رام کا نام بدنام نہ کرو! جے شری رام کا نعرہ تشدد کےلیے ایک بہانہ

شکیل رشید (ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
ہندوستان کی ’یرقانی تاریخ‘ کے تین منظر یاد آرہے ہیں۔
شرمناک اور المناک منظر!!
ایک منظر بابری مسجد کی شہادت کا ہے ۔6دسمبر 1992ء کو جب بابری مسجد شہید کی جارہی تھی تب ایودھیا کی فضا ’ جے شری رام‘ کے نعرے سے گونج رہی تھی۔ یہ نعرہ ’ یرقانی تاریخ‘ کے نظریہ ساز اور بابری مسجد کے بنیادی ملزم ایل کے اڈوانی کی ’ رام رتھ یاترا‘ جن جن علاقوں سے گذری تھی اُن اُن علاقوں میں بھی لگایا گیا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ نعرہ لوگوں کی جانیں بھی لے رہا تھا۔۔۔
دوسرامنظر ممبرانِ پارلیمنٹ کی حلف برداری کی تقریب کا ہے ۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی جب حلف لینے کے لئے اٹھے تو وہاں بیٹھے بھاجپائی اراکین پارلیمنٹ نے ’ جے شری رام‘ کے نعرے بلند کردیئے ۔کیسا شرمناک منظر تھا کہ ایک ایم پی ملک اور آئین کا وفادار رہنے کا حلف لے رہا ہے اور اس کی حلف برداری کے دوران ’ جے شری رام‘ کانعرہ لگایا جارہا ہے ، اور صرف اس لئے کہ ایم پی مسلمان ہے ۔ اور یہ نعرہ لگاکر بھاجپائی اراکین پارلیمنٹ اپنی دانست میں اسے ، اور اس کے ساتھ ساری مسلم قوم کو ذلیل کررہے ہیں ۔۔۔!!
جس طرح بابری مسجد کی شہادت کی اڈوانی کی تحریک کے دوران ، اور شہادت کے دن لگنے والے ’ جے شری رام‘ کے نعرے ایک طرح سے اس ملک کی مسلم اقلیت کو ’ذلیل‘ کرنے کی ایک کوشش تھے اسی طرح اویسی کی حلف برداری کے دوران لگنے والے نعرے ایک منتخب ایم پی کی ذات پر اور ساتھ ہی ساتھ آئین اور پارلیمنٹ کے تقدس پر ایک حملہ تھے۔
اسدالدین اویسی نے ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے والوں کو روکانہیں ، پر انہوں نے ’ جے بھیم اور جے میم‘ اور ’ اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگاکر ان تک یہ پیغام پہنچادیا کہ اس ملک میں ’مظلومین‘ متحد بھی ہیں اور وہ اللہ رب العزت سے بڑا کسی اور کو نہیں سمجھتے لہٰذا انہیں کسی کا ڈر نہیں ہے ۔
تیسرا منظر جھارکھنڈ میں تبریز انصاری کی ماب لنچنگ کا ہے ۔ بے حد شرمناک اور المناک منظر۔ ایک بے بس شخص کو باندھ کر پیٹا جارہا ہے ،پیٹنے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ ایک پوری بھیڑ جو تبریز انصاری سے جبراً ’ جے شری رام‘ کے نعرے لگوارہی ہے ۔ ابھی ڈیڑھ مہینے بھی اس کی شادی کے مکمل نہیں ہوئے تھے ۔ اس کی بیوی اب بیوہ ہے ۔ بے سہارا ، بے بس اور مکمل طور پر تنہا !۔۔۔ ماب لنچنگ کے اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو جس نے بھی دیکھی ہوگی اس کا دل دہل گیا ہوگا ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ سوال بھی اس کے دل ودماغ نے پوچھا ہوگا کہ بھلا یہ ’ جے شری رام‘ کے نعرے پر اسقدر زور کیوں دیا جارہا ہے ؟ اس سوال کا جواب اوپر دیا جاچکا ہے ۔ مسلمانوں کو’ذلیل‘ کرنے اور ’ حملہ‘ کرنے کے لئے اس نعرے کو گڑھا گیا ہے ۔ حالانکہ اڈوانی اب بی جے پی کی سیاست میں ’سردخانے‘ میں یا با الفاظ دیگر ’گڈھے‘ میں ڈال دیئے گئے ہیں لیکن نفرت کے جو ہتھیار وہ دے گئے ہیں ان کا استعمال آج کے سنگھی بڑی ہی ’ خوبی‘ سے کررہے ہیں ۔ اس نعرے کا استعمال کرکے رام مندر کی تحریک میں شدت پیدا کی گئی ، ’رام رتھ‘ کے ساتھ ساتھ تشدد کا بازار گرم کیا گیا اور بابری مسجد شہید کردی گئی ۔ اور اب اڈوانی کے شاگرد، جی ہاں ہمارے وزیراعظم نریندر مودی جی ان کے شاگرد ہی ہیں ، بھلے وہ اپنے استاد کو کنارے پر ڈالے رہیں ، تو اب شاگرد نے یہ نعرہ اپنا لیا ہے ۔ 2019ء کے لوک سبھا الیکشن کی مہموں میں اسٹیج سے یہ نعرہ لگتا رہا ہے ۔ جواز یہ دیا جاتا ہے کہ ملک میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو یہ نعرہ لگانے کی ’اجازت‘ نہیں ہے !! مغربی بنگال میں اسی نعرے کے ذریعے ممتابنرجی کی سرکار کے سامے مسائل کھڑے کئے جارہے اور سارے صوبے کی فضا کو زہریلا کیا جارہا ہے ۔ لوگوں کو پتہ ہی ہوگا کہ ’ یرقانی ٹولے‘ نے ممتابنرجی کو ’ جے شری رام‘ کے پوسٹ کارڈ بھجوانے کی مہم شروع کی ہے ۔ ممتابنرجی جہاں جاتی ہیں وہاں ’ جے شری رام‘ کے نعرے لگاکر ’ سنگھی ‘ انہیںاکسانے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔ ممتابنرجی ان سے ٹکرلے رہی ہیں ۔ انہوں نے سنگھیوں، یرقانیوں اور فرقہ پرستوں کے ’ جے شری رام‘ کے جواب میں ’ جے ہند‘ کا نعرہ دے کر ان کے منصوبوں پر ایک طرح سے پانی پھیردیا ہے ۔ پر یہ کہاں بازآنے والے ہیں !! انہوں نے ’ جے شری رام ‘ کے نعرے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ تبریز انصاری کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا پر جس بے رحمی سے تبریز انصار ی کی پٹائی کی گئی اور اس سے جبراً نعرے لگوائے گئے اور جس طرح سے پولس نے بھی تبریز انصاری کا علاج کرانے کی بجائے اس کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا ، اس نے ملک میں ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو دہلادیا ہے ۔ صرف ملک ہی نہیں تبریز انصاری کی لنچنگ کی گونج یوروپ اور امریکہ تک میں سنائی دی ہے ۔ ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کو پارلیمنٹ میں تبریز انصاری کی لنچنگ پر ’ دکھ‘ کا اظہار کرنا پڑا ہے ۔ پر ’دکھ‘ کے اس اظہار میں بھی وہ لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے والی سیاست سے نہیں چوکے ۔ انہوں نے جھارکھنڈ کی ریاست کی ’ توہین‘ کرنے والوں کو ’ تنبیہ‘ کی کہ انہیں اس کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اور ’توہین‘ کیا کی تھی لوگوں نے ؟ صرف یہ کہا گیا تھا کہ جھارکھنڈ میں ماب لنچنگ کی تعداد میں متواتر اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ 2016ء سے لے کر اب تک وہاں 18 سے زائد افراد ہجومی تشدد کا شکار ہوئے ہیں جن میں تبریز انصاری تازہ ترین شکار ہے ۔ وزیراعظم کو یہ سُننا منظورنہیں ہے کہ جھارکھنڈ میں لوگ ہجومی تشدد کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ بی جے پی کی ریاست ہے ۔ پر وجہ صرف یہی نہیں ہے ، وہ عام لوگوں تک ، ان تک جو ’ ہجومی تشدد‘ میں شامل ہوتے ہیں ، یہ بات پہنچانا چاہتے ہیں کہ مرکز اسے یعنی ’ لنچنگ‘ کو کوئی مسئلہ سمجھتا ہی نہیں ہے ! ظاہر ہیکہ یہ لوگوں کو ایک طرح سے چھوٹ دینا ہی ہوا کہ وہ جو کررہے ہیں کرتے رہیں ۔ بھلا یہ کہنا کہ جھارکھنڈ میں سب سے زیادہ لنچنگ کے واقعات ہوئے ہیں کیسے صوبے کی ’ توہین‘ ہوگیا؟ تبریز انصاری بھی تو اسی جھارکھنڈ کا تھا ، کیا اسے قتل کرنا ، رسیوں سے باندھ کر پیٹنا، جبراً ذلیل کرنے کے لئے ’ جے شری رام‘ کے نعرے لگوانا جھارکھنڈ کی توہین نہیں ہے ؟؟
وزیراعظم صاحب ! تبریز انصاری کا قتل جھارکھنڈ ہی نہیں پورے ملک بھارت بلکہ ساری انسانیت کی توہین ہے ۔
یاد آتا ہے کہ اسی طرح گجرات 2002 کے قتل عام کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔۔۔ پر ’ جے شری رام‘ کے نام پر ہونے والے لنچنگ کے ان واقعات ، ان وارداتوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ’ جے شری رام‘ کے نعرے کو استعمال کیا جارہا ہے ۔تبریز انصاری کے بعد مغربی بنگال میں تین مسلمانوں کو مارپیٹ کر چلتی ٹرین سے اس لئے ڈھکیل دیا گیا کہ انہوں نے ’ جے شری رام‘ کے نعرے نہیں لگائے تھے ۔ دہلی میں ’ جے شری رام‘ کا نعرہ نہ لگانے پر ایک شخص کو کار سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ دہلی کے مضافات میں ’ جے شری رام‘ کا نعرہ نہ لگانے والے کئی مسلم نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ مدرسہ کےطالب علم فرمان کو جو بریلی سے علی گڑھ جارہا تھا ’ جے شری رام‘ نہ کہنے پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ دیوا میں ایک نوجوان اولا کیب ڈرائیور فیضل عثمان خان کو نشے میں دھت ’سنگھی عناصر‘ نے گھیرا اور ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے کے لئے جبر کرنے لگے جب اس نے نعرہ نہیں لگایا تو اس کی پٹائی شروع کردی گئی ۔۔۔ ایسے مزید واقعات ہیں ۔ اور اگر ان واقعات پر قابو نہ پایا گیا ، ان عناصر کے خلاف کڑی کارروائی نہ کی گئی تو ان واقعات میں اضافہ ہوگا اور راہ چلتے بے قصور لوگ تشدد کا شکار بنیں گے ۔ ٹرین سے سفر کرنے والی کسی اکیلی فیملی کو نشانہ بنایا جائے گا ، کسی مقام پر اکیلے پائے جانے والے کسی مسلمان پر جھپٹا مارا جائے گا ، کسی سنسان مقام پر کسی ڈرائیور پر ستم ڈھایا جائے گا ۔۔۔۔ یاد رہے کہ ’یرقانیوں ‘ نے اس نعرے کو ’ سیاسی‘ بنادیا ہے۔ یہ ’ حملے‘ کا نعرہ بھی بن گیا ہے ۔ پہلے ’رام رام‘ یا ’ جے سیا رام ‘ بولا جاتا تھا جو معیوب نہیں تھا ۔ پر اب یہ تشویشناک نعرہ عام کیا جارہا ہے ۔ اور اسے ’ہجومی تشدد‘ کے واقعات کی بنیاد بنایا جارہا ہے ۔ اس پر پابندی لگنی چاہیئے ۔ اس طرح کے واقعات سے مسلم فرقے میں بے چینی پھیلے گی ، کچھ لوگ انتقام کے لئے بے قرار بھی ہونگے، حالانکہ اب تک اخلاق اور پہلو خان سے لے کر علیم انصاری اور حافظ جنید خان وغیرہ کی لنچنگ تک مسلمانوں نے صرف احتجاج کیا ہے ۔ ’ دنادن‘ کا جواب ’ دنادن‘ سے نہیں دیا ہے ۔ لیکن نوجوان مشتعل ہوسکتے ہیں اور شاید مودی سرکار یہی چاہتی بھی ہے کہ اسی میں اس کی سیاسی بقا ہے ۔ مسلمان ردعمل کا اظہار ضرور کریں پر احتجاجات ومظاہروں کے ذریعے ۔ تشدد کا جواب تشدد سے دینا مودی سرکار کی جیت ہوگی ، ہاں اپنے دفاع کے لئے ہاتھ ضرور اٹھایا جاسکتا ہے ۔ بہتر یہ ہوگا کہ اس معاملے میں برادران وطن کو ، دلتوں اور پچھڑوں ، سکھوں اور عیسائیوں کو بھی ساتھ میں شامل کیا جائے ۔۔۔ یقیناً لوگ ساتھ آئیں گے کیونکہ ’ ہجومی تشدد‘ میں شامل لوگ مٹھی بھر ہیں پورا ملک نہیں ۔ بہرحال کوشش تو کی جانے ہی چاہیئے کہ سب ، پورا ملک ’ ہجومی دہشت گردوں‘ کے خلاف کھڑا ہوجائے ۔۔۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ، پر احتیاط برتنے کی شدید ضرورت ہے تاکہ کوئی جان ضائع نہ ہو ۔۔۔ وزیراعظم مودی نے ’ دکھ‘ کا اظہار کیا ہے پر اس طرح کا کوئی اظہار عملی اقدام کے فقدان کے سبب بے معنی ہے اور امید نہیں کہ وہ کوئی قدم اٹھائیں گے حالانکہ جی 20 سربراہ کانفرنس میں انہوں نے ساری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف ’ متحد‘ ہونے کی نصیحت کی ہے ۔ چاہئے کہ وہ یہاں کے ’گئورکھشک دہشت گردوں‘ اور ’ ہجومی دہشت گردوں‘ کے خلاف لوگوں کو ’ متحد‘ کریں ۔ بیرون ملک جاکر ’ دہشت گردوں‘ کے خلاف بات کرنا اس وقت تک بے فضول مانا جائے گا جب تک آپ اپنی سرزمین پر پل رہے’دہشت گردوں‘ کا قلع قمع نہ کریں!!
تھوڑا سا ذکر امریکی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ کا بھی ہوجائے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں گئورکھشکو ںنے مسلمانوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ شروع کررکھا ہے اور لنچنگ کے واقعات سے اقلیتیں خوف زدہ ہیں ۔ امریکی رپورٹ نے مودی سرکار کے تعصب اور فرقہ پرستی کو اجاگر کیا ہے ۔ ٹھیک ہے مودی سرکار نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے پر وہ ان واقعات کو ، گئورکھشکوں کی غنڈہ گردی کے ، لنچنگ میں لوگوں کو مارے جانے کے اور پارلیمنٹ کے اندر بھی ’ جے شری رام‘ کے نعرے لگنے کے ، کیسے مسترد کرسکتی ہے !! یہ سب ہورہا ہے اور ساری دنیا کھلی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ۔ آپ لاکھ رپورٹ مسترد کریں ، پر امریکہ کی رپورٹ کو دوسرے ممالک تو جھوٹ نہیں کہہ سکتے ۔ ۔۔ جو سچ ہے وہ سچ ہے ، لوگ جو دیکھ رہے ہیں اسے غلط نہیں کہہ سکتے ۔

Comments are closed.