ہماری خوش نصیبی کو اور کیا چاہیے؟

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
اس امت کے مسائل بہت ہی پیچیدہ ہیں، افق عالم پر بکھری ہوئی ہے، ہر جگہ طعن و تشنیع اور وقت کی نزاکتوں اور ستم ظرفیوں کا سامان ہے، رہ رہ کر انسانی بستی میں اسے تنہائی سے رو برو ہونا پڑتا ہے، دشمنوں کی نوک پر اور عداوت کی دھار پر مسلمانوں کی زندگی رکھ دی گئی ہے، اب سکون کے معانی تلاش کیے جاتے ہیں، دو پل کو زندگی کا ساتھ ڈھونڈا جاتا ہے، بے بسی اور بے کسی کے اس عالم میں بہت سے ناداں اور کم ہمت اپنی ہمت کھو بیٹھتے ہیں، زمانے کی بے داد رسی اور ناانصافی کو یاد کر کے آنکھیں نم کر لیتے ہیں، ان کا دل بھر آتا ہے اور وعدہ الہی سے بھی اکتاہٹ کا احساس کرنے لگتے ہیں، اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ نصیب کا رونا رونے لگتے ہیں، اپنے آپ کو بد نصیب کہتے ہیں، خدا کے قلم کا درماندہ اور باب الہی کا راندہ گرداننے لگتے ہیں، دنیاوی چمک دمک اور انسانی بستی کی نیرنگی انہیں مبہوت کر دیتی ہے، مادیت کی محبت اور مصنوعی جذبات سے وہ متاثر ہو کر اسلام اور مسلمان ہونے کو داغدار کرنے لگتے ہیں، وہ اپنے دامن پر عشق نبوی ﷺ کو ایک زائد رنگ سمجھتے ہیں، انہیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ سب سے کمزور اور سب سے کم مایہ لوگ ہیں، زمانے میں ان کا وجود بس ایک بے سمجھے بوجھے فعل کا نتیجہ ہے، انہیں حالات کی چکی میں پیس ڈالنے اور مجبوریوں میں نچوڑ ڈالنے کےلیے پیدا کیا گیا ہے، یہ کوسنا اور خدا کو ملزم گردان کر چڑ چڑاہٹ کی کیفیت میں قید ہوجانا دراصل اب کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے، عمومی طور پر آپ زمین پر موجود کسی بھی مسلمان سے معلوم کیجیے! یہ حقیقت کھلی نگاہوں کے ساتھ دیکھ پائیں گے، امت کی اس کسمپرسی پر رونا آئے گا، ان کے دل کی بے دلی پر پیشانی مایوس ہوگی اور نگاہیں اشکبار ہو جائیں گی، اور صحیح معنوں میں ان کی بے حسی کا جائزہ لینے کے بعد دل کہہ اٹھے گا کہ یہ سرکار دوعالم کی محبت سے ناآشنا ہیں۔
سچ جانیے امت مسلمہ کی اس سے بڑھ کر اور کوئی خوش نصیبی نہیں کہ وہ اس امت میں پیدا ہوئے جس کے نبی سرور دو عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں، جن کی شفاعت ان کا مقدر ہیں، جن کی محبت اور جن کی شب و روز دعائیں ان کے ساتھ ہیں، وہ غموں میں اور خوشیوں میں ان کی رہنمائی کرنے والےہیں، وہ روز قیامت کی ہولناکیوں میں ان کی دادا رسی اور محبت رسی کرنے والے ہیں، حوض کوثر پر ان کا استقبال کرنے والے ہیں، جام محبت پلا کر عشق محبت سے سرشار کرنے والے ہیں، وہ ان کی مغفرت کےلیے اپنی جبین مبارک کو کائنات کے پروردگار کے سامنے یوں رگڑنے والے ہیں کہ ان کی مغفرت کا پروانہ مل جائے، انہیں گناہوں سے پاک کرکے جنت کی سبز وادیوں میں بسیرا مل جائے، اس نے اپنی زندگی اور موت ہی نہیں؛ بلکہ موت کے بعد کی زندگی بھی اسی امت کے نام کردی ہے؛ بلکہ اگر اسے وسعت دی جائے اور یوں کہا جائے کہ آپ ﷺ کی امت میں پیدا ہونے والا ہر شخص خوش نصیب ہے، وہ سرکار کا غلام ہو کر زمانے کا آقا بنا ہوا ہے، وہ نبی کریم ﷺ کے پیروں کی دھول میں آسمان کے ستاروں کا شکار کررہا ہے، وہ راتوں کو رونے والا اور مسیحائے امت کا خوش قسمت امتی ہے، یہی اس کا معراج اور اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے، دنیا کے جھمیلوں میں اگر دل ہار جائے اور ہر جگہ تاریکی ہی تاریکی نظر آئے، تو بس اسی حقیقت کو یاد کر لیجیے! اور سب کچھ بھول کر اس نبی مجتبیٰ ﷺ کی یاد میں خود کو گم کر دیجیے! یقینا آپ ہر ناامیدی سے باہر آئیں گے اور بے بسی سے باہر نکل جائیں گے، آپ کا دل طمانیت و سکونت کی جھیل میں غوطہ لگا نے لگے گا، اور آپ کو زندگی کا لطف یوں آئے گا کہ بس اس کے آگے کچھ نہیں، اور زبان سے یہ ورد جاری ہو جائے گا، "بعد از خدا توئی قصہ مختصر "، ہزاروں درود و سلام ہو اس نبی محمد ﷺ پر جس نے اس امت کے درد کو محبت کا پروانہ اور نگاہ عشق کا گل سرسبد دیا۔ (فداہ روحی و ابی و امی:ﷺ)
Comments are closed.