مسجدوں میں نماز کے لیے کرسی

کیا فرماتے مفتیان کرام کرسی پر نماز پڑھنے کے بارے میں:
جسے دیکھو وہ کرسی پر نماز پڑھ رہا ہے اس کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔۔!
(مولانا طیب ثاقبی گوالیاری)
الجواب حامدا ومصلیا ومسلما اما بعد
رسول اللہﷺ حالتِ معذوری و بیماری میں بیٹھ کر نماز ادا فرماتےتھے؛ لیکن آپﷺ نے نماز کی ادائیگی کے لیے کرسی استعمال کی ہو ایسی کوئی صراحت کتبِ احادیث میں نہیں ملتی ہے۔ ذیل میں اس سلسلے کی تین روایتیں مع ترجمہ نقل کی جائیں گی، جن کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ کتنی شدید تکلیف ومعذوری کے باوجود آپ ﷺ نے کرسی کا استعمال نہیں فرمایا۔ (1)
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ آپﷺ کے دور میں نماز کے مقام پر (مسجد وغیرہ میں) کرسی نامانوس تھی یا دستیاب نہیں تھی۔ اس وقت بھی کرسی مانوس اور دستیاب چیز تھی جیسا کہ اس سلسلے میں دو روایتیں مع ترجمہ ذیل میں پیش کی جائیں گی۔(2)
اس کے باوجود بھی کرسی پر بیٹھ کرنماز پڑھنےکاثبوت آپﷺ سے نہیں ملتا ہے۔
حالتِ مرض میں قیام دشوار ہو تو بیٹھ کر اور اگر بیٹھ کر دشواری ہو تو پہلو پر لیٹ کر نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ بخاری کی روایت ہے۔(3)
مرض اور تکلیف میں شریعت کے بتاے ہوئے طریقے کے علاوہ کوئی نئی چیز اختیار کرنا منع ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک مریض کی عیادت کو تشریف لے گئے تو ان کو دیکھا کہ وہ گدے پر نماز ادا فرما رہے ہیں، تو آپ ﷺ نے اسے الگ پھینک دیا۔ اور آپ نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے لکڑی (تختہ) نماز پڑھنے (اس پر سجدہ کرنے) کے لیے لے رکھا ہے تو آپ ﷺ نے اسے (بھی) پھینک دیا۔ اور فرمایا کہ اگر تمہیں قدرت ہے تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے نماز پڑھو۔ اشارے سے نماز پڑھتے ہوے اپنے سجدوں کو رکوع کی بہ نسبت زیادہ پست کیا کرو۔(4)
"فرض واجب اور سنن مؤکدہ میں قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر پڑھنے سے ادا نہ ہوں گی۔ اور بقیہ سنن و نوافل زمین پر بیٹھ کر ادا کریں، تو درست ہوجائیں گی؛ لیکن بلاعذر بیٹھ کر پڑھنے کی وجہ سے ثواب آدھا ملے گا۔اور بلاعذر ( کوئی بھی نماز) کرسی پر بیٹھ کر پڑھنا بہر حال شدید مکروہ ہے۔( کتاب النوازل: ج 17، ص 330.)
مسجدوں میں کرسی کا اہتمام کرنے سے آدابِ مجلس کی رعایت نہیں ہو پاتی ہے
مثلاً ادب یہ ہے کہ مجلس میں اس طور پر بیٹھاجاے جس سے خود نمائی نہ ہو۔ حدیث میں (سواے خطیب، واعظ، امیرکے) وسط حلقے میں بیٹھنےوالے پر لعنت بھیجی گئی ہے۔(5)
اور حکم یہ ہے کہ مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھاجاے۔(6)
مجلس کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ آنے والے شخص کےلیے جگہ بنائی جاے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حکم فرمایا ہے۔ (7)
کرسی رکھنے کی صورت میں جگہ کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔
ایک ادب یہ بھی ہے کہ مل مل کر بیٹھا جاے؛ مل کر بیٹھنے سے بندہ اللہ کی حفاظت میں ہوتاہے۔ جب کہ درمیان میں خالی جگہ رہ جانے پر شیطان گھس جاتا ہے۔ پھر شیطانی فتنے اپنا کام کرتے ہیں۔(8)
اگر باقاعدہ مسجدوں میں کرسیاں لگائی جائیں گی تو مجلس کے مذکورہ بالا کسی بھی ادب کی رعایت دشوار ہوگی۔
اس لیے جہاں تک ممکن ہو مسجد میں کرسیوں کا انتظام نہ کیا جاے۔ اگر کسی عذر کی وجہ سے کسی نمازی کو زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے میں دشواری ہو تو ایسے معذورین کے لیے فولڈنگ والی ایسی کرسی کا انتظام کیاجاے جو پرکشش اور منشی عُجب و ذریعہ خود نمائی نہ ہو۔ پوری کوشش کی جاے کہ ایسی جگہ جلوس ہو جہاں سے دیوار پلر وغیرہ کا کچھ حجاب ہو۔ صفوں سے دوری نہ ہو ضرورت کے وقت دائیں بائیں ہوا جاسکے۔
(1)حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللہ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، وَيُونُسُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ، اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ فِي أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ فِي الْأَرْضِ بَيْنَ عَبَّاسٍ، وَآخَرَ، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: قَالَ: هَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الْآخَرُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ، قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيٌّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا دَخَلَ بَيْتَهَا وَاشْتَدَّ بِهِ وَجَعُهُ هَرِيقُوا عَلَيَّ مِنْ سَبْعِ قِرَبٍ، لَمْ تُحْلَلْ أَوْكِيَتُهُنَّ لَعَلِّي، أَعْهَدُ إِلَى النَّاسِ، قَالَتْ: فَأَجْلَسْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَفِقْنَا نَصُبُّ عَلَيْهِ مِنْ تِلْكَ الْقِرَبِ، حَتَّى جَعَلَ يُشِيرُ إِلَيْنَا أَنْ قَدْ فَعَلْتُنَّ، قَالَتْ: وَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ فَصَلَّى لَهُمْ وَخَطَبَهُمْ. (بخاری رقم الحدیث 5714)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کرتی ہیں کہ: جب (مرض الموت میں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر میں گزارنے کی اجازت اپنی دوسری بیویوں سے مانگی جب اجازت مل گئی تو نبی کریمﷺ دو اشخاص عباس رضی اللہ عنہ اور ایک صاحب کے درمیان ان کا سہارا لے کر باہر تشریف لائے، آپ کے مبارک قدم زمین پر گِھسَٹ رہے تھے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں بتایا، میں نے کہا کہ نہیں کہا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان کے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کہ آپ کا مرض بڑھ گیا تھا کہ مجھ پر سات مشک ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں۔ شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کر سکوں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ کو ہم نے ایک لگن میں بٹھایا جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حفصہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور آپ پر حکم کے مطابق مشکوں سے پانی ڈالنے لگے آخر آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ بس ہو چکا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں گئے، انہیں نماز پڑھائی اور انہیں خطاب فرمایا۔ (بخاری: حدیث نمبر 5714)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا… (بخاری: رقم الحدیث 688)
رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے… (بخاری: 688)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلَاةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا.
(بخاری: رقم الحدیث 689)
رسول اللہ ﷺ ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ ﷺ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ ﷺ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ ﷺ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ ﷺ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے؛ اس لیے ہم نے بھی آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔
(بخاری: 689)
(2) و حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ قَالَ قَالَ أَبُو رِفَاعَةَ انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللہِ رَجُلٌ غَرِيبٌ جَاءَ يَسْأَلُ عَنْ دِينِهِ لَا يَدْرِي مَا دِينُهُ قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ خُطْبَتَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَأُتِيَ بِكُرْسِيٍّ حَسِبْتُ قَوَائِمَهُ حَدِيدًا قَالَ فَقَعَدَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللہُ ثُمَّ أَتَى خُطْبَتَهُ فَأَتَمَّ آخِرَهَا.
(مسلم: رقم الحدیث 2025)
حضرت ابو رفاعہ (تمیم بن اُسید عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا کہ میں نبی ﷺ کے پاس (اس وقت) پہنچا جب کہ آپ خطبہ دے رہے تھے، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! ایک پردیسی آدمی ہے اپنے دین کے بارے میں پوچھنے آیا ہے اسے معلوم نہیں کہ ا س کا دین کیا ہے کہا: تو رسول اللہ ﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور اپنا خطبہ چھوڑا، یہاں تک کہ میرے پاس پہنچ گئے۔ ایک کرسی لائی گئی میرے خیال میں اس کے پائے لوہے کے تھے، تو رسول اللہ ﷺ اس پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو سکھایا تھا اس میں سے مجھے سکھانے لگے پھر اپنے خطبے کے لیے بڑھے اور اس کا آخری حصہ مکمل فرمایا۔
(مسلم: 2025)
وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ، قَالَ: أَخَّرَ ابْنُ زِيَادٍ الصَّلَاةَ، فَجَاءَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ الصَّامِتِ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ كُرْسِيًّا، فَجَلَسَ عَلَيْهِ، فَذَكَرْتُ لَهُ صَنِيعَ ابْنُ زِيَادٍ، فَعَضَّ عَلَى شَفَتِهِ، وَضَرَبَ فَخِذِي، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ أَبَا ذَرٍّ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: إِنِّي سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَضَرَبَ فَخِذِي كَمَا ضَرَبْتُ فَخِذَكَ، وَقَالَ: «صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ مَعَهُمْ فَصَلِّ، وَلَا تَقُلْ إِنِّي قَدْ صَلَّيْتُ فَلَا أُصَلِّي»
(مسلم: رقم الحدیث 1469)
ایوب ابو عالیہ برّاء سے روایت کرتے ہیں کہ: ابن زیاد نے نماز میں تاخیر کر دی تو میرے پاس عبداللہ بن صامت تشریف لے آئے، میں نے ان کے لیے کرسی رکھوا دی، وہ اس پر بیٹھ گئے، میں نے ان کے سامنے ابن زیاد کی حرکت کا تذکرہ کیا تو اس پر انہوں نے اپنا (نچلا) ہونٹ دانتوں میں دبایا اور میری ران پر ہاتھ مار کر کہا: جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، اسی طرح میں نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا، انہوں نے بھی اسی طرح میری ران پر ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ ﷺ نے میری ران پر ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور فرمایا: تم نماز بروقت ادا کرلینا، پھر اگر تمہیں ان کے ساتھ نماز پڑھنی پڑے تو (پھر سے) نماز پڑھ لینا اور یہ نہ کہنا: میں نے نماز پڑھ لی ہے؛ اس لیے اب نہیں پڑھوں گا۔
(مسلم: حدیث نمبر 1469)
(3) عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال: کانت بی بواسیر، فسالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الصلوة، فقال: صل قائما، فان لم یستطیع فقاعدا، فان لم یستطیع فعلی جنب (بخاری: رقم حدیث 1106، ج1، ص150)
(4) عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عاد مریضا فرآہ یصلی علی وسادة، فاخذہ فرمی بہ، واخذہ عودا لیصلی علیہ فاخذہ فرمی بہ، وقال: صلی علی الارض ان استطعت والا فاوم واجعل سجودک اخفض من رکوعک۔ ( السنن الکبری للبیھقی: رقم الحدیث 3669۔ ج2 ص620)
(5) عن حذيفة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن من جلس وسط الحلقة. (سنن أبي داؤد / باب الجلوس وسط الحلقة ج2، ص664
/ رقم الحدیث 4826. دار الفکر بیروت)
(6) عن الحسن بن علي رضي الله عنهما قال: سألت خالي هند بن أبي هالة، كان وصّافا عن حلية النبي صلى الله عليه وسلم فسألته عن مجلسه، فقال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم لا يقوم ولا يجلس إلا على ذكر، وإذا انتهى إلي قوم جلس حيث ينتهي به المجلس، ويأمر بذلك يعطي كل جلسائه بنصيبه لايحسب جليسه أن أحدا أكرم عليه منه من جالسة، أو فاوضه في حاجة صابرة حتى يكون هو المنصرف الخ. (شمائل ترمذي / باب ما جاء في تواضع رسول الله 23)
قال النبي صلى الله عليه وسلم: إذا انتهى أحدكم إلى المجلس، فإن وسّع له فليجلس، وإلا فلينظر إلى أوسع مكان يراه فليجلس فيه. (جمع اوساتل / باب ما جاء في تواضع رسول اله :496)
(7)«ياأيها الذين آمنوا إذا قيل لكم تفسحوا في المجالس فافسحوا يفسح الله لكم [المجادلة، جزء آیت: ۱۱)
(8)عن أبي واقد الليثي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بینما هو جالس في المسجد و الناس معه، إذ أقبل ثلاثة نفر، فأقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم وذهب واحد، قال: فوقفا على رسول الله صلی له عليه وسلم، فأما أحدهما فرأى فرجة في الحلقة فجلس فيها، وأما الآخر
فجلس خلفهم، و أما الثالث فأدبر ذاهبا ، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ألا أخبركم عن النفر الثلاثة؟ أما أحدهم فاوئ إلى الله فأواه الله، وأما الآخر فاستحيا فاستحيا الله منه، وأما الآخر فأعرض فأعرض الله عنه.
(صحيح البخاري، کتاب العلم / باب من قعد حيث ينتهي به المجلس ومن رای فرجة في الحلقة فجلس فيها ج1 ص15 رقم الحدیث 66 دار الفکر بیروت۔
صحیح مسلم، کتاب السلام / باب من أتی مجلسا فوجد فرجة فجلس فيها وإلا وراء هم رقم: 2176بیت الأفكار الدولية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
کتبه: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاءشہرمہدپورضلع،اجین(ایم پی)
[email protected]
یکم ذی قعدہ ۱٤٤۰ھ
5/ جولائی 2019ء
ناقل: محمد توصیف صدیقی قاسمی
معین مفتی و منتظم گروپ: دارالافتاء شہر مہدپور
Comments are closed.