ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
ماب لنچنگ یعنی ہجومی دہشت گردی کے ذریعے بے قصوراقلیتوں کو مارنے کا سلسلہ جو دادری کے اخلاق سے شروع ہوا تھا وہ مودی حکومت کے دوسرے ٹرم میں بھی زور وشور سے جاری ہے۔ گائے تسکری کے نام پر، گائے کے گوشت کے نام پر اور اب جے شری رام، جے ہنومان نہ بولنے کے نام پر مارنے پیٹنے اور موت کے گھاٹ اتاردینے کا سلسلہ دراز سے درازتر ہوتا جارہا ہے۔ امریکی حکومت نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیاجاتا ہے، مسلمانوں کو گائے کے نام پر مارا جاتا ہے ، مذہب کے نام پر ستایاجاتا ہے ، جس کی تردید ہندوستان نے کی تھی کہ ایسا نہیں ہے، یہاں سبھی کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ یہاں سبھی کو مذہبی آزادی حاصل ہے؛ لیکن وہ حاصل شدہ آزادی صرف آئین میں موجود ہے، حقیقت میں مذہبی آزادی کا وجود اب کہیں نہیں ہے؛ کیوں کہ جس دن رپورٹ آئی تھی اور جس دن اس رپورٹ کی تردید کی گئی تھی اس کے اگلے دن ہی جھارکھنڈ میں تبریز انصاری نامی نوجوان جس کی تین ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی کو چوری کے الزام میں بھیڑ پکڑ لیتی ہے اور تقریباً آٹھ گھنٹے مارنے پیٹنے کے بعد اسے پولس کے حوالے کردیتی ہے اور پولس بھی بدترین اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جیل میں ڈال دیتی ہے، اس کا مناسب علاج نہیں ہوتا ہے اور وہ موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ آخر مودی جی کا سب کا ساتھ سب کا وکاس اور دوسرے ٹرم میں اضافہ شدہ سب کا وشواس کیا ہے؟ کیا مسلمان اس سے خارج ہیں، ہجومی بھیڑ کے ذریعے مارے جانے کے مسلسل واردات سے تو یہی اندازہ لگ رہا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی نہیں۔ ان کے حق میں بولنے والا کوئی نہیں ۔ ان پر ہورہے مظالم کا کسی کے ذریعے مداوا نہیں کیاجارہا ہے۔ جو حکومت مسلم خواتین کو انصاف دلاناچاہتی ہے کیا ان مسلم خواتین کے شوہر، بیٹے، والد، بھائی، محمد اخلاق، حافظ جنید،علیم الدین انصاری، تبریز انصاری، پہلو خان ، نجیب وغیرہ نہیں ہیں جنہیں بھیڑ نے اس لیے مارا کہ وہ جے شری رام نہیں کہہ رہے تھے، جنہیں صرف شک کی بنیاد میں مارا کہ وہ گائے کا گوشت گھر میں رکھے ہوئے تھے، کیا آئین ہند میں درج ہے کہ جو جے شری رام نہ بولے اسے مار دیاجائے؟ کیا ہندوستان میں آئین بدل دیاگیا ہے، منوسمرتی لاگو ہوگیا ہے۔ کیا ہجومی بھیڑ جس طرح جے شری رام نہ بولنے پر مار رہی ہے ، موت کے گھاٹ اتار رہی ہے، ٹرینوں سے مسلم نوجوانوں کو پھینک رہی ہے، مسلمانوں کا گلا کاٹنے کی دھمکی دے رہی ہے،اسی طرح رد عمل میں اگر اللہ اکبر نہ بولنے والوں کو مارنے پیٹنے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو کیا عدلیہ، حکومت، لیڈران سبھی کا یہی خاموشی والا رویہ رہے گا جو مسلم نوجوانوں پر ہورہے ظلم وستم اور ناانصافی پر ہورہا ہے؟۔۔۔۔ مسلمان ایسا ہرگز نہیں کریں گے وہ ملک کی سالمیت پر یقین رکھتے ہیں، گنگا جمنی تہذیب کے دلدادہ ہیں وہ صرف بھیڑ کے ہاتھوں مارے جائیں گے ، مارنے والوں کا گریبان نہیں پکڑیں گے اور امید کریں گے کہ کوئی قائد ، رہنما، یا ایسا لیڈر اُٹھے گا جو ہمیں ان مظالم سے نجات دلائے گا۔ شاید ان ہی کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ’ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہوں‘ کیا مسلمانوں میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ ظلم سہنے کے بجائے ظالموں کا ہاتھ توڑ دیں اور اُٹھ کھڑے ہوں کہ بس اب ہوگیا اب ہمیں ظلم نہیں سہنا ۔۔۔ان مظالم کا بدلہ لینا ہے۔ ہم آئین ہند پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اس آئین کی پاسداری کرتے رہیں گے عدالت عظمی نے ہجومی بھیڑ کے ذریعے مچائے گئے تانڈو کو غلط قرار دیا ہے، ہم ان غلط کرنے والوں کو عدالت تک گھسیٹ کر انصاف حاصل کریں گے۔ ہم اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ اسی ملک میں رہیں گے، یہاں ہماری نسلیں پروان چڑھی ہیں، یہاں ہمارے آباواجداد کی قبریں ہیں ۔۔۔ ہم اپنے شعائر کے ساتھ اسی ملک میں رہیں گے جس طرح ہم کسی کو اللہ اکبر کہنے کےلیے مجبور نہیں کرتے کوئی ہمیں جے شری رام کہنے کےلیے مجبور نہ کرے، کوئی ہم سے جبراً وندے ماترم کے نعرے نہ لگوائے، کوئی ہمارے پرسنل لا میں مخل نہ ہو ورنہ انجام برا ہوگا۔
کیاہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں ایک جسم کی مانند ہیں، اب جہاں بھی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کےساتھ ناانصافی ہوگی ظلم ہوگا ایک ساتھ کھڑے ہوکر ان گئو رکشک دہشت گردوں کو انجام تک پہنچائیں گے، ان بھگوائیوں کے ذریعے مچائے جارہے موت کے تانڈو کو روکیں گے، اگر وہ بھیڑ کی شکل میں آکر ہمیں ماریں گے تو ہم بھی بھیڑ کی شکل میں جاکر ان کو سبق سکھائیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ ہاں یہ ممکن ہے ۔۔۔اس وقت جب منتشر مسلمان متحد ہوکر ظلم کے خلاف اُٹھے گا۔ آپ دیکھیے کس طرح منتشر اور ہزاروں معبودوں کو پوجنے والے افراد متحد ہوکر ایک اللہ، ایک رسول اور ایک قرآن کے ماننے والوں کے انتشار کا فائدہ اُٹھاکر ہمارے ہی ملک میں ہماری ہی زمین پر ہمیں امن وامان کے ساتھ نہ رہنے دینے کی قسم کھارکھی ہے اور یکے بعد دیگرے آپ کی بیوی کو بیوہ، آپ کی ماں کو بے سہارا، آپ کی بہنوں کی چادر عصمت چھین رہے ہیں۔۔۔کیا یہی غیرت ایمانی کاتقاضہ ہے کہ ظلم پر خاموش رہاجائے اور یہ سلسلہ دراز ہوتاجائے؟ ہر دن کوئی نہ کوئی معصوم ظلم کی بھینٹ چڑھتا جائے۔ نہیں اب ہمیں ظلم کے خلاف اُٹھنا ہوگا۔ ہمارے قائدین کو اب اس تعلق سے غوروفکر کرنا ہوگا کہ کوئی اب اخلاق نہیں بنے گا، کیا قائدین ، رہبران ملت مسلمانوں کو یہ بھروسہ دلاسکتے ہیں کہ اب ملک میں کوئی ہجومی تشدد کی واردات رونما نہیں ہوگی؟ جی بھروسہ دلاسکتے ہیں، ان کے پاس وہ صلاحیت ہے، قیادت کا ہنر ہے، وہ بے باک ہیں، بے خوف ہیں، حکومت وقت کو مجبور کرنے کا ہنر جانتے ہیں، لاکھوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے بات منوا سکتے ہیں اب انہیں یہ کام کرنا ہی ہوگا؛ کیوں کہ بے یارومددگار عوام کی ملتجی نگاہیں قائدین کی جانب اُٹھی ہوئی ہیں انہیں قائدانہ رول ادا کرتے ہوئے اس سمت سوچناہوگا؛ کیوں کہ بھارتی مسلمانوں کا مستقبل اب مزید خطرے میں ہے ہم ۲۵ کروڑ صرف جھاگ کی مانند ہیں سیاسی پارٹیاں ہمیں استعمال کررہی ہیں، ہم مسلکی اختلافات کو دور کرکے آپس میں متحد ہوں اور متحدہ پلیٹ فارم سے حکومت وقت کو للکاریں اپنے اوپر ہورہی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کریں اور انصاف کی دیوی سے انصاف حاصل کریں تب جاکر معصوموں پر دہشت گردی اور ظلم وستم کا سلسلہ رکے گا، ورنہ یہ بزدل دہشت گرد ہیجڑوں کی ہجومی بھیڑ مسلمانوں کو یوں ہی وندے ماترم، جے شری رام نہ کہنے پر موت کے گھاٹ اتارتی رہے گی۔
Comments are closed.