ماب لنچنگ کے خلاف بل تو بن گیا پر کیا یہ منظور بھی ہوگا؟

شکیل رشید
ماب لنچنگ پر قابوپانے کے لئے ایک قدم تو اٹھا ہے ۔
ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کے لئے یوپی اسٹیٹ لاء کمیشن کے چیئرمین جسٹس (مستعفی) اے این متّل نے ایک 128 صفحاتی مسودہ ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سونپ دیا ہے ۔ ماب لنچنگ بل 2019 میں تین باتوں پر زور دیا گیا ہے ۰۰۰
ےشدید زخمی ہونے پر مجرموں کو دس برس کی سزائے قید اور موت پر سزائے عمر قید۔
ےہجومی تشدد کے قصورواروں ، منصوبہ سازوں اور اس قبیح عمل کے لئے اُکسانے والوں پر سخت ترین جرمانے ۔
ے اور فرائض سے کوتاہی برتنے والے پولس افسران اور ضلع انتظامیہ کے اہلکاران کے خلاف مجرمانہ کارروائی ۔
بِل تاخیر سے آیا پر شکر ہے کہ آیا۔ سپریم کورٹ میں جب ہجومی تشدد کا معاملہ گیا تھا تب اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی قیادت والی بینچ نے ہجومی تشدد کو ’خوفناک ترین موبو کریسی‘ قرار دیتے ہوئے مرکزی سرکار کو ماب لنچنگ کے خلاف سخت ترین قانون بنانے کی ہدایت دی تھی۔ بات جولائی 2018 کی ہے ، پر جیسا کہ ہم دیکھتے آرہے ہیں اس وقت کی مودی سرکار نے سپریم کورٹ کی بات شاید ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑادی ، کیونکہ عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی بلکہ حیرت انگیز طور پر ماب لنچنگ کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ سپریم کورٹ نے 45 صفحات پر مشتمل جوہدایات دی تھیں ان میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’ ماب لنچنگ‘ اس ملک میں ’نیونارمل‘ بن سکتا ہے ۔ یعنی اس ملک میں ہجومی تشدد میں لوگوں کو مارنے پیٹنے اور قتل کرنے کے واقعات ’ عین معمول‘ قرار دیئے جاسکتے ہیں ۔ باالفاظ دیگر اس طرح کے واقعات کے بڑھنے سے لوگوں کی توجہ ان کی طرف سے ہٹ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس طرح کے واقعات کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ٹھپ ہوسکتے ہیں ۔ اور ہوا یہی۔ معروف سینئر صحافی ضیاء السلام نے اپنی کتاب ’ لنچ فائلس‘ میں بجا طور پر یہ تحریر کیا ہے کہ ’’دائیں بازو کی بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر مرکز میں حکومت سازی کے لئے اکثریت ملنے کے بعد کے کم وبیش پانچ برسوں کے دوران بے قصوروں کی لنچنگ تازہ معمول (New Normal) بن گیا ہے ۔ وہ قوم ، اخلاق کے ساتھ بہمیت پر جس کا ردّعمل شدید طیش کا تھا ، دوہرائے جارہے واقعات کی عادی بن گئی ہے ، اور ہر نئے قتل پر نکتہ چینی کم سے کم ہوتی جارہی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے کہ یہ ہماری تہذیب میں سرایت ہوچکی ہے ۔‘‘
اور شاید ’ بے حسی‘کا یہی عالم رہتا پر مودی سرکار کی دوسری اننگ کی شروعات میں ہجومی تشدد کے جوواقعات ہوئے ان میں سے تبریز انصاری کے واقعے نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی اور سارے ملک میں ماب لنچنگ کے خلاف شدید ترین مظاہرے شروع ہوگئے ۔ یہ مظاہرے ’ شہری تنظیموں‘ کی طرف سےتھے ، ان میں بڑی تعداد میں برادران ِ وطن بھی شریک تھے ۔ علماء کرام اور مسلم تنظیمیں اور جماعتیں بھی سڑکوں پر اتریں۔ کچھ سخت ترین باتیں بھی ہوئیں ، مثلاً اتراکھنڈ کےمفتی رئیس قاسمی نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہہ گئے کہ ’ ہمارے پاس بھی ہتھیار ہیں‘ اس پر ان کے خلاف پولس معاملہ بھی بنا۔ میرٹھ میں احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے خلاف پولس نے یکطرفہ کارروائی بھی کی ۔ پر احتجاج کی ایک جو لہر اٹھی تھی وہ بڑھتی گئی اور برادرانِ وطن کے ساتھ دلتوں نے بالخصوص پرکاش امبیڈکر نے بھی ہجومی تشدد کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی ۔ یہ شرکت اس لئے بھی اہم تھی کہ مسلمانوں ہی کی طرح دلت بھی ’سنگھیوں‘ کے نشانے پر ہیں ۔ مالیگاؤں میں ایک تاریخی احتجاج ہوا ۔۔۔ سوشل میڈیا پر ’نمٹنے‘ کی باتیں بھی کہی گئیں ۔ ایڈوکیٹ محمود پراچہ مسلم نوجوانوں کو اسلحہ رکھنے کے لئے لائسنس دلوانے کے لئے سرگرم ہوگئے ، انہوں نے باقاعدہ پریس کانفرنس لے کر یہ بیان دے دیا کہ ’ ماب لنچنگ سے نمٹنے کے لئے مسلمان اپنے پاس ہتھیار رکھیں ‘۔۔۔ گویا یہ کہ تبریز انصاری کی لنچنگ کے بعد سارے ملک میں ’ ہجومی تشدد‘ اور ’ ہجومی دہشت گردوں‘ کے خلاف ایک طرح کا ماحول بنا ۔ امریکہ کی وزارت خارجہ تک نے اپنی سالانہ رپورٹ میں ماب لنچنگ اور گئورکھشکوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ۔ اقوام متحدہ میں بھی ماب لنچنگ کی گونج رہی اور یوروپ کے کئی ملکوں میں اس پرتشویش کا اظہار کیا گیا ۔ اتنے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور عالمی پیمانے پر ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کو لنچنگ کے واقعات پر ’دکھ‘ کا اظہار کرنا اور یہ کہنا پڑا کہ ’’قصورواروں کو جس قدر سخت سے سخت سزا ممکن ہے دی جائے گی ۔ ‘‘
پرمودی کے ’ اظہارِ غم‘ اور سخت سے سخت سزا دینے کے اعلان کے بعد بھی ماب لنچنگ کے واقعات کو روکنے کے لئے کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ پولس ویسے ہی ’ بے حس‘ بنی رہی ۔ آج صورتحال اسقدر ابتر ہیکہ راہ چلتے مسلمانوں کو روک کر ’ جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور زدوکوب کیا جاتا ہے ۔ کئی باریش مسلمانوں کو ’ جے شری رام‘ کا نعرہ نہ لگانے پر ٹرین سے نیچے پھینک دینے کے واقعات سامنے آئے ہیں ۔ ایک بالکل تازہ ترین واقعے میں یوپی کے اناوّ ضلع میں ایک مدرسہ کے کئی بچوں کو اس لئے بری طرح سے مارا پیٹا گیا کہ انہوں نے ’ جے شری رام‘ کا نعرہ لگانے سے انکار کردیا تھا۔ یعنی اب ’ جے شری رام‘ کے نعرے کو ’ لنچنگ‘ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ۔۔۔ ’ سنگھیوں‘ نے اس نعرے کو ’ جنگی‘ شکل دے دی ہے لیکن اس کے پس پشت مقاصد خالص ’ سیاسی‘ ہیں ۔ بی جے پی کی پورے ملک پر حکمرانی کے لئے ’ ماب لنچنگ‘ کا ’ سیاسی کرن ‘ ضروری تھا اور پھر اسے ایک ’تقدس کاہالہ‘ پہنانے کی ضرورت تھی جو ’ جے شری رام‘ نے پوری کردی ۔ ہندوتوا کے فروغ ، آئین ، جمہوریت اور سیکولرزم سے چھٹکارے اور ہندوراشٹر کے قیام کے لئے خوف ودہشت کی جو ایک فضا پورے ملک پر طاری کرنا تھی وہ ماب لنچنگ نے طاری کردی ہے ۔۔۔ چونکہ یہ قتل وغارتگری ، فسادات اور ہجومی تشدد حکومت ہتھیانے کے ہتھکنڈے ہیں شاید اسی لئے سپریم کورٹ کی ہدایات پر غوروفکر کی مرکزی سرکار نے کوئی ضرورت نہیں محسوس کی ورنہ یوپی لاء کمیشن سے پہلے مرکزی لاء کمیشن کو ماب لنچنگ کے خلاف ڈرافٹ بِل پیش کردینا چاہئے تھا اور جس طرح سے بہت سارے بِل مودی سرکار نے منظور کروائے ہیں اس بِل کو بھی منظور ہوجانا چاہیئے تھا ۔۔۔ مثلاً جیسے کہ طلاقِ ثلاثہ پر پابندی کا بِل ! پر ماب لنچنگ کی وارداتوں سے مودی سرکار کا کچھ بگڑ نہیں رہا تھا بلکہ فائدہ ہی تھا، اسی لئے اس نے بِل لانے کی کوشش نہیں کی ۔
بی ایس پی رہنما مایاوتی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’ہجومی تشدد ایک بھیانک روگ ہے اور یہ روگ بی جے پی کی سرکاروں والی ریاستوں میں قانون کا راج قائم نہ کرنے کے سبب پھیل رہا ہے ۔‘‘ اگر 2014 سے لے کر اب تک کے ماب لنچنگ کے واقعات پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں یہ واقعات زیادہ ہوئے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ ’ ہجومی دہشت گردوں‘ کا بے خوف ہونا ہے ، بے خوف اس معنی میں کہ انہیں یہ یقین ہے کہ بی جے پی کی حکومت میں ان کے خلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں ہے ۔ ہوا بھی ایسا ہی ہے : ’ ہجومی دہشت گردوں‘ کی اکثریت تو قانون کے چنگل سے محفوظ رہی ہے پر جو ان کے ہاتھوں مارے گئے وہ قانون کی گرفت میں ہیں ۔۔۔ جان بھی گئی اور مقدمے بھی شروع ہیں ۔۔۔ جھارکھنڈ میں آئے دن ہجومی تشدد کے واقعات ہوتے ہیں ۔ لیکن مودی جھار کھنڈ کا نام لے کر اسے ’ بدنام‘ کرنے سے لوگوں کو منع کرتے ہیں ۔ یوپی میں اب ہجومی تشدد کے واقعات معمول بن چکے ہیں ، ایک اطلاع کے مطابق 2012 سے لے کر آج تک وہاں 50 سے زائد ماب لنچنگ کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں 11 جانیں گئی ہیں ۔
بہرحال مرکزی لاء کمیشن نہ سہی یوپی لاء کمیشن نے ماب لنچنگ کے خلاف ایک قدم اٹھالیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو نہ سہی یوپی کے وزیراعلیٰ کوہی سہی ،ڈرافٹ بل پیش کردیا گیا ہے ۔ اور اس تجویز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ اس کو جس قدر جلد ممکن ہو منظور کرلیا جائے ۔ اس ڈرافٹ بِل میں ’ ہجومی تشدد‘ کے قصورواروں کے خلاف سخت ترین سزائیں تجویز کی گئی ہیں اور اہم بات یہ ہیکہ پولس اور سرکاری افسران بھی’فرائض سے غفلت‘ کی بناء پر سزاؤں کے مستحق قرار دیئے گئے ہیں ۔۔۔ یقیناً اگر یہ بِل قانون بنا اور اس پر واقعی عمل ہوا تو ماب لنچنگ پر اور ’ہجومی دہشت گردوں‘ پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ اس بِل کا خیرمقدم کیا جانا چاہیئے۔۔۔ لیکن ابھی بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لاء کمیشن نے جو مسودہ پیش کیا ہے وہ ابھی ڈرافٹ بِل ہی ہے ، اسے قانون نہ سمجھا جائے یعنی اس پر اس وقت تک عملدرآمد نہیں ہوسکتا جب تک اسے منظوری نہ مل جائے ۔ کیا وزیراعلیٰ یوگی اس بِل کو قانون بنوائیں گے ؟ یہ وہی یوگی ہیں جنہوں نے کبھی کہا تھا کہ محمد اخلاق کے خلاف معاملہ درج کیا جانا چاہیئے ، یہ وہی یوگی ہیں جو اپنے خلاف اشتعال انگیزی کے سارے مقدمات رکواچکے ہیں ۔ پر امید پہ دنیاقائم ہے ۔۔۔ امید یہی رکھنی چاہیئے کہ اس بِل کا حشر فرقہ وارانہ فسادات مخالف بِل جیسا نہیں ہوگا ، جس پر کانگریس سیاست کرتی رہی اور پھر جسے اٹھاکر کچرا کے ڈبے میں ڈال دیا گیا ! امید ہیکہ یہ بِل ،قانون بنے گا اور سارے ملک کی ریاستیں اس قانون کو اپنائیں گی۔ جب تک یہ بِل قانون نہ بنے شہری تنظیمو ں، مسلمانوں، برادرانِ وطن اور دلتوں وپچھڑوں کا ماب لنچنگ کے خلاف احتجاج شروع رہے ۔

Comments are closed.