تغیر مگر ارتقا کے ساتھ!

 

 

محمد صابر حسین ندویؔ

[email protected]

7987972043

 

 

تغیر، تبدیلی قدرت کے نظام میں سے ہے، خود انسان کی بناوٹ، ساخت و پرداخت اس پر شاہد ہے، بچپن سے لیکر جوانی اور کہولت  سے موت تک کی زندگی بدلاؤ کا بہترین نمونہ ہے، دنیا کی ابتدا سے لیکر اب تک کی تخلیق اور طرز زندگی پر غور کیجیے! تو دنیا کے ہر بن مو سے تبدیلی کی انوکھی مثال نظر آئے گی، کبھی انسان قدرتی غذا پر بسر کرتا تھا، پھر لکڑی، مٹی تیل اور گیس تک کی ترقی سے لیکر آج برقی ٹکنالوجی کے دور میں ہے، گزشتہ زمانے میں انسان اپنی دفاع کےلیے پتھر، ڈنڈے اور لوہے کے بنے ہتھیار کا استعمال کرتا تھا؛ لیکن  آج میزائل اور ایٹم بم جیسے جان لیوا ہتھیار استعمال کرتا ہے، تعمیرات کا جائزہ لیجیے! کبھی غار، صحرا، جھونپڑی، اور ٹاٹ سے بنے مکانات میں زندگی گزارنے والا اب عالیشان محلوں اور ڈیزائن شدہ گھروں میں رہنے کا عادی ہوگیا ہے، کھانے پینے کی اقسام سے لیکر زندگی کا کوئی شعبہ نہیں جس میں تغیر نہ ہوا ہو، یہ عین فطری تقاضے پر مبنی ہے؛ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اس تغیر کے اندر ارتقا مطلوب ہے، کسی چیز کی ضرورت انسان کو اسے بہتر بنانے کی اپیل کرتی ہے، محض ذہنی تعیش اور عیش وعشرت کےلیے تغیر انسان کےلیے ہلاکت خیز ہے، یہ انسان کو فکری ہوس پرستی اور عیش پرستی میں مبتلا کردیتی یے، مغربی ممالک اپنی اسی فکری تعیش سے نالاں ہیں، ان کے مابین غیر ضروری امور نے اس قدر اہمیت پالی ہے؛ کہ اصل زندگی کا احساس کہیں گم ہو کر رہ گیا، یہی وہ تغیر ہے جو ارتقا کے بغیر ہو تو انسان ایک طرح سے اپنے ہی بنائے ہوئے دائرے میں محصور ہو کر رہ جاتا ہے، وہ الٹے پیر اپنے ہی معیارات کی طرف لوٹتا ہے، اور ایک وقت آتا ہے کہ اس کی ترقی کا ہر زینہ بےکار نظر آنے لگتا ہے۔ اس حقیقت کو غم دوراں کا امین جناب کلیم عاجز صاحب مرحوم کی زبانی سنیے اور ادب کی چاشنی میں حقیقت کا لطف لیجیے:

” مختصر یہ کہ تغیر اور ارتقا جو قانون فطرت ہے، اور اسی قانون تعاون پر بشر کا کل سے آج روشن تر ہوتا ہے، اور آج سے آنے والا کل روشن ترین ہونے کی بشارت رکھتا ہے، وہ تغیر اور ارتقا آپس میں دست و گریباں ہوگئے ہیں، دائرے کے اندر ہی کشتی ہو رہی ہے، ارتقا کا قدم دائرے سے باہر نہیں آتا، ارتقا بس تغیر ہی کی بھول بھلیوں میں پھنسا ہوا ہے، بشر کا ارتقا بس دسترخوان میں، مکان میں، ساز و سامان میں، دامان و گریبان میں، چال میں، اڑان میں کہاں سے کہاں پہونچا، مگر انسان کہاں سے کہاں گرا۔۔۔۔  میں ارتقا کا قائل ہوں، صرف تغیر کا نہیں، لباس میں، خوراک میں، مکان میں، سواری میں ارتقا الگ چیز ہے، تغیر الگ چیز۔ انسانی ضرورت خواہ وہ مادی ہو یا روحانی ارتقا کا سبب ہے، ضرورت کے بغیر صرف تغیر انسان کی ذہنی عیاشی ہے، ارتقا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لباس میں صرف اس لیے تغیر کہ اب اس ڈیزائن سے جی بھر گیا یا اب اس کھانے سے جی بھر گیا یا اب اس صوفے سے اس قالین سے اکتا گیا، دوسرا صوفہ لاو، دوسرا قالین لاو، میں نے یورپ میں، امریکا میں دیکھا نفس پسندی کے نتیجے میں تغیر کے مرض نے وہاں کے انسانوں کو مادی اور روحانی دونوں اعتبار سے بے وزن، بے قیمت، بے لذت بنا دیا ہے۔  بھرپور لباس میں تبدیلی کرتے کرتے ننگے ہوجاتے ہیں اور پھر بھرپور لباس کی طرف چلتے ہیں، حسن کی تلاش میں بد صورتی تک پہنچتے ہیں اور کراہت کی حد تک بد نمائی تک چلے جاتے ہیں، اور پھر پیچھے ہٹتے ہیں، ابھی اخباروں میں پڑھا کہ یوروپ بالخصوص فرانس کے ماہرین فیشن اب سر پر ہاتھ رکھ کر رونے کے قریب ہیں کہ فیشن اور تغیر کا طوفان دھیما ہوتا جاتا ہے، اور سیلاب تھمتا جاتا ہے۔ لوگ اب مراجعت کرنے لگے ہیں اور فیشن کا کاروبار مندا ہورہا ہے۔”( ابھی سن لو مجھ سے:۱۳_۱۶)

Comments are closed.