جئے شری رام کے نعروں میں ملک کی ترقی کا راز نہیں!

نازش ہما قاسمی
نیشنل بیورو چیف بصیرت میڈیا گروپ
ان دنوں ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے اکثریتی طبقہ کے چند مذہبی جنونی اس طرح جے شری رام اور دیگر مذہبی نعرے جبراً لگوا رہے ہیں کہ گویا اگر وہ نعرہ نہ لگائے تو ملک کی معیشت چوپٹ ہوجائے گی، روزگار کے مواقع ختم ہوجائیں گے، قحط سالی کا دور آجائے گا اور دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہوگا، علاوہ ازیں تمام مسائل جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے اور ملک کی ترقی رک جائے گی؛ اسی لیے جہاں کہیں بھی مسلمان نظر آئے انہیں مارو، پیٹو اور جبراً اپنے مذہبی نعرے ’’جے شری رام‘‘ لگانے پر مجبور کرو تاکہ ملک کی ترقی رکے نہیں، روزگار ختم نہ ہوں، قحط سالی کا دور نہ قائم ہو۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ عمل ان شدت پسند جنونی بھیڑ اور گئو رکشک دہشت گرد جاہلوں کے لیے روزگار ہی ہے۔ انہیں اس طرح خوف کے ماحول کو قائم کرنے اور مسلمانوں کو مارنے پیٹنے کے لیے نادیدہ قوتوں کی طرف سے خطیر رقم دی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک صاحب نے طویل مسیج کے ذریعے مجھے یہ بتایاکہ کس طرح گئو رکشک دہشت گرد مسلمانوں کو گئو کشی اور گؤ تسکری کے الزام میں پھنساتے ہیں اور ان کی پیٹھ پر کون سی طاقت کھڑی ہے جو انہیں کچھ نہیں ہونے دیتی یہاں تک کہ وہ گائے کے نام پر مسلمانوں کو مار دیتے ہیں اور وہ لوگ خود ہی گائے ذبح کرکے مسلمانوں کو پھنساتے ہیں تمام ثبوت یکجا کرتے ہیں جس سے مظلوم ہی مجرم ٹھہرتا ہے اور ظالم مجرم ہونے کے باوجود آسانی سے ضمانت پر رہا ہوجاتا ہے۔
جس طرح کے حالات ملک میں ان دنوں بنائے جا رہے ہیں اگر یہ حالات یوں ہی قائم رہیں اور اس پر روک نہ لگائی گئی اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہوا تو ملک کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ نفرت کی آگ میں جل رہے عوام کو ابھی اس کا ادراک نہیں وہ ان ہی چیزوں میں مست ہیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے مسلمان سے جے شری رام کا نعرے لگوادیا تو یہ ہماری کامیابی ہے، اگر ہم نے انہیں گائے کے الزام میں مار دیا تو یہ ہماری ترقی ہے، اگر ہم اپنے مندروں میں گوشت پھینک کر مسلمانوں پر الزام دھرتے ہیں تو یہی ہمارا روزگار ہے؛ لیکن جب انہیں اپنے استعمال ہونے کا ادراک ہوجائے گا اور جب یہ چیزیں ذہن میں بیٹھ جائے گی کہ ہمیں استعمال کیاجارہا تھا۔ اصل ترقی ملک کی گنگا جمنی تہذیب میں تھی، اصل ترقی ملک کی خوشحالی میں تھی، اصل ترقی ملک کی معیشت میں تھی، اس طرح تو نہ ترقی ہورہی ہے نہ ہی روزگار ہے اور نہ ہی خوشحالی، بلکہ ایک ڈر، خوف اور پریشانی کا ماحول قائم ہورہا ہے یہ ماحول دراز تر ہو جائے گا اور ایک دن یہی آگ اِن آگ لگانے والوں کو بھی اپنی چپیٹ میں لے لے گی ،تب انہیں سمجھ میں آئے گاکہ ہم کیا کررہے تھے، ہم سے کہاں غلطی ہوئی، اور ہم نے ایسا کیوں کر لیا۔ کاش وہ نفرت کے بجائے محبت کے پیغام کو عام کریں، سیاسی شعبدہ بازیوں کے شکار نہ ہوں، لیڈران کی نفرت انگیز تقریروں سے متاثر نہ ہوں ، انہیں پتہ نہیں کہ لیڈران انہیں کیوں استعمال کررہے ہیں، اگر ہندو مسلم کے درمیان کی خلیج کو پاٹ دی جائے تو ان کی سیاست نہیں چلے گی وہ نفرت پھیلا کر ہی ملک میں راج کرناچاہتے ہیں اپنے پیش رو انگریز حکمرانوں کے طرز پر وہ یہاں نفرت کی کھیتی کررہے ہیں؛ لیکن انہیں بھی انگریز کی طرح ان شاء اللہ زمام اقتدار سے ہاتھ دھونا ہوگا، یہاں نفرت دیر تلک نہیں چل سکتی یہ ملک امن کے پیامبروں کا رہا ہے، یہ ملک رشی منیوں اور ولیوں، صوفیوں کا ہے، یہاں شروع سے محبت کی فضا قائم رہی ہے، نوسو سال سے زائد تک مسلم حکمرانوں نے حکمرانی کی ہے؛ لیکن سبھی کو مذہبی آزادی تھی، کسی کے ساتھ ظلم وجبر نہیں کیاگیا، کسی کو طاقت کے بَل پر مجبور نہیں کیا کہ وہ اپنے مذہب سے دستبردار ہوکر اسلام قبول کرے ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ مسلمانوں کے اخلاق کریمانہ سے متاثر ہوکر لاکھوں کروڑوں لوگ دامن اسلام سے وابستہ ہوگئے۔ ان کی طرح جو یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اسلام تلوار اور طاقت کے زور سے پھیلا ہے ۔جبراً کسی سے اللہ اکبر کے نعرے نہیں لگوائے، جبراً غیر مسلموں کو مارا پیٹا اور موت کے گھاٹ نہیں اتارا گیا کہ تم اسلام قبول کرو، اللہ اکبر کے نعرے لگاؤ ورنہ ہم تمہیں مار دیں گے؛ بلکہ مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں نے ہمیشہ ان کے مندروں کی حفاظت کی، مذہبی جگہ کے لیے عطیات دیے اور ان کی دیکھ ریکھ کی، غیر مسلموں کے مذہبی عقائد کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ان کی مقدس گائے کے ذبیحے سے اجتناب کیا ان کی طرح گئو رکشک بن کر خود ہی گائے نہیں کاٹی اور نفرت نہیں پھیلائی۔
نفرت کے سوداگرو۔۔۔! اگر تم حقیقی معنوں میں ملک کی ترقی چاہتے ہو، ملک کو ایک بار پھر سے سونے کی چڑیا کے طور پر دیکھناچاہتے ہو تو ان ہی لوگوں کی طرح ایک دوسروں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کرو جو تم سے پہلے یہاں حکمراں تھے، ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و محبت سے رہو، نفرت سے کنارہ کشی کرلو۔ ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوکر ان کی دادرسی کرو، ظلم کے ساتھ حکومت دیر تک قائم نہیں رہتی۔ تاریخ شاہد ہے ظلم جب حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو پھر کوئی اْٹھ کر ان مظلوموں کی دادرسی کرتا ہے اور ظالموں کو اس کے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔ ملک میں امن چاہتے ہیں، خوشحالی چاہتے ہیں تو نفرت سے باز آجائیں اور ہندوستان کی ترقی کے لیے مل جل کر محبت سے آگے بڑھیں۔ اسی میں ہم ہندوستانیوں کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور اسی میں ملک کی حقیقی ترقی پوشیدہ ہے ۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.