یہ "توفیق ” ہی عمل کی بنیاد ہے!!!

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

"وما توفيقي الا بالله”(ھود:۸۸) حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنے اعمال کی نسبت الله تعالی کی طرف کرتے ہوئے اپنی قوم سے کہا تھا: کہ مجھے اس کی توفیق الله کی جانب سے ملتی ہے۔ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی زبانی خدائی قانون اور اس کی مشیت کی تشریح ہے، انسان اگرچہ اپنے بعض افعال و اعمال کا ذمے دار ہوتا ہے، جس پر اجر و ثواب وارد ہوتے ہیں اور یہی انہیں فرشتوں سے ممتاز کرتے ہیں؛ لیکن اس اصل کو بھی سمجھنا بے حد ضروری ہے، کہ ان اعمال خیر کی طرف رجحان بھی خدا عزوجل کی رضامندی پر مبنی ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ میں کوئی مقناطیسی صلاحیت رکھتا ہو اور وہ یوں ہی نیک اعمال کی طرف کھنچا چلاجاتا ہو، یا پھر اعمال میں کوئی میگنیٹک نظام ہو، جس کی بنا پر انسان اس کی طرف لپکتا ہو اور وہ مجبور و مقہور ہوجاتا ہو کہ اس عمل کو انجام دیدے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے لوگ جن کےلیے ماحول سازگار نہیں ہوتے، زندگی میں ہزاروں رکاوٹیں ہوتی ہیں؛ لیکن اس کے باوجود نئی نئی بلندیوں کو چھوتے ہیں، تو وہیں منہ میں سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والے اپنی نامرادیوں اور کم بختیوں کا رونا روتے ہیں، کئی دفعہ ذرہ شہ پارہ بن جاتا ہے؛ مگر شہہ پاروں میں رہ کر بہت سے خاک آلود ہوجاتے ہیں، یہ سب دراصل خدا کی مشیت ہے جسے قرآن کی اصطلاح میں توفیق کہا جاتا ہے، اسی کا اثر ہوتا ہے، اسی کا حکم ہوتا ہے، چنانچہ خدا تعالی جس کے ساتھ خیر کا سلوک کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا دل بھی نیکی و بہتری کےلیے کھول دیتے ہیں، انشراح صدر کے ساتھ وہ قدم بڑھاتا ہے، عبدیت کے فرائض انجام دیتا ہوا خدا کا نیک بندہ بن جاتا ہے، صوم و صلاۃ کے ساتھ خدمت خلق اور نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو کا مجسم ہو جاتا ہے، جسم کے اندر قوت، اعصاب میں تقویت اور اذہان و افکار میں حیران کن تبدیلی پاتا ہے، بدن کا ہر حصہ طاعت و فرمانبرداری میں شرابور ہو کر عشق الہی اور عشق نبوی ﷺ کے چشمہ حیواں میں غوطہ زن ہوجاتا ہے، پھر وہ رضائے الہی کی منزل سر کی نگاہوں سے عیاں طور دیکھتا ہے، اور بس چلتا جاتا ہے، یہاں تک کہ منزل مقصود کو سرفراز ہوجاتا ہے۔
سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے اس توفیق کے معانی پر اور اس کی حقیقت پر بڑا عمدہ اور سادہ طرز میں تبصرہ کیا ہے، جو نہ صرف پڑھنے کے قابل ہے، بلکہ جسے پڑھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ اے اللہ! تو ہمیں بھی اپنی توفیق سے نواز دے۔ اور یوں گردش زمانہ کے حوالے نہ کر!!! آپ رقمطراز ہیں: "۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ توفیق دی، سب کا انحصار توفیق پر ہے، ساری چیزیں جمع ہیں مگر توفیق نہیں تو کچھ نہیں، یعنی روزے رکھنے کےلیے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے، عمر۔۔۔۔ تو الله کے فضل سے زندگی ہے، جوانی چاہیے، بلوغ چاہیے تو وہ بھی موجود ہے، اور روزے کے مسئلے معلوم ہونے چاہئیں، تو وہ بھی معلوم ہیں، حکومت روکتی، قانون روکتا یا ڈاکٹر ہی نے کہا ہوتا کہ تمہارے لیے روزہ رکھنا نامناسب ہے، نقصان دہ ہے، تو یہ بھی نہیں ہے، پھر روزہ کیوں نہیں ہورہا ہے؟ توفیق نہیں ہے۔ توفیق وہ چیز ہے جس کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں ہو سکتا، توفیق کا مطلب یہ ہے کہ الله کا رحمت کا ارادہ کرنا، اور الله تعالی کا اس کے دل میں یہ خیال اور جذبہ ڈال دینا کہ یہ کام کرنا ہے، اور تمام رکاوٹوں اور موانع کو ہٹا دینا ہے، اور پھر الله تبارک و تعالی کا یہ فیصلہ کرنا کہ یہ ہو، یہ شخص روزے رکھے، نماز پڑھے، ان سب کے مجموعے کا نام توفیق ہے، اتنی لمبی جو ہم نے عبارت بیان کی وہ عربی کے قرآن مجید کے ایک لفظ میں آگیا ہے، اس کا نام ہے توفیق۔ آپ دیکھیں گے، اپنے محلے میں دیکھیں گے، کہ ماحول موجود، سارے اسباب موجود، شرائط موجود، فضا موجود؛ لیکن روزہ نہیں، اس لیے کہ توفیق نہیں، اب اللہ نے تم کو ساری چیزیں اور ساتھ میں توفیق بھی عطا فرمائی، اس پر الله کی بڑائی بیان کرو– ولتكبروا الله على ما هداكم” (رمضان المبارک اور اس کے تقاضے: ۱۵۶_۷)

Comments are closed.