ایک ملک ایک مسلمان

مدثراحمد
ایڈیٹرروزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
محمد اخلاق،پہلو خان سے لیکر تبریز انصاری تک کے شہداء کی بات کی جائے تو ہم مسلمان اس گروہی تشدد کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔اب جبکہ ملک بھر میں اس تشددکے خلاف آوازایں اٹھنے لگی ہیں تو ایسے میں مسلمانوںکی مختلف تنظیمیں اب بھی منتشر ہوکر الگ الگ سطح پر احتجاج کرنے سے گریز کررہے ہیں۔کوئی کسی ایک پرچم یا بیانرتلے آکر احتجاج کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ہر ایک کو اپنی تنظیم،اپنے مسلک او راپنے ادارے کا پرچم بلند کرنے کی فکر ہے،خون بہہ رہا ہےپھر بھی اس خون کو اب بھی الگ الگ گروپ میں دیکھا جارہا ہے۔بعض لوگ تو کھلے عام یہ کہہ کر اپنی جہالت کا ثبوت پیش کررہے ہیں کہ یہ احتجاج تو فلاں فلاں جماعت کی جانب سے کیا جارہا ہے ہم کیوں انہیں تقویت دیں؟ہم کیوں ان کی رہبری میں چلیں؟۔جبکہ جن مسلمانوں کو مارا جارہا ہے انہیں مارنے والےدہشت گرد بالکل بھی یہ نہیں دیکھ رہے ہیںکہ مرنے والامسلمان کونسے مسلک یا کونسے مکتب فکر کا شخص ہے۔ان کا مقصد تو صرف مسلمان کو مارنا ہے اور مسلمان مررہے ہیں۔ایک طرف ہم مسلمان اختلافات کی آگ میں جھلس رہے ہیںتو دوسری جانب ملک کی نمائندہ تنظیمیں ان حالات پر بات کرنے کیلئے اب بھی ایک ہونے سے کترارہے ہیں۔اس ملک میں جہاں ایک ملک ایک الیکشن،ایک راشن کارڈ کا منصوبہ بنایا جارہا ہے،وہیں ایک ملک ایک مسلمان بننے کیلئے مسلمان تیارنہیں ہیں۔جس وقت ہندوستان کا بٹوارا ہورہاتھا اُس موقع پرمجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادنے اس ملک کے ہندوستانیوں کویہ کہہ کرروکا تھا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم اس ملک کے حصہ دار ہیں،جو کوئی اس ملک سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے وہ جاسکتا ہے،لیکن یہ یادرکھیں کہ اس مٹی میں ہمارے آباء و اجداد مدفون ہیں۔ہم اپنے آباء اجداد کو چھوڑ کر دوسری جگہ نہیں جاسکتے اور جو لوگ دین کی بنیاد پر ملک بنانے کی کوشش کررہے ہیں اُن کا دین ہی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس ملک کی مٹی کے ساتھ غداری کریں۔آج اس ملک کی مٹی میں پیدا ہونے کی وجہ سے ہم اس مٹی کاحق ادا کرنے کے پابند ہیںلیکن اس مٹی میں ہی ہمارا خون ناحق بہایاجارہا ہے۔ملک کے ہر کونے میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے،لیکن مسلمانوںکی قائدکہلانے والی تنظیمیں اور اس کے قائدین مسلمانوں پر ہورہے ظلم وتشدد کے خلاف جس طرح سے خاموشی اختیارکئے ہوئے ہیں وہ یقیناً اس بات کو سوچنے کیلئے مجبور کررہے ہیںکہ کیا واقعی میں ہم مسلمان اس قدر بے گزرے ہیںکہ ہمارے قائدین ہم سے ہی بے مروت ہونے لگے،ہمارے جوسالارتھے  وہی ہم سے سیاست کرنے لگے اور ہمارے نشیمنوں کو آنکھوں سے گرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ضرورت اس بات کی تھی کہ ایسے سنگین موقعوں پر ہمارے قائدین کھلےعام میدان میںاترتے اور پوری اُمت کو اپنے ساتھ لیکر یہ سوال کرتے کہ تم اگر ہمارے محافظ نہیں ہوسکتے تو ہمارے حکمران بھی بننے کے لائق نہیں،اگر ہماری حفاظت نہیں کرسکتے تو خود ہمیں اپنی حفاظت کرلینے کا موقع دو ۔ جس طرح سے سکھوں کو پگڑی اور تربان رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اسی طرح سے ہم مسلمانوں کو تلوار رکھنے کا موقع دو۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سوالات کواٹھانے والے ہمارے قائدین یہ سوال کرنے کے بجائےایوانِ اقتدارکے حکمرانوں کے ساتھ حکمت کے نام پر دوستی بنائے ہوئے ہیںاور وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ شائد آنے والے دنوں میں ان کیلئے کسی نہ کسی طریقے سے اچھے دن آئینگے۔اگر اسی سوچ کے تحت کے لوگ کام کررہے ہیںتو یقین جانئے کہ یہ مسلمانوں کے نہ رہبر ہیں نہ ہی خلیفے۔یہ لوگ مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والے منافق و غدار ہیں۔ پچھلی صدی میں جب جنگ آزادی کا اعلان ہو اتو مدارسِ اسلامیہ جسے آج ہم دین کے قلعے کہتے ہیں،انہیں قلعوں سے آزادی کیلئے فتویٰ جاری ہوا اور مسلمان فوج کی شکل میں نکل کر اللہ کی راہ میںجہاد کرنے لگے ۔یہ وہی مسلمان تھے جو مدرسوںو خانقاہوں میں زیر تعلیم تھے۔لیکن آج کے دین کے قلعے اس قدر کھوکھلے ہوچکے ہیں کہ یہاں صرف چار دیواری کے اندر نعرے تکبیر کے گونج رہے ہیںاور ان نعروںکی صدائیں اس ملک کی کھلی ہوائوںمیں گونجنے سے قاصر ہیں،جس وقت یہ صدائیںملک کے ایوانوں سے ٹکرائیگی اُسی وقت ملک میں ایک نیاانقلاب آئیگااور اسی انقلا ب کی بنیاد پر مسلمان ملک میں محفوظ رہ سکیں گے۔اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ جس وقت تاتاریوںنے مسلم ممالک پر حملے کئے اُس وقت مسلم حکمران اس قدر کمزور ہوگئے تھے کہ ان کے سامنے ان کی نسلوں کے سر کاٹ کر سروں کے مینار بنائے گئے تھے،ایک تاتاری خاتون دس مسلمانوں کو آن کی آن میں قتل کردیتی تھی،ایسی بات نہیں تھی کہ اُس وقت کے مسلمان دین سے دور ہوئے تھےبلکہ بات یہ تھی کہ ان مسلمانوںمیں شجاعت وبہادری مادہ کمزور ہوچکا تھااور یہ لوگ دین کے نام پر مسجدوںو خانقاہوں کے درمیان بیٹھے گئے تھے۔آج وہی دور لوٹ رہا ہے،ہم دین کی بات تو کررہے ہیںلیکن اُس دین سے کوسوں دور ہیں جس میں مسلمانوں کی شجاعت کے کارنامے پائے جاتے تھے،مسلمان اللہ کو راضی کرنے کیلئے ظالموں کے خلاف ٹوٹ پڑتے تھے اور اپنی حکومت،اپنے دین اور اپنی نسلوں کے محافظ بھی تھے۔تبریز انصاری کی ویڈیو دیکھئے جس میں وہ نوجوان ہونے کے باوجود کس قدر کمزوربن کر ظالموں کا شکار ہورہا ہے۔چھوٹے بچے کی مانند بلک رہا ہے اور رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔اُس ویڈیو کو ہم واٹس ایپ پرزور و شور سے پھیلا رہے ہیںاور نیچے یہ لکھ رہے ہیں کہ تبریز انصاری کی یہ ویڈیو بڑی مشکل سے ملی ہے۔ٹھیک ہے مشکل سے ہی ملی ہے ،لیکن کیا ہم اس واردات کو انجام دینے والے قاتلوں کو جواب دینے کیلئے مشکل حالات کاسامنا کرنے کیلئے تیارہیں؟۔کرناٹک کے ایک چھوٹے سے گائوں میں کچھ ما ہ قبل گائوکشی کے نام پر حملے کرنے والے آئے ہوئے 60-50بجرنگیوں کے گروہ کو جواب دینے کیلئے محض پانچ چھ نوجوانوں نے مقابلہ کیا۔جس کی وجہ سے بجرنگی بھاگ نکلے۔بھلے ہی ان نوجوانوں پر مقدمے ہوئے لیکن بعد میںا ن کی ضمانت پر رہائی بھی ہوئی ہے۔آج مسلمان کی ایک بڑی تعداد جیلوںمیں بند ہونے لگی ہے۔جیلوںمیںبند ہونے والے نوجوان کسی بہادری کے کارناموں کو انجام دیکر جیلوں کو نہیں جارہے ہیںبلکہ کسی کی پاکٹ مارکر،کسی لڑکی کو چھیڑ کر،کسی نشے کی دوا کو لیکریا پھر زیادہ سے زیادہ سونے چاندی کے زیوار چُرا کر جیلوں کا رُخ کررہے ہیں۔اگر حقیقت میں انہیں جیل اتنی ہی پسند ہے تو جاتے جاتے چند شر پسندوں کو ظلم کا جواب دیکر چلے جاتے ہیں تو ان کیلئے کہیں نہ کہیں اُمت کی حمایت ملے گی۔لیکن ایسی باتوں پرعمل کرنے کے بجائے قوم کے نوجوان بھی اپنوںمیں ہی بدکار کہلا رہے ہیں۔

Comments are closed.