کیا ہم نوجوانوں کو ایسے ہی مرتا دیکھتے رہیں!!!

 

محمد معراج الحق

متعلم دارالعلوم وقف دیوبند

گھر سے ملی اطلاع کے مطابق ہمارے گھر کے نیچے کے کمرے میں ایک مسلمان بچّی نے امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے انتہائی اقدام اٹھا کر خود کو پھانسی کے پھندے لٹکا لی، معلوم ہوا کہ منگل کی شام تقریبا ٨ بجے انکا اگزام رزلٹس آیا جسمیں وہ فیل بتائی گٸ اور اس سے دل برداشتہ ہوکر بروز چہار شنبہ بند کمرہ میں خود کشی کرلی۔
کہنے کو تو یہ ایک خبر ہے لیکن ان والدین پر کیا کچھ بیتی ہوگی جنکے بچے بھری جوانی میں امتحان پاس نہ ہونے کی وجہ سے موت کو گلے لگا رہے ہیں۔۔! غیر مسلم بچے اگر اس طرح کا اقدام کرتے ہیں تو تھوڑی دیر کے مان لیتے ہیں کہ ان کے یہاں عقیدہ آخرت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آئے دن مسلمان بچے اور بچیاں کیوں خودکشی کر رہے ہیں؟ آخر اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ آخر دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم تربیت سے کیوں پہلوتہی اختیار کی جا رہی ہے۔۔! غور کریں تو جہاں ایک طرف اس کے ذمہ دار خود بچوں کے والدین ہیں، اگر دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم دلوائی ہوتی، عقیدہ آخرت کا یقین دلایا ہوتا، اور اپنے بچوں کو خودکشی کی اخروی بتائی ہوتی، اور یہ بتایا ہوتا کہ یہ زندگی ہمارے پاس بطور امانت دی گئی ہے اس میں تصرف(خودکشی) کرنے کا اختیار ہمیں نہیں دیا گیا، ہمیں اس دنیا میں عبادت کرنے کے لیے وجود بخشا گیا ہے، بلکہ ہماری پوری زندگی خود ایک امتحان ہے اور اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، دنیا فانی ہے اور اس کی تمام چیزوں فنا ہونا ہے۔ اگر مسلمان والدین اپنے بچوں کو شروع سے دینی تربیت دی ہوتی تو اور دین کی موٹی موٹی باتیں بتائی ہوتی تو ہمیں آج یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے۔۔! تو جہاں قصور مسکم والدین کا ہے وہیں حکومتی اداروں کی بھی غلطیاں ہیں، کیونکہ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ تحقیق و پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ سال ٢٠١٩ میں تلنگانہ کے اندر اب تک تقریبًا ٥٠ سے ٦٠ بچّے اور بچّیوں نے خود کشی کی ہے اور سب کا ایک ہی سبب امتحان میں ناکام ہونا ہے، اسمیں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب شامل ہیں، ہم تلنگانہ حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم اپنے نوجوانوں کو یونہی مرتا دیکھیں یا حکومتی ادارے خودکشی کے واقعات پر روک لگانے کے لیے کوئی قدم اُٹھاٸنگے۔۔۔! عوام سے اپیل ہے کہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے حکومت سے مطالبہ کرے کہ تلنگانہ حکومت ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے کہ جب بھی دسویں کے اوپر کا امتحان شروع ہو تو وہ کمیٹی ہر اسکول و کالجس میں جاکر ان نوجوان بچّے اور بچّیوں کی ذہن سازی کریں، انکے دلوں کو مضبوط کریں اور انکی دلجوئی کر کے انکا ہمت بڑھائیں کہ اگر آپ اس امتحان فیل بھی ہو جاتے ہیں تو ٹینشن نہ لیں کیونکہ آپ کے پاس وقت ہے ایک مہینے کے بعد پھر امتحان دے سکتے ہیں آپ دلبرداشتہ نہ اور کوٸ ایسا قدم نہ اٹھائیں، اگر زندگی رہی تو ہم امتحان بعد میں بھی دے سکتے ہیں، اسی کے ساتھ ہمارے اسکول و کالجس کے ذمہ داران بھی اس پر توجہ دیں اور آئے دن خودکشی کے واقعات میں ہو رہے اضافے کے اسباب و عوامل کا اچھی طرح چھان بین کر بچوں کی زندگی بچائیں تب ہی جا کر خودکشی جیسے سنگین اقدام پر قدغن و روک لگانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تو جہاں والدین کو چاہیے کہ امتحانات کے وقت وہ بچوں کو سمجھائیں، بطور خاص مسلمان والدین اپنے بچے اور بچیوں کو دینی تعلیم سے ضرور روشناس کرائیں وہیں حکومتی اداروں کو اپنی ذمہ داری قبول کرنے اور نقصان کی تلافی کرنے کی ضرورت ہے ورنہ آئے دن ہم اپنے ان جیسے بہت سے نوجوانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جن سے ہم اور ہمارا ملک امیدیں لگائے ہوئے ہے اور ایسی کئی جانیں کھودیں گے کہ جن کے اوپر مستقبل کی ذمہ داری ہے۔

تجزیہ نگار بصیرت میڈیا گروپ کے رکن ہیں

Comments are closed.