بنانے کی مکروہ کوششوں کے پیچھے معمولی اسباب و عوامل نہیں ہیں۔
ملک میں دو تین فیصد لوگ خود کو حکومت اور حکمرانی کے لیے پیدائشی طور پر مستحق سمجھتے ہیں۔ اس طبقے نے اپنے اسی خیال کے مطابق ملک کے اصل باشندوں کو سیکڑوں سال سے غلام بنا کر ان کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ایسے مظلوم طبقات کو اسلام نے انسانی شرافت و عظمت بخشی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے والی قوم ان کی غلامی سے جہاں آزاد ہوکر باعزت زندگی گزار رہی ہے، وہیں سیکڑوں سال سے غلامی کی چکی میں پسنے والی قوموں کو بھی اسلام آزادی اور عزتِ نفس سے جینے کا پیغام دے رہا ہے جس سے اس طبقے کے ہوش اُڑے ہوے ہیں اسے یقین ہوگیا ہے کہ اسلام کے ماننے والے ہماری غلامی قبول نہیں کریں گے اور یہی نہیں، بلکہ سیکڑوں سال سے ان کی غلامی میں پسنے والی قومیں بھی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہماری غلامی سے نکل جائیں گی۔
انہیں اسلام اور مسلمانوں سے شاید عداوت نہ ہوتی، لیکن چوں کہ اسلام ان کی بہیمیت اور منوواد پر شدید ضرب پہنچا رہا ہے؛ اس لیے جہاں وہ اپنے غلاموں یعنی ملک کے پسماندہ طبقات کو اپنی غلامی کی زنجیر میں باندھنے کی آخری کوششوں میں مصروف ہیں وہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی صف بستہ ہوچکے ہیں کہ یہ ہمارے غلاموں کو انسانی احترام اور آزادی کا سبق پڑھاتے ہیں۔
ایسی صورت میں مسلمانوں کو اپنے دعوتی فرائض اور مومنٹ کو منظم انداز میں تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
جس طرح ملک کے حالات بظاہر مسلمانوں کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت کے راستے بھی کھلتے جارہے ہیں۔
28 جون 2019ء کو شہر مہدپور (ضلع اجین ایم پی) میں ماب لنچگ کی روک تھام کے لیے ایک زبردست احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ جس میں مسلمانوں کے ساتھ بھیم سینا کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ ان کی شرکت پرغور کریں کہ:
آج سے چار پانچ سال قبل تک یہ حالات تھے کہ مسلمانوں کے کسی معاملے میں احتجاج کے لیے کوئی بھی غیر صاحب ایمان شرکت نہیں کرتا تھا؛ بلکہ فسادات وغیرہ میں شہر کی محروم الاسلام کمزور برادریاں ہی مسلمانوں کے خلاف پیش پیش ہوا کرتی تھیں۔ دو مرتبہ شتمِ رسولﷺ کا معاملہ ہوا۔ ہم نے اس کے خلاف احتجاج کے لیے شہر کے مسلم ذمہ داروں کو مشورہ دیا کہ اس احتجاج میں کچھ غیر مسلموں کو بھی بلایا جاے تو جواب ملا کہ مسلمانوں کے معاملے میں غیر مسلم حتی کہ O B C سے بھی کوئی نہیں آے گا۔
آج حالات یہ ہیں کہ انہیں کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اور ہمارے اسٹیج پر اپنے رضاکار نوجوانوں کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔
چنانچہ اس احتجاجی ریلی میں مسلمانوں کے ساتھ بھیم سینا کے کچھ لوگوں نے شرکت کی جس میں سینا کے ذمہ دار جناب ایڈوکیٹ مالوی جی نے دشہرہ میدان میں ہزاروں کے مجمع میں کہا کہ:
"مسلمانوں سے زیادہ ہم دلت سماج کے لوگ ظلم اور ناانصافی کے شکار ہیں۔ ہمیں ہندو کہاجاتا ہے؛ لیکن اس سماج میں ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے دولہوں کوگھوڑوں پر سوار نہیں ہونے دیاجاتا ہے۔ میں ایسے دھرم کو نہیں مانتا، دس سال ہوے پوری طرح ہندو دھرم چھوڑ چکا ہوں، ہمارے نوجوان بھی اب پڑھ لکھ کر ظالموں کو سمجھنے لگے ہیں۔ اور یقین ہوچکا ہے کہ مسلم قوم کے اتحاد اور تعاون سے ہی ہم عزت حاصل کرسکتے ہیں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر 7 ،8 سال کے اندر ظلم و ناانصافی کاسلسلہ نہیں روکا گیا تو ہم اپنے پورے سماج کے ساتھ مسجد میں جاکر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام دھرم قبول کریں گے۔”
اور پھر موصوف نے جے بھیم کے نعرہ کے ہمرشتہ اللہ اکبر کا نعرہ بھی اپنے کارکنان و رضاکاران کے ساتھ بلند کیا۔
اس سےقبل دو برسوں کے درمیان متعدد واقعات ہوے جس میں انصاف اور انسانی عظمت و کرامت حاصل کرنے کے لیے OBcs کے ذمہ داروں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اعلان کرنے والے قوم کے بااثر ذمہ داروں سے بندے،کی ملاقات اور مختلف نکات پر خوشگوار مزاج میں گفتگو بھی ہوئی ہے۔
ایک ذمہ دار نے کہا کہ:
"سرکاری ملازمتوں میں ہمیں ریزرویشن دے کر ہماری غلامی کو مؤکد کیاگیا ہے۔ پہلے شودر، غلام کے نام سے ہمیں غلام بنایا گیا اور اب سرکاری نوکر کی شکل میں ہمیں غلام بنایا گیا۔ غلامی سے نکل کر انسانی مساوات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ اسلام ہے۔”
انہیں صاحب نے کہا کہ: "آپ مذہبی پیشوا ہو تو مسلم قوم اور خاص طور پر مسلم سماج کے بچوں کو سمجھاؤ کہ وہ بھنگی چمار کو حقارت اور نفرت سے نہ دیکھیں۔”
میں نے بتایا کہ: "کسی کمزور قوم سے نفرت کرنا اسلام کی تعلیم نہیں، بلکہ یہاں منوواد کی سنسکرتی اور تہذیب کے زیر اثر مسلمان اور ان کے بچے ایسا کرتے ہیں۔ اسلام تو تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد کہتا ہے۔
اور دوسری باتیں کہنے کے ساتھ میں نے وعدہ کیا کہ آپ کی فرمائش کے مطابق میں اسلامی تعلیمات سے ممکن حد تک اپنی قوم کی تربیت کروں گا۔ ان شاء اللہ !”
مجھے رشک آتا ہے دعوت الی الاسلام کے کاموں میں شریک میرے ان رفقا پر جو اسلامی تعلیمات کے مطابق اخلاق کا اعلی نمونہ پیش کرتے ہوے کمزور طبقات (بھنگی چمار اور ہمارے دیگر کمزور بھائیوں) کا جھوٹا بےتکلف کھا اور پی لیتے ہیں۔
کاش کہ مسلمان اپنی دعوتی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے تیار ہوجائیں۔
اپنے رفقا کو دیکھ کر میں نے بھی کئی مرتبہ کوشش کی کسی ایسے مظلوم کو گلے لگاؤں۔ اور اسلام کے دامن سے وابستہ کر کے اپنے لیے ذخیرہ آخرت بناؤں۔
شروع میں احساس ہوا کہ انسانوں کے اِس طبقے کے اندر خود کے چھوٹا ہونے کا خیال اتنی گہرائی میں بیٹھ چکا ہے کہ وہ صاف ستھرے لباس میں ملبوس افراد سے ہاتھ ملانا اپنی طرف سے گستاخی خیال کرتے ہیں۔ جن قوموں کو اس قدر احساس کمتری میں مبتلا کردیا گیا ہے کہ صاف ستھرے کپڑے میں ملبوس افراد سے مصافحہ کرنے کا خیال بھی ان کے دل و دماغ سے نکل چکا ہے، اگر ایسے محروم طبقات کے اندر ہم اپنے اخلاق سے یہ تاثر پیدا کردیں کہ تم ہمارے بھائی ہو، ہم تمہارے بھائی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اسلام سے محروم رہیں۔
تو نہ مٹ جائے گا ایراں کے مٹ جانے سے
نشہ مئے کو تعلق نہیں پیمانے سے
یہ جو ہنگامہ بپا ہے یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہرمہدپور
(ضلع اجین، ایم پی)
2019/06/29ء
[email protected]
Comments are closed.