لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک-تلبیہ کی حقیقت اور حج وعمرہ!

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہر نے کااور کعبہ کے طواف کا اور اس کے لیے ایک خاص وقت مقر ر ہے کہ اس وقت میں یہ ارکان ادا کیے جائیں تو حج ہوگا9ہجری میں حج فرض ہوا، اس کی فرضیت قطعی ہے، جو حج کی فر ضیت کا انکار کرے کافر ہے۔حج عمر بھر میں صرف ایک بار فرض ہے، دکھاوے کے لیے حج کر نا اور مال حرام سے حج کو جانا حرام اور سخت گناہ ہے۔(فتا ویٰ عالم گیری،در مختار، بہار شریعت،ج1:ص1035سے36 تک (حج کو جانے کے لیے ماں باپ سے اجازت لینا واجب ہے، بغیر ماں باپ کی اجازت کے حج کو جانا مکروہ ہے یہ حکم حج فرض کا ہے اور اگر حج نفل ہو تو مطلقاً والد ین کی اجازت ضروری ہے۔(در مختار،ردالمختار،عالم گیری، بہار شریعت ج:1ص1035۔36)۔
*تلبیہ کیاہے*:
وہ مخصوص عر بی الفاظ جو حاجی دوران حج کے بعض ار کان کے دوران پڑھتا ہے۔تلبیہ کی حکمتیں،تلبیہ پڑھنے میں یہ حکمت ہے کہ ایک انسان کو جب کوئی معزز انسان بلاتا ہے تو وہ اس کو اچھے کلام سے جواب دیتا ہے۔ لھذا اس شخص کو ”حاجی“ کا کیا جواب ہو نا چاہیے جس کو خود مَلِکُ الْعَلاَّم اللہ عزو جل بلائے پکا رے اور اسے اپنی جانب بلاکر اس کے گناہ اور برا ئیاں سب معاف فر مادے، مٹادے، حج پر جانے والا بندہ”حاجی“ جب لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّّیُک پکار تا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے: ہاں! میں تیرے قریب ہوں اور تجھ پر رحمتیں برسانے والاہوں،پس تو جو چاہیئے مانگ لے، میں تیری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں،(یاد رہے شہ رگ اس نس کو کہتے ہیں جس سے پورے جسم میں خون دوڑ تا ہے)۔ ایک صحابی رسول جو حالت احرام میں ”تلبیہ“ پڑھتے ہوئے سواری سے گر کر وفات پا گئے،آپ ﷺ نے فر مایا کہ: یہ قیامت کے دن تلبیہ پڑھتے ہوئے اُٹھیں گے۔(صحیح مسلم،کتاب ا لحج،باب مایفعل با المحرم اذا مات،حدیث 1206۔
*تلبیہ کہنا کیوں ضروری ہے؟*:
حج کا احرام باندھتے ہی ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ *لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ لَبَّیْک لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک اِنَّ الْحَمْدَ والنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ* ۔تر جمہ:
میں حاضر ہوں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ سب تعریفیں تیرے لیے اور ساری نعمتیں تیری ہیں۔ اور باد شاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ (بندہ)میں حاضر ہوں۔
آخر حاجی صاحب کو کس نے آواز دی؟ہے اور کس کی آواز سنا ہے کہ احرام باندھتے ہی میں حاضر ہوں۔ اے اللہ میں حاضر ہوں۔ والا جواب دینے لگے؟ کلام الٰہی قر آن مجید میں اعلان فر مارہاہے۔وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْ تُوْکَ رِ جَالًاوَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْ تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔تر جمہ: اور لو گوں میں منادی(اعلان) کر دو پیدل چلکر اور پتلی دبلی اونٹنی پر سوار ہوکر دور دراز راستوں سے آئیں گے تمھارے پاس(حج کے لیے) حاضر ہوں گے۔ اس آیت کریمہ کا شان نزول صاحب تفسیر علامہ اسمٰعیل حقی رحمۃاللہ علیہ،تفسیر روح البیان یہ بیان کر تے ہیں کہ جب حضرت ابرا ہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انھیں اللہ تعا لیٰ نے فر مایا! لوگوں میں حج کا اعلان کیجیئے،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کی۔ اے اللہ تعالیٰ میری آواز کہاں تک پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فر مایا! اے ابراہیم تمھارا کام صرف اعلان کرنا ہے اور پہنچانا میرا کام ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام صفا پر چڑھے ایک روایت میں ہے کہ جبل ابو قیس پر چڑھے، ایک روایت میں ہے مقام ابراہیم پر چڑھے تو وہ مقام ایک پہاڑ کے برابر ہو گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام نے اپنے انگلیاں کانوں میں ڈالیں۔اور دائیں بائیں اور پیچھے زور سے پکا را۔ اے لوگو! خبردار تمھارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اور حکم فرمایا ہے کہ تم اس گھر کی زیارت کے لیے آؤ اورحج کرو تاکہ وہ تمھیں اس کا ثواب عطا فر مائے اور جنت سے نوازے اور دوزخ سے نجات بخشے،آپ کی اس آواز کو آسمان وزمین کے در میان والوں سب نے سنا اور جواب دیالَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ اسی لیے احرام باندھتے ہی لَبَّیْک اَللّٰھُمّ لَبَّیک۔ کی جو صدا حاجی دے رہا ہے اس حاجی نے عالم ارواح میں اپنے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا”لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک“ یعنی میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، جس کے مقدر میں جتنا لکھا تھا لَبَّیْک کہنا وہ احرام باندھتے ہی تلبیہ پڑھنا(بولنا) شروع کر دیتا ہے۔ تفسیر روحُ البیان میں ہے کہ حضرت مجاہد نے کہا کہ: جس نے ایک بار جواب دیا اسے ایک بار سعادتِ حج(لَبَّیْک) کہنا نصیب ہوگا۔ جس روح نے دوبار جواب دیا اس کو دوبار الغرض جس نے جتنی بار جواب دیا اسے اتنی بار حج نصیب ہو گا۔(فیوض الر حمٰن،تفسیر روح البیان، کشف القلوب،ج:1،ص536) تلبیہ کے ذریعہ حا جی کو عقیدہ توحید اور اخلاص کی تر بیت دی گئی ہے۔ تلبیہ بلند آواز سے اور بار بار پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے”لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیک“ کا مطلب ہے کہ اے اللہ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ”لَبَّیْک“ کا لفظ تکرار کے ساتھ یہ واضح کر نے کے لیے ہے کہ اللہ کے سامنے حاضری ہمیشہ اور مسلسل ہوگی،یعنی میں اللہ کی اطاعت کے لیے تیار ہوں کلمہ،نماز، روزہ،زکوٰۃ،حج اور تمام احکام الٰہی کا پابند رہوں گا۔صوفیا کرام نے تلبیہ کے بارے میں بڑی پیاری باتیں فر مائی ہیں، تلبیہ میں اس بات کا اعتراف ہے کہ سارے جہانوں کی بادشاہت صرف اور صرف رب ذُو الجلال والاکرام کی ہے،ظاہری ملکیت کسی کی بھی ہوسکتی ہے لیکن حقیقت میں سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔
*تلبیہ گناہوں کو مٹاتا ہے*:
تلبیہ کی فضیلت پر ذخیرہ احادیث میں بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فر مایا: کوئی بھی مسلمان جب تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں، بائیں حجر(پتھر) شجر(پیڑ) اور مٹی سے بنی ہر چیز یہاں (دائیں) سے یہاں (بائیں) تک پوری زمین تلبیہ سے گونج اٹھتی ہے۔(تر مذی، ابن خزیمہ اور بیہقی شریف نے اسے صحیح سند بیان فر مایا ہے،حدیث:828) علما فر ماتے ہیں تلبیہ واجب،سنت،اور مسنون ہے احرام باندھتے ہی تین(3) بار بلند آواز سے مرد حضرات(عورتیں آہستہ سے پڑھیں) پڑھنا واجب ہے، پھر حدود حرم میں داخل ہونے کے بعد طواف کعبہ شروع کرنے سے پہلے تک پڑھتے رہنا سنت ہے، اور بعد ارکان جب تک حج کے دوران حرم میں رہیں ذکر الٰہی کی نیت سے پڑھتے رہیں بے پناہ اجرو ثواب ہے (مسنون ہے)۔حدیث پاک میں تلبیہ کو بلند آواز میں پڑھنے کی تاکید ہے: زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فر مایا: میرے پاس جبرائیل امین حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ تلبیہ پڑھتے وقت اپنی آوازوں کو بلند کریں کیونکہ بلند آواز سے پڑھنا حج کے شعار(پہچان، عادت، نشان) میں سے ہے۔(ابن ماجہ کتاب ا لمناسک، باب الصوت با لتلبیہ،2923)۔ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص بلند آواز کے ساتھ تلبیہ پڑھتا ہے سورج اس کے گناہوں کو لے کرغروب ہوجاتا ہے (جامع الترمذی،کتاب الحج،باب ماجاء فی رفع الصوات بالتلبیہ:حدیث نمبر 8360، شعب الایمان،باب فی المناسک، فصل فی الاحرام والتلبیہ:حدیث نمبر4029)۔ تلبیہ حج و عمرہ کا خاص حصہ ہے،اللہ نے آپ کو حج و عمرہ کی توفیق نصیب فرمائی اللہ کا شکر ادا کریں اور حکم خدا کے مطابق حج وعمرہ کریں۔ وَ اَتِمُّوْا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ…..ترجمہ: اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو(القرآن:سورہ بقرہ-2،آیت نمبر:196)اس آیت میں اللہ رب العزت نے یہ حکم دیا ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض وشرائط کے ساتھ خاص اللہ کے لیے بغیر سستی اور کوتاہی کے پورا کرو۔
*حجاج کرام کی ذمہ داری*:
حج بدنی اور مالی دونوں عبادت ہے لہٰذا اس کے ارکان اداکرنے میں کاہلی و سستی نہ کریں اور خالص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کریں تو اللہ پاک آپ کو گناہوں سے پاک و صاف فرمادے گا۔دکھاوا اور ریاکاری سے اور موجودہ زمانے کے فتنہ موبائل کی سیلفی سے حج کو پاک و صاف رکھیں۔رسول کریم ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں (2)نماز قائم کرنا (3) زکوٰۃ ادا کرنا(4)حج ادا کرنا(5)اور رمضان کے روزے رکھنا۔(بخاری شریف:حدیث 8)،انتہائی افسوس ہے کہ حج (اورباقی عباتوں میں بھی) میں بہت دکھاوا ہوگیا ہے اور موبائل کی تباہ کاری نے عباتوں کی روح کو ہی ختم کردیا ہے جگہ جگہ سیلفی(Selfie)حرم مدینہ،حرم مکہ وغیرہ میں جس جگہ عبادت میں بے پناہ ثواب اور احترام کا حکم ہے وہاں بھی گناہ کا کام حرام کاری، تصویریں لینا بے دھڑک بے خوف گناہ کرنا *استغفر اللہ! استغفر اللہ!* اللہ سمجھ عطا فرمائے۔حجاج کرام ارکان کو خوش دلی کے ساتھ ادا کریں اور اس پر پوری توجہ دیں،تمام دعائیں یاد کریں اور جہاں جہاں مناسک حج میں ان کو پڑھنا ہے وہاں ان کا ورد کریں افسوس!کتنے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تلبیہ تک یاد نہیں ہے حاجی ہوکر آگئے،حج کا سرٹیفیکٹ مل گیا۔حجاج کرام سے گزارش ہے کہ حج و عمرہ کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ ہم سب کو توفیق رفیق عطا فرمائے(آمین)-
حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی، خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر کپا لی، وایا مانگو جمشیدپور جھاڑکھنڈ،09386379632, [email protected]
Comments are closed.