ڈوبتی ممبئی اور بے شرم حکام و سیاستداں

شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )

طوفانی بارش میں حکام کے سارے ’دعوے‘ بہہ گئے۔

عروس البلاد ممبئی خطرے میں ہی نہیں شدید خطرے میں ہے۔ یہ شہر بار بار ڈوب رہا ہے۔ ہر سال جب برسات کا موسم آتا ہے تو ممبئی میونسپل کارپوریشن اور حکام یہ دعویٰ ضرور کرتے ہیں کہ ’ممبئی محفوظ ہے‘لیکن ہر بار یہ شہر کہیں زیادہ تباہی اور بربادی کے قریب پہنچ جاتا ہے اور برسات جاتے جاتے یہ احساس کراجاتی ہیکہ اگر اقدامات نہ کیے گئے تو شاید آئندہ یہ شہر بارش کے سیلاب کو نہ سہہ پائے اور ایسی آفت سے دوچار ہو جائے جو اس شہرکا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقشہ بدل دے۔

کہنے کو تو ممبئی دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک ہے پر بارش کا پانی یہاں بھرتا ہے تو سارا شہر ٹھہر جاتا ہے۔ 26؍جولائی2005کو لوگوں نے طوفانی بارش کا قہر دیکھا تھا جب سارا شہر سمندر میں تبدیل ہوگیا تھا اور نہ جانے کتنے انسان لاشوں کی شکل میں نالا بنی سڑکوں، ریل کی پٹریوں اور گلیوں و محلوں سے بہہ گئے تھے اور نہ جانے کتنے لوگ اپنے ٹھکانوں ، اپنے مال و اسباب سے محروم ہوگئے تھے۔ مکان ڈھہ گئے تھے ، جھونپڑے بہہ گئے تھے، ممبئی کی ’لائف لائن‘ کہی جانے والے لوکل ٹرینیں تھم گئی تھیں اور سارے ٹریفک کا نظام بشمول ہوائی پروازیں بھی درہم برہم ہوکر رہ گئی تھیں۔26؍جولائی کے بعد کئی بار ممبئی میں پانی بھرا لیکن شہر کسی طرح سے بچا رہا لیکن اس بار کی بارش نے واقعی 26؍جولائی کی یادتازہ کردی۔ اس جدید ترین شہرمیں اگر دو دن کی طوفانی بارش میں 30؍سے زائد لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھیں تو یقیناً قصوروار حکام ہی ٹھہرائے جائیں گے۔

اگر اس طوفانی بارش کے حادثات اور سانحات پر ایک نظر ڈالی جائے تو آسانی سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ سارا میونسپل عملہ ،قدرتی آفات سے نمٹنے والے اہلکار اور ساری سرکاری مشنری جیسے اپنی جگہ ٹھپ ہوکر رہ گئی تھی! اس کی ایک وجہ ’قیامت کی بارش‘ تھی۔ اور دوسری وجہ ’جو سب سے اہم ہے ، برسات کی آمد سے قبل کی بے عملی تھی۔ اس پر بات کرنے سے پہلے طوفانی بارش کے سانحات پر ایک نظر ڈال لیں تو بات آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔

*ملاڈ میں ایک دیوار کے گرنے سے تقریباً 27؍افراد موت کی نیند سوگئے۔

ملاڈ کے پمپری پاڑہ میں شب میں کوئی ایک بجے ایک دیوار کوئی تیس جھونپڑوں پر آگری ۔ بارش بے حد تیز تھی،لوگ اپنے جھونپڑوں میں دبکے ہوئے سورہے تھے ۔یہ دیوار ایک ذخیرہ آب اور آبادی کے درمیان صرف دو سال قبل حفاظتی نقطہ نظر سے بنائی گئی تھی۔ اس دیوار سے قبل اس جگہ جو دیوار تھی وہ برطانوی دور کی تھی اور2005؍ کے تباہ کن سیلاب کو بھی برداشت کرگئی تھی۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ برطانوی دور کی دیوار اگر برسہا برس سے کھڑی رہ سکتی ہے تو صرف دو سال قبل بنائی گئی دیوار کیوں اور کیسے ڈھہہ گئی ؟؟دیوار گری اور اپنے ساتھ کوئی27؍انسانوںکو جن میں چھ کمسن بچے بھی تھےدفن کر گئی ۔اور سو سے زائد کو زخمی۔ اس سانحے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ میونسپل عملے او ر قدرتی آفات سے نمٹنے کے دستے(این ڈی آر ایف) کی آمد سے قبل مقامی افراد نے بچائو کا کام شروع کردیا تھا۔ اگر مقامی افراد حرکت میں نہ آتے تو شاید مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔اس سانحے میں مرنے والی ایک بچی جھانوی کنوجیا صرف 17؍دنوں کی تھی۔ پانی اچانک ہی گھر میں گھسا اور ساتھ ساتھ گھر کو بہالے گیا۔ مقامی افراد کا الزام ہے کہ دیوار بنانے کے لیے جو مال استعمال کیا گیا تھا وہ ناقص تھا، اس دیوار سے قبل برطانوی دور کی پتھر کی دیوار تھی جسے دو سال قبل بی ایم سی نے مہندم کردیاتھا، اس کی جگہ یہ دیوار بنائی گئی تھی۔ اس دیوار کی تعمیر پر21؍کروڑ روپے کی لاگت آئی تھی!

*دو دوست گلشاد شیخ اور عرفان خان کار میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔

واقعہ ملاڈ ریلوے اسٹیشن کے قریب سب وے میں پیش آیا۔ رات کے کوئی ساڑھے بارہ بجے کے قریب دونوں دوست کی اسکارپیو میں دم گھٹنے سے موت ہوئی۔ یہ دونوں اپنے ایک ساتھی کو پٹھان واڑی پہنچا کر واپس لوٹ رہے تھے۔ بارش اپنے شباب پر تھی، سب وے میں پانی بھرا تھا۔ دونوں نے کوشش کی کہ کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل جائیں پر ان کی لاکھ کوشش کے باوجود پانی کے شدید دبائو سے دروازہ بند کا بندرہا اور دونوں ہی کام دم گھٹ گیا۔ اس سب وے سے پانی باہر نکالنے کے لیے واٹر پمپ لگایا گیا ہے پر اس روز واٹر پمپ کام نہیں کررہا تھا۔ اس روز ملاڈ سب وے کا مغرب سے مشرق کی سمت جانے والا راستہ بند تھا پر مشرق سے مغرب کی جانب جانے والا راستہ کھلا ہوا تھا ، اور دونوں کو یہ اندازہ نہیں ہوسکا تھا کہ سب وے میںبہت زیادہ پانی بھرچکا ہے۔ دونوں نے موبائل پر لوگوں کو فون کرکے اپنی بے بسی کی اطلاع بھی دی پر کوئی بھی موقعہ پر نہیں پہنچ سکا۔ فائر بریگیڈ کا پتہ نہیں تھا۔ ٹریفک پولس سوئی ہوئی تھی۔ اگر اس روز واٹرپمپ کام کررہا ہوتا تو سب وے میں پانی نہ بھرتا۔ سوا ل یہ ہے کہ واٹر پمپ چل رہا ہے یا نہیں اس کی نگرانی کس کی ذمہ داری تھی؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر سب وے میں پانی بھرا تھا تب ایک جانب سے ٹریفک کو جانے کی اجازت کیوں دی گئی ؟اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ فائر بریگیڈ کا عملہ اور ٹریفک پولس اپنے فرائض کی انجام دہی سے کیوں غفلت برت رہے تھے؟

*ائیر پورٹ پر اسپائس جیٹ کا طیارہ رن وے سے پھسل گیا۔

طیارہ اس لیے پھسلاکہ رن وے پر پانی بھرا تھااور طیارے کے پہیے گھاس پرپھسل گئے تھے۔ اس حادثے میں مسافر تو بچ گئے پر نہ جانے کتنی پرواز یں منسوخ کرنا پڑیں۔ کتنے مسافر حیران پریشان ائیر پورٹ پر پڑے رہ گئے۔سوال یہ ہے کہ ائیر پورٹ کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کون ہے جو پانی کی نکاسی کا ذمے دار ہے ؟اسی طرح ٹرینیں چاہے وہ کم دوری کی رہی ہوں یا طویل دوری کی پٹریوں کے تالاب بن جانے سے اپنی جگہ کھڑی کی کھڑی رہ گئیں اور جو چلیں تو اس طرح کہ شام میں چلیں اور صبح تک انہوں نے ایک سے دو اسٹیشنوںکی ہی مسافت طئے کی۔ ہزاروں کی تعدادمیں مسافر ریلوے اسٹیشنوں پر پڑے رہے ۔ پٹریوں پر پانی نہ بھرے، پانی نکلتا رہے، اسے ممکن بناناکس کا کام ہے؟ یقیناً ریلوے حکام کا۔ شہری حکام اور ریاستی مشنری کا۔ پر یہ ساری مشنریاں ٹھپ پڑی رہیں۔ یہ تو چند سانحات ہیں ورنہ سارے شہر میں بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ اتر آنے سے مرنے کے سانحات بھی ہوئے۔ پیڑوں کے گرنے سے بھی لوگ مرے۔ لوگوں کے گھروں میں پانی بھی بھرا بلکہ سارے شہر ممبئی کی یہ حالت تھی کہ پانی ہی پانی نظر آرہا تھا۔ یہ واقعات اورسانحات ممبئی میونسپل کے عملےکی بھی‘ ریلوے حکام کی بھی اور ساری ریاستی سرکاری مشنری کی لاپروائی اور غفلت کی زندہ مثالیں ہیں۔

ممبئی ہندوستان کا مہنگا ترین شہر ہے۔ اور اس مہنگے ترین شہر کی میونسپل کارپوریشن جنوبی ایشیاکی مالدار ترین کارپوریشن ہے۔ کیا کسی کو یقین آئے گا کہ اس کارپوریشن کا سالانہ بجٹ 30؍ہزار کروڑ روپے سے بھی زائد ہے! یہ کارپوریشن اتنی دولت کے باوجوداس شہر کو جو اس کی دولت کا منبع ہے، نظر انداز کرتی چلی آرہی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ شہر ممبئی میں بارش کا پانی بھرنے کی ’وجوہات‘ کیا ہیں! پر سب کچھ جانتے ہوئے بھی ’وجوہات‘ کے حل کے لیے ’منصوبوں‘ پر عمل چیونٹی کی رفتار سے ہوتا ہے۔ مثلا ً یہ دیکھ لیں کہ بارش کے پانی کو شہر سے سمندر میں بہانے کے لیے جن پمپنگ اسٹیشنوں کے قیام کا منصوبہ 2006میں بنا تھا، اس پر مکمل عمل آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ 12؍سوکروڑ کا بجٹ بڑھ کر4؍ہزار کروڑ تک جاپہنچا ہے اور ہنوزدو پمپنگ اسٹیشن کا قیام باقی ہے۔ تقریباًسارے ہی منصوبوں کا یہی حال ہے۔ سست رفتاری کا بنیادی سبب صرف ایک ہے ، کام میں جس قدر تاخیر ہوگی بجٹ میں اس قدر اضافہ ہوگا اور اسی لحاظ سے جیبیں بھریں گی۔ باربار کے سیلاب سے کئی طرح کے نقصانات ہیں؛ ایک تو جان و مال کا زبردست زیاں ہوتا ہے ، سرکاری املاک تباہ و بربادی ہوتی ہے، ملک کی معاشی راجدھانی ہونے کے سبب معیشت متاثر ہوتی ہے ، بیماریاں پھیلتی ہیں، تباہ حال افراد ذہنی اور معاشی طور پر پریشان ہوتے ہیں، اور پھر ایک زرکثیر تباہ حال شہر کو پیروں پر کھڑا کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ خوب پتہ ہے کہ ماحولیات میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں ان سے شہر میں بارش تیز سے تیز ہونے لگی ہے۔ سمندری سطح آب میں اضافہ ہوا ہے یعنی سمندر کا پانی مزید اوپرآگیا ہے جس کی وجہ سے پانی جو شہر سے نکلتا ہے وہ واپس شہر میں گھس آتا ہے۔بغیر سوچے سمجھے سمندری علاقوں میں جو تعمیرات کی گئی ہیں اور جس طرح سمندر کے اطراف کی زمینوں کو پاٹا گیا ہے اس سے مذکورہ مسئلے کی شدت دوچند ہوگئی ہے۔ نالوں پر اور گٹروں پر مکانات تعمیر ہورہے ہیں۔ ڈرینج کا سسٹم یا پانی کی نکاسی کا نظام بہت قدیم ہے اور اس سسٹم کے تحت شہر سے صرف50؍ایم ایم پانی سمندرمیں پھینکاجا سکتا ہے جبکہ دو دن میں550؍ایم ایم بارش ہوئی! میٹھی ندی جو گٹروں کے پانی کوشہر سے باہر لے جاتی ہے غیر قانونی بستیوں سے آباد ہے۔ اس میں اس قدر کچرا ڈالا جاتا ہے کہ یہ پٹ جاتی ہے اور پانی واپس شہر میں پھینک دیتی ہے۔ باندرہ ورلی سی لنک نے بھی مسئلے کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ یہ بنیادی ہیں جن پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ ڈرینج سسٹم کو جدید کرنے کے نام پر صرف منصوبے بنتے ہیں۔ سڑکوں کی حالت خستہ ہے اور اکثر سڑکیں کھدی ہوئی نظر آتی ہیںیا پھر ان پر میٹرو وغیرہ کے کام چلتے ہیں۔ ریلوے کی پٹریوں کی صفائی کے نام پر سال بھر’میگابلاک‘ کیا جاتاہے پر پٹریاں بارش کے پانی سے ندیاں بن جاتی ہیں۔ دعویٰ ہے کہ امسال نالوں کی صفائی پر 153؍کروڑ روپے خرچ کیے گئے! تقریباً 16؍کروڑ روپے سڑکوںپر گڈھوں کو بھرنے پر لگائے گئے! 50؍کروڑ روپے درختوں کو کاٹنے اور چھاٹنے پر خرچ ہوئے! یعنی کوئی ڈھائی سو کروڑ روپے! پر مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ کوئی منصوبہ آگے نہیں بڑھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مالدار ترین کارپوریشن، مالدار ترین ریلوے اور مالدار ترین ریاست مہاراشٹرشہر ممبئی کو بربادی سے بچانے کے لیے کسی منصوبے پر سنجیدگی سے عمل کیوں نہیں کرتے؟ کارپوریشن پر بی جے پی ۔ شیوسینا کا راج ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں اور کارپوریشن کے حکام کا دعویٰ ہے کہ ممبئی شدید بارش کی وجہ سے ڈوبی ورنہ کارپوریشن تو چاک و چوبند تھی اور اس نے خوب کام کیا۔شیو سینا کے ایم پی سنجے رائوت اس قیامت کی بارش میں’نظم‘ لکھتے نظر آتے ہیںاور میونسپل کمشنر پروین پردیسی سارا الزام ’ماحولیات‘ کے سرتھوپتے۔یہ سب کے سب شہر ممبئی کی موت کے ذمہ دار ہیں۔بے شرم حکام ، سیاست داں،کرپٹ کارپورٹر حضرات،فیصد پر کام کرنے والے ٹھیکے دار بے شرموں کی طرح شہر کو ڈوبتا دیکھتے رہے۔یہ گدھ کی طرح دم توڑتے ہوئے شہر کو نوچ رہے ہیں؛ انہیں نہ شہریوں کی پروا ہے اور نہ ہی شہر کی ترقی کی‘ انہیں اگر پرواہے تو صرف اپنی اپنی جیبوں کی۔یہ گدھ ایک دن شہر کے تن بدن سے گوشت نوچ کر اسے ڈھانچے میں تبدیل کردیں گے۔ وہ دن آنے سے قبل شہریوں کو چاہیے کہ جاگ اٹھیں۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.