Baseerat Online News Portal

ایشیا کے دل میں چند دن!

( قسط اول )

فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

جنوبی ایشیا کا ایک اہم ملک افغانستان ہے، جس کو علامہ اقبال نے ایشیاء کا دل کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کے فساد سے پورے ایشیاء کا فساد اور اس کے امن سے پورے ایشیاء کا امن متعلق ہے:
آسیا یک پیکرِ آب وگِل است
ملتِ افغان در آں پیکر دل است
از فساد اُو فساد ِ آسیا
در گشاد اُو گشاد آسیا
چٹھی صدی قبل مسیح تک یہ ایران میں شامل تھا، ۳۳۰ ق م میں اس کو سکندر اعظم نے فتح کیا، اس کے بعد سے یہ ہمیشہ طالع آزما فرماں رواؤں کا میدان کارزار رہا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں احنف بن قیسؒ نے ایران کے بادشاہ یزدگرد کو شکست دے کر خراسان کو فتح کر لیا، جو ایران سے متصل علاقہ ہے، یہ ہجرت کے تیسرے سال بصرہ میں پیدا ہوئے، یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی ان کی ولادت ہوئی؛ لیکن آپ کی صحبت نہیں پا سکے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک وفد کے ساتھ حاضر ہوئے اور پھر بصرہ لوٹ گئے، جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے، قبیلۂ تمیم کے سردار اور اپنے قبیلہ میں بے حد مقبول تھے، ان کی حلم وبردباری کی مثال دی جاتی تھی، ۷۲ھ میں کوفہ میں وفات ہوئی، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عبد االلہ بن عامرؒ نے کابل کو فتح کیا، اس وقت تک افغانستان میں تین مذاہب فروکش تھے، زرتشت، بودھ اور ہندو (جو اس زمانے میں برہمن کہلاتے تھے) فتح کابل کے بعد یہاں اسلام کی دعوت اور اشاعت کا بھی کام ہوا، اور پچاس ہزار سے زیادہ عرب بھی یہاں آباد کئے گئے، یہ پورا ملک پہاڑی سلسلوں سے گِھرا ہوا ہے، کابل اور ہرات کے درمیان ہوائی جہاز سے گزرتے ہوئے ددور دور تک پہاڑ ہی نظر آرہے تھے،اور بہت سی پہاڑی چوٹیوں پر برف جمی ہوئی تھی، اس ملک کی سرحدیں ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور چین سے ملتی ہیں؛ اگرچہ اس کو ساحل سمندر حاصل نہیں ہے؛ لیکن اس کے پہاڑوں پر برف جمنے کی وجہ سے پانی کے اعتبار سے یہ بہت مال دار ملک ہے، جو نہ صرف اس سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے؛ بلکہ پاکستان، ایران اور تاجکستان کو بھی وافر مقدار میں یہاں کے دریاؤں کا پانی حاصل ہوتا ہے۔
اس ملک نے اسلامی علوم، ادب اور تصوف میں بڑی بڑی شخصیتیں عطا کی ہیں، جن کا نام پوری دنیا میں احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے، جیسے امام ابو حنیفہ کے دادا زوما، ابراھیم بن ادھمؒ (متوفی:۱۶۱ھ)، مشہور محدث ابو داؤد سجستانیؒ(۲۰۴-۲۷۵ھ)،معروف ریاضی داں اور ماہر فلکیات ابوالمعاشر بلخیؒ(۷۸۷-۸۸۶ھ)، ابراھیم بن طہان ہرویؒ (متوفی: ۱۶۸ھ) علم حدیث میں جن کا مقام اتنا بلند تھا کہ امام احمد بن حنبلؒ ٹیک لگائے ہوئے تھے، جب ان کے سامنے آپ کا ذکر آیا تو ازراہ ادب بیٹھ گئے، ابو ریحان البیرونی(۲۱۳-۲۷۶ھ)،معروف فلسفی اور سائنس داں ابن سینا کے والد،مشہور صوفی ابوالحسن فردوسی طوسی (۳۳۹-۴۱۶ھ) ، مولانا رومؒ،مولود بلخ،(۶۰۴-۶۷۲ھ)مولانا عبد الرحمن جامیؒ، مشہور مفسر امام فخر الدین رازیؒ اور کن کن کا نام لیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے مختلف شہر کابل، ہرات اور اس سے متصل ایران، تاجکستان اور ازبکستان وغیرہ کے علاقے دنیائے عجم کے بغداد کی حیثیت رکھتے تھے، جہاں سے بڑے بڑے محدثین اور فقہاء پیدا ہوئے۔
یہ وہ عظیم نسبتیں ہیں جن کی وجہ سے ایک زمانہ سے اس علاقے کے سفر کی آرزو تھی؛ لیکن وہاں کے سیاسی نشیب وفراز کی وجہ سے ہمت نہ ہوتی تھی، ادھر دو سال سے ایک مخلص عزیز مولانا محمد یونس سادات اور افغانستان کے دوسرے علماء وہاں کے سفر کی دعوت دے رہے تھے، رمضان المبارک ۱۴۴۰ھ سے پہلے پیش کش کی گئی کہ عید کے چند ہی روز بعد یہاں کا سفر ہو، میں نے بھی ابتدائََ مناسب وقت ہونے کی وجہ سے اسے منظور کر لیا تھا؛ لیکن پھر اپنی علالت کی وجہ سے معذرت کر دی، پھر میزبان نے میری سہولت کے لحاظ سے پروگرام کو مؤخر کیا، اس طرح اس پُرسعادت دعوت کو قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں تھا؛ چنانچہ راقم الحروف اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے شعبۂ علمی کے رفیق مولانا امتیاز احمد قاسمی سلمہ کے ساتھ ۲۵؍جون ۲۰۱۹ء کو ۳؍بجے دن کام ائیر لائز کے ذریعہ دہلی ائیرپورٹ سے نکلے اورافغانستان کے وقت کے لحاظ سے ۷؍ بجے احمد کرزئی ائیرپورٹ کابل پہنچ گئے، جب ہم لوگ دہلی سے چلے تو سخت گرمی تھی اور جھلسا دینے والی ہوا چل رہی تھی ؛لیکن جوں ہی کابل ائیرپورٹ پر پہنچے، خوش گوار باد نسیم نے استقبال کیا۔
کابل کے خوش گوار موسم کا بہترین نقشہ شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے کھینچا ہے، جن میں سے چند اشعار اس طرح ہیں:
شہر کابل خطۂ جنت نظیر
آبِ حیواں از رگ تاکش بگیر
آن دیار خوش سواد، آں پاک بوم
بادِ او خو شتر زِباد شام وروم
آبِ او براق وخاکش تاب ناک
زندہ از موجِ نسیمش مردہ خاک
’’شہر کابل جنت نظیر خطہ ہے، اس کے انگور کی رگوں سے آبِ حیات جاری ہوتا ہے،یہ بہترین منظر اور پاکیزہ موسم کا علاقہ ہے، اس کی ہوا شام وروم کی ہوا سے بھی بہتر ہے، اس کا پانی خوب روشن اور اس کی مٹی تاب ناک ہے، اس کی بادنسیم کے جھونکے سے مردہ مٹی زندہ ہو جاتی ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے کابل کے موسم اور ماحول کے بارے میں ان اشعار میں جو بات کہی ہے، وہ آج بھی وہاں سر کی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے، علامہ اقبالؒ نے افغانیوں کے بارے میں کہاہے کہ وہ بہت ہی سیر چشم واقع ہوئے ہیں، خوبصورت لعل وگہر کی طرح ہیں، ان کی مثال اس تیغ کی ہے، جو خود اپنے جوہر سے بے خبر ہوتا ہے:
ساکنا نش سیر چشم وخوش گہر
مثلِ تیغ از جوہرِ خود بے خبر
واقعی افغانستان اور اہل افغانستان اس کا مصداق ہیں۔
چوں کہ افغانستان کی جنگ میں یہ ائیرپورٹ بھی تباہ ہوگیا تھا؛ اس لئے اس کی تعمیری کام چلاؤ حالت میں ہے، رن وے اوربلڈنگ دوسرے ملکوں کے اعتبار سے معمولی ہے، چھتیں ٹین شیڈ کی ہیں، جن کے نیچے سیلنگ بھی نہیں کی گئی ہے، وسعت بھی کم ہے، اور مطلوبہ سہولتیں یا تو کم ہیں یا نہیں ہیں، سولار کی لائٹ کا انتظام ہے، شاید اسی وجہ سے روشنی بھی مدھم ہے، مسافروں کی کئی مرحلوں میں چیکنگ ہوتی ہے اور سامان کا بھی بار بار جائزہ لیا جاتا ہے، ہم لوگوں کے سامان میں کچھ کتابیں بھی تھیں، ائیرپورٹ کے عملے نے اس کو اتنی اہمیت کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی کہ گویا بم اور بارود رکھا ہوا ہو؛ لیکن ان سب کے باوجود جہاز سے لے کر ائیرپورٹ تک افغانی عملہ بہت با اخلاق اور شریف نظر آئے، چاہے ایمیگریشن آفیسر ہوں یا کسٹم افسر، یا پولیس اور فورس کے ارکان، سبھی لوگ مسافرین کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آتے ہیں، اور ہم جیسے لوگ جن کی ظاہری وضع قطع دین داروں کی سی ہے، سے تو بہت ہی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔
جوں ہی ہم لوگ کسٹم ہال سے باہر نکلے، میزبانوں کی ایک جماعت باہر موجود تھی، مولانا محمد ابراہیم صاحب، مولانا محمد اسحاق، مولانا محمد یونس، مفتی نثار احمد، حاجی امجد بَہار، جناب عبدالقیوم انجینئر وغیرہ، ہم لوگ دو گاڑیوں میں سوار ہو کر نکلے، کابل میں سرِشام ہی دکانیںبند ہو جاتی ہیں؛ اس لئے سڑکوں پر اژدہام کم ہوگیا تھا، ۳۰؍۴۰؍ منٹ میں ہم لوگ دارالعلوم نعمانیہ پہنچ گئے،یہیں’’ مجمع الفقہ الاسلامی افغانستان ‘‘کا تیسرا سیمینار تھا، جو اگلے دن ظہر بعد ہونا تھا،اسی کے مہمان خانہ میں قیام کا انتظام کیا گیا تھا، مولانا محمد یونس سادات نے ہماری راحت کے لئے کوشش کی کہ زیادہ لوگوں کو اس کی اطلاع نہ کی جائے، پھر بھی دو چار حضرات ملاقات کے لئے آگئے، اور ہم لو گ رات کے بارہ بجے ہی بستر پر جا سکے، مولانا بشیر الدین صاحب جو دارالعلوم زاہدان کے فارغ ہیں ، اردو کم بولتے ہیں؛ لیکن ماشاء اللہ عربی زبان پر بہت اچھی قدرت رکھتے ہی، اور فارسی اور پشتو تو ان کی مادری زبان ہے، وہ شروع ہی سے راحت پہنچانے میں لگے رہے، اور ہر طرح آرام کا خیال رکھا، ماشاء اللہ یہ ذہین نوجوان ہیں، انہوں نے دارالعلوم زاہدان میں تخصص کے لئے تعدد ازدواج کے موضوع پر اپنا مقالہ لکھا ہے، ماشاء اللہ اچھا مقالہ ہے، ان کی خواہش پر میں نے اِس کتاب کے لئے تقریظ بھی تحریر کی۔
دارالعلوم نعمانیہ کی بنیاد ۱۴۳۴ھ میں رکھی گئی، مولانا سید محمد رفیق صاحب اس کے بانی اور نگران اعلیٰ ہیں، عمر ۸۰؍ سال سے متجاوز ہے، کھلا ہوا رنگ، سفید اور گھنی داڑھی، سر پر عمامہ اور ہاتھوں میں عصا، کمر جھکی ہوئی، خلیق اور شفیق، چہرے سے لے کر لباس تک گویا نور میں نہلایا ہوا وجود، باوجود ضعف کے تشریف لائے، ملاقات کی، دعائیں دیں، اور اپنے لئے دعاء کی خواہش کی، دارالعلوم کے مہتمم مولانا سید محمد ابراہیم صاحب ہیں، جو افغانستان کی تبلیغی جماعت کی شوریٰ کے رکن ہیں، اور بہت ہی مرنجا مرنج شخصیت کے مالک ہیں، مفتی محمد اسحاق صاحب ناظم تعلیمات ہیں، کم گو اور متواضع آدمی ہیں، انہوں نے کئی اہم اردو کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے، ان کی خواہش پر میں نے ان کی ایک کتاب کے لئے تقریظ بھی لکھائی، اچھا قلمی ذوق رکھتے ہیں، مولانا محمد یونس صاحب شعبۂ افتاء کے ذمہ دار ہیں، ان کی فراغت بھی دارالعلوم زاہدان سے ہے، نوجوان ہیں اور جدوجہد کا جذبہ رکھتے ہیں، انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا، تمام علمی مراکز پر پہنچے، وہاں کے بزرگوں سے ملاقاتیں کی، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا بھی آئے اور بار بار آئے، یہاں کے طریق کار کو دیکھا، سیمینار میں شرکت کی اور اس کے گہرے نقوش لے کر افغانستان گئے، پھروہاں اسی نہج پر اپنے بزرگوں کے مشورے سے اور اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے مجمع الفقہ الاسلامی افغانستان کی بنیاد رکھی، ابھی یہ ادارہ ابتدائی مرحلہ میں ہے؛ لیکن اس کے ذمہ داروں اور کارکنوں کی صلاحیت اور جذبۂ جدوجہد کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ بہت جلد یہ چھوٹا سا پودا ایک تناور درخت بن کر ابھرے گا۔
اگلے دن ۲۶؍جون ۲۰۱۹ء کو نماز ظہر کے بعد سیمینار کی افتتاحی مجلس منعقد ہونے والی تھی اور ظہر تک کا وقت خالی تھا، رات کو یہ طے ہوا تھا کہ اس وقت کو شہر کے اہم مقامات کے دیکھنے میں گزارا جائے؛ چنانچہ صبح کے ناشتے کے بعد ہم لوگ اپنی قیام گاہ سے نکلے اور سب سے پہلے شہدائے صالحین نامی محلہ میں پہنچے، یہ ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے، جس پر کافی دور تک دودیواریں بنی ہوئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس وقت پہاڑ کے اوپر کھینچی گئی یہ دیواریں سرحدیں تھیں، جن کی ایک طرف بت پرستوں کی حکومت تھی اور دوسری طرف آتش پرستوں کی، اسی پہاڑ کے دامن میں ایک مدفن ہے، جس میں اجتماعی قبر ہے، کہا جاتا ہے کہ اس میں ۷۲؍ قبریں ہیں، ان کے نام کا کتبہ بھی باہر لگا ہوا ہے، جس میں بعض صحابہ، بعض تابعین اور صحابہ کی اولاد ہیں، یہ حضرات فتح کابل کے جہاد میں شامل تھے اور انہوں نے اس دیار میں اسلام کی دعوت کا کام بھی کیا تھا، یہاں سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک اور مقبرہ ہے جس میں حضرت تمیم انصاری اور جبیر انصاری کی قبریں ہیں، یہ اس لشکر میں شامل تھے، جو ۲۸؍تا ۳۰؍ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن حبیب قریشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سرکردگی میں ایران سے یہاں وارد ہوا، اس وقت یہاں کا بادشاہ اِعراج شاہ تھا، جو لشکر اسلامی کے مقابلہ میں مغلوب ہوا، اور مشرف بہ اسلام ہوگیا، کتب رجال سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن سمرہ فتح مکہ کے موقع سے مسلمان ہوئے اور ان ہی کے ہاتھوں سجستان اور کابل کا علاقہ فتح ہوا، وہ خود تو ایران کی طرف واپس ہوگئے؛ لیکن ان دونوں انصاری صحابہ کو کابل ہی میں چھوڑ گئے؛ تاکہ وہ یہاں اسلام کی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیں، ناموں کی بعض تفصیلات اس مقبرہ کے ایک کتبہ پر لکھی ہوئی ہیں، یہ علاقہ ہرا بھرا ہے اور کچھ بلندی پر پانی کا چشمہ بھی ہے؛مگر میں اپنی صحت کی وجہ سے وہاں تک نہیں جا سکا، یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ اس کے سامنے جو آبادی ہے وہ نہایت ہی غربت وافلاس کی حالت میں ہے، مٹی کی کچی دیواریں ہیں، ٹین کا چھپر ہے، گھر وں میں لکڑی کے دروازے بھی نہیں ہیں، صرف پردہ لٹکا دیا گیا ہے، مسلسل جنگ کی وجہ سے آبادی کا ایک اچھا خاصا حصہ اسی صورت حال سے گزررہا ہے، اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ فرمائے۔
یہاں سے نکل کر ہم لوگ جامعہ قاسمیہ پہنچے، یہ محلہ شور بازار میں واقع ہے، اس ادارے کے دونوں طرف مندر اور گردوارے ہیں، اور محلے کے اندر بھی ہندو اور سکھ بھائیوں کی اچھی خاصی آبادی نظر آتی ہے؛ لیکن کہیں کوئی خوف ودہشت اور نفرت کا ماحول نہیں ہے، بالکل برادرانہ ماحول میں تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں، اس سے بڑی مسرت ہوئی، اور اندازہ ہوا کہ میڈیا کے لوگ جو کچھ کہتے ہیں، وہ زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہے، جامعہ میں لوگ پہلے سے سراپا انتظار تھے اور اساتذہ اور طلبہ لائن بنا کر اپنے اس حقیر بھائی کے استقبال کے لئے کھڑے تھے، اس ادارے کے مہتمم حضرت مولانا حبیب اللہ حقانی ہیں، جو پاکستان کے شہر پشاور کے رہنے والے ہیں،انہوں نے ہی اس ادارے کی تجدید کی ہے، وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اپنے وطن ہی میں مقیم ہیں، یہاں ان کے نائب قاری اجمل طیب صاحب انتظامی امور کو انجام دیتے ہیں، جو نوجوان فاضل ہیں، یہ چوں کہ سفر پر تھے؛ اس لئے ان سے ملاقات نہیں ہو سکی؛ لیکن واپسی میں انہوں نے قیام گاہ پہنچ کر ملاقات کی، اور جب ہندوستان واپسی کے لئے ہم لوگ ائیرپورٹ گئے تو ائیرپورٹ پہنچانے میں بھی ساتھ ساتھ رہے، اس ادارے کے سینئر استاذ اور تربیت افتاء کے ذمہ دار حضرت مولانا عبد المنان قاسمی زید مجدہ ہیں، جو اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سیمینار میں تشریف لا چکے ہیں، وہی ادارہ میں حاضری کے محرک تھے، وہ ایک متواضع، منکسر المزاج اور وسیع النظر عالم دین ہیں، اور دارالعلوم دیوبند سے عشق کے درجہ میں محبت رکھتے ہیں، میرے ساتھ بھی ان کی غیر معمولی شفقتیں شریک حال رہیں، فجزاہ اللہ خیر الجزاء، یہاں عربی کی متوسطات تک جماعتیں تو پہلے سے قائم ہیں، اس سال تخصص فی الفقہ کا شعبہ قائم ہوا ہے، اسی کے افتتاح کے لئے اس حقیر کو مدعو کیا گیا تھا۔
راقم نے طلبہ کو درمختار کے مقدمہ کی ابتدائی سطروں کی عبارت خوانی کروائی اور علوم اسلامی میں فقہ کی اہمیت، ضرورت، جامعیت اور اس میں پائے جانے والے توازن واعتدال پر گفتگو کی گئی، اس ادارے کے اصل بانی مشہور مصنف اور عالمِ معقولات میر زاہد ھرویؒ ہیں، اُن کی پیدائش ہندوستان ہی کی ہے، وہ شاہ جہاں کے عہد میں وقائع نویس اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کے دور میں فوجیوں کے محتسب تھے، ۱۱۰۰ھ میں کابل میں وفات پائی،ان کی کتاب حاشیہ میر زاہد عرصہ تک ہندوستان کے مدارس میں داخل نصاب تھی، شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے والد ماجد شاہ عبدالرحیم صاحبؒ نے اسی درسگاہ میں ملا میر زاہد سے کسب فیض کیا تھا، یہ ایک قدیم اور وسیع مسجد میں واقع ہے، طویل عرصہ سے یہ مدرسہ بالکل ویران تھا، اب آہستہ آہستہ اس کی رونق بحال ہو رہی ہے، یہیں سے قریب مسجد ملا محمود ہے، جس میں تحریک آزادی کے دوران مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے سات سال قیام کیا تھا، وہ شیخ الہندمولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی ہدایت پر افغانستان کے فرماں روا امان اللہ خان سے ملنے آئے تھے، اورکابل میں مقیم ہو کر آزادی کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے۔
آج بعد نماز ظہر دارالعلوم نعمانیہ میں مجمع الفقہ الاسلامی افغانستان کی افتتاحی نشست تھی، جس میں تلاوت کے بعد مفتی محمد اسحاق سادات (ناظم تعلیمات دارالعلوم نعمانیہ) نے فارسی میں اور مفتی عبد الحق حقانی( استاذ دارالعلوم افغان )نے پشتو میں استقبالیہ کلمات پیش کئے، یہ دونوں یہاں کی سرکاری اور عوامی زبانیں ہیں،مولانا عبدالحق حبیبی نے افتتاحی کلمات کہے اور مُعلِن کے فرائض انجام دیے، مفتی نورآغا استاذ جامعہ قاسمیہ کابل نے اس حقیر کا تعارف کرایا، بلخ کے ممتاز عالم مفتی عبد الحفیظ قرشی اور دارالعلوم فراہ کے مفتی آقا محمد نے تأثرات پیش کئے، اور اخیر میں اس حقیر نے اپنی معروضات پیش کیں، خاص طور پر یہ بات عرض کی گئی کہ نئے مسائل کیوں کر پیدا ہوتے ہیں، ان کے حل کے لئے فقہاء نے کیا اصول متعین کئے ہیں، اور قرآن وحدیث سے ہمیں اس سلسلہ میں کیا روشنی ملتی ہے؟ ہر زمانے کی کچھ ضرورتیں ہوتی ہیں، بعض ادارے موجودہ دور کی ضرورت ہے، جیسے بینکنگ نظام، انشورنس کا نظام، اسٹاک اکسچنج، پہلے زمانے میں معاشی نظام کا دائرہ محدود تھا، تیز رفتار لیکن پُر خطر ٹکنالوجی کا استعمال نہیں تھا، کاروباری پروجیکٹ چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے، ان اداروں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی؛ لیکن آج کی صورت حال پہلے سے مختلف ہے، اب اگر ہم صرف اس قدر کہہ دیں کہ یہ ناجائز ہے اور اس میںفلاں خرابی ہے، تو یہ بات درست نہیں ہوگی؛ بلکہ ہمیں اس کا حل اور اس کا جائز متبادل پیش کرنا ضروری ہے،نیز اس کے ذیل میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا تعارف کرایا گیا۔
دوسری نشست مغرب تا عشاء منعقد ہوئی اور عشاء کی نماز تاخیر سے ادا کی گئی، اس سیمینار کا مرکزی موضوع بیع وفا اور مال مرہون سے استفادہ تھا، اس سلسلہ میں چھ سوالات کئے گئے تھے، جو مقالات آئے تھے ہر سوال نمبر کے لحاظ سے ایک ایک فاضل نے فارسی زبان میں جوابات کی تلخیص پیش کی، اس کے بعد مرحلہ تھا تمام مباحث کو سامنے رکھتے ہوئے عرض مسئلہ پیش کرنے کا، جس میںکسی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے، پھر اس پر بحث کی جاتی ہے؛ چنانچہ ایک فاضل نے فارسی میں اور ایک نے پشتو زبان میں عرض مسئلہ پیش کیا، اس کے بعد مختصر مناقشہ ومذاکرہ ہوا، جس میں کچھ سوالات اُٹھائے گئے، حاضرین کے اصرار پر اس موضوع سے متعلق میرے مقالہ کا خلاصہ مولانا امتیاز احمد قاسمی رفیق شعبۂ علمی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے پڑھ کر سنایا اور اس کے بعد اس حقیر نے مختصر گفتگو کی، جس کا حاصل یہ تھا کہ احکام شریعت میں دونوں باتوں کی اہمیت ہوتی ہے، ایک: کسی عمل کی شکل وہیئت، دوسرے: اس کے مقاصد ، خریدوفروخت کی یہ صورت کہ کوئی چیز اس شرط پر بیچی جائے کہ خریدار اس سے فائدہ اُٹھائے اور جب بیچنے والے کو اتنی رقم مہیا ہو جائے تو اسے واپس خرید کر لیا جائے، شکل کے اعتبار سے خریدوفروخت کی ایک صورت ہے،اس لحاظ سے اسے جائز ہونا چاہئے؛ لیکن مقصد اس کا یہ ہے کہ چوں کہ قرض دے کر اس پر نفع لینا سود ہے؛ اس لئے اس کو بہ ظاہر تجارت کی شکل دی جائے، پیسہ دینے والا اس شئی سے فائدہ اُٹھالے اور پیسہ لینے والابعد میں پورے پیسے واپس کر کے سامان واپس لے لے، انہین دو نوعیتوں کی وجہ سے حکم متعین کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے؛ البتہ معاملات میں زیادہ اہمیت مقاصد کی ہوتی ہے، آپ اس کی روشنی میں غور فرما سکتے ہیں، بہر حال اخیر میں تجویز کمیٹی کا اعلان ہوا اور دعاء پر مجلس ختم ہوئی۔
اگلے دن ۲۷؍جون کو صبح تا نماز ظہر سیمینار کی آخری نشست ہوئی، جس میں کابل اور افغانستان کے چار زون کے نمائندوں نے اپنے اپنے علاقہ میں دارالافتاء کے کاموں کی رپورٹ پیش کی، یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہر علاقہ میں علماء اہم فقہی مسائل کے بارے میں اجتماعی طور پر غورخوض کرتے ہیں، کاش! ہندوستان میں بھی اس کی کوئی صورت پیدا ہو، پھر چند حضرات نے تأثرات پیش کیے، اس کے بعد تجویز کمیٹی کی مرتب کردہ تجاویز پیش کی گئیں، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ اور ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند نے اس مسئلہ پر جو فیصلے کئے ہیں، بالآخر اسی کے قریب تمام لوگوں کا اتفاق ہوا، سیمینار کا فیصلہ چھ تجاویز اور ہدایات پر مشتمل ہے، جس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ مالِ مرہون سے نفع اُٹھانا جائز نہیں ہے، نہ ہیوی ڈپازٹ اور معمولی کرایہ جائز ہے؛ البتہ فقہاء نے بیع وفا کے درست ہونے کے لئے جوشرائط مقرر کی ہیں، ان کی رعایت کے ساتھ بیع وفا جائز ہے، یہ آخر الذکر نکتہ دوسری اکیڈمیوں کے فیصلے سے کسی قدر مختلف ہے اور وہاں کے عرف ورواج کے پس منظر میں ہے، اخیر میں حاضرین کے اصرار پر پھر اس حقیر نے کچھ گزارشات پیش کیں، جن میں اہم بات یہ تھی کہ یہ ملک مسلسل مغربی طاقتوں کی یلغار کا ہدف رہا ہے، اور مغربی استعمار کا یہ مزاج ہے کہ وہ جہاں کہیں پہنچتے ہیں ،اپنی فکر کو بھی نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور نوجوان نسل بالخصوص جدید تعلیم یافتہ گروہ اس سے متأثر ہو جاتا ہے؛ اس لئے اس کی طرف بھی توجہ کرنا ضروری ہے، میرے خطاب سے پہلے کابل کے ایک بزرگ عالم دین اور محدث مولانا عبدالحمید حماسی کا بھی خطاب ہوا اور انہوں نے افغانستان اور کابل کے بارے میں ڈھیر ساری قیمتی معلومات فراہم کیں، ماشاء اللہ ان کا پورا خاندان علمی خانوادہ ہے، اور سبھوں کو حدیث سے عشق رہا ہے، وہ مجھ سے افغانستان کے حالات بیان کرتے ہوئے سسکیاں لے کر رونے لگے، انہوں نے بتایا کہ کتنے ہی شاگرد ہیں جن کو ہم شعبان میں رخصت کرتے ہیں، اور جب شوال میں ان کے بارے میں معلوم کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ شہید کر دئے گئے، پھر مغلوب الجذبات ہو کر کہنے لگے کہ ان شاء اللہ شہیدوں کا یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، اور افغانستان ایک معیاری اور مثالی اسلامی مملکت بن کر رہے گا، بہر حال اخیر میں مولانا ابراہیم صاحب مہتمم دارالعلوم نعمانیہ نے ہدیۂ تشکر پیش کیا اور اس حقیر کی دعاء پر سیمینار کا اختتام عمل میں آیا، اس سیمینار میں افغانستان کے تمام علاقوں سے ۱۱۵؍ نمایاں علمی شخصیتیں اور خاص کر ارباب افتاء شریک ہوئے اور تیس مقالات پیش ہوئے، جو نو سو صفحات پر مشتمل ہیں۔(جاری)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.