Baseerat Online News Portal

حکیم الاسلام قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ

 

عارف باللہ ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ

سابق مھتمم دارالعلوم دیوبند

 

بیسویں صدی میں ہندوستان کے افق پر جو مسلم شخصیتیں نمودار ہوئیں ،ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب ؒ کا نام سرفہرست ہے ۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف حصہ میں تو عظیم شخصیات کی تعداد خاصی تھی ، لیکن آخری نصف صدی میں عظیم مسلم شخصیتوں کو انگلیوں پر ہی گنا جاسکتا ہے ۔ قاری طیب صاحب ؒ کی خاص بات یہ تھی کہ آپ بیک وقت کئی صلاحیتوں کے مالک تھے ، مثلا آ پ ایک طرف زبردست عالم دین تھے ، تو دوسری طرف محقق بھی تھے ، ساتھ ہی ایک اہم خطیب بھی اور ایک بلند پایہ مصنف بھی ، یہی نہیں بلکہ آپ کے اندر انتظام و انصرام کی بھی بڑی صلاحیت تھی ۔

 

کون نہیں جانتا کہ قاری طیب ؒ نے پچاس سال تک ایشیا کے سب سے عظیم دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے نظم و نسق کو سنبھا لا اور جس خوش اسلوبی کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کے مینجمنٹ ( نظام) کو سنبھالا اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ حکیم الاسلام کے دور اہتمام میں دارالعلوم دیوبند کو اور زیادہ ترقی کر نے کا موقع ملا ۔

 

جن لوگوں نے حضرت مولانا قاری طیب ؒ کی تقریریں سنی ہیں ،وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاوہ ہم نے کبھی اتنی پرمغز اور معنویت کی حامل تقریریں نہیں سنیں ، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت قاری طیب کا جو انداز بیان تھا ، وہ اتنا سادہ ، سہل اور دلکش تھا کہ مشکل سے مشکل بات بھی سمجھ میں آجاتی تھی۔ مولانا محمد تقی عثمانی نے حضرت قاری طیب کے خطبات کا نقشہ ان الفاظ کھینچا ہے ۔

 

’’جہاں تک وعظ و خطابت کاتعلق ہے ، اس میں تو اللہ تعالی نے حضرت کو ایسا عجیب و غریب ملکہ عطا فرمایا تھا کہ اس کی نظیر مشکل سے ملے گی ، بظاہر تقریر کی عوامی مقبولیت کے جو اسباب آج کل ہوا کرتے ہیں ، حضرت قاری صاحب کے وعظ میں وہ سب قریباً مفقود تھے ، نہ جوش و خروش ، نہ فقرے چست کرنے کا انداز ، نہ پرتکلف لسان ، نہ لہجہ اور ترنم ، نہ خطیبانہ ادائیں ، لیکن اس کے باوجود وعظ اس قدر مؤثر ، دلچسپ اور مسحور کن ہوتا تھا کہ اس سے عوام اور اہل علم دونوں یکساں طورپر محظوظ ہوتے تھے ، مضامین اونچے درجے کے عالمانہ اور عارفانہ ، لیکن انداز بیان اتنا سہل کہ سنگلاخ مباحث بھی پانی ہوکر رہ جاتے ، جوش و خروش نام کو نہ تھا ، لیکن الفاظ و معانی کی ایک نہر سبیل تھی جو یکساں روانی کے ساتھ بہتی اور قلب و دماغ کو نہال کردیتی تھی ،ایسا معلوم ہوتا کہ منہ سے ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے موتی جھڑ رہے ہیں ،ان کی تقریر میں سمندر کی طغیانی کے بجائے ایک باوقار دریا کا ٹھہراؤ تھا جو انسان کو زیر و زبر کرنے کی بجائے دھیر ے دھیر ے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا تھا ‘‘(نقوش رفتگاں)

 

حکیم الاسلام قاری طیب ؒ صرف ایک خطیب ہی نہیں تھے ، بلکہ اللہ رب العزت نے انہیں تحریر کی بھی صلاحیت دی تھی ۔

 

وہ مشکل مضامین کو بہت آسانی سے لکھنے کاملکہ رکھتے تھے ۔ قاری طیب صاحب کی مضمون نویسی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں ہی ہوگیا تھا ،انہوں نے ’’ القاسم ‘‘ کے صفحات میں جگہ بنائی ، شاندار مضامین لکھے اور بحیثیت قلم کار مقبولیت حاصل کی ۔ قاری طیب کی تحریر کی خوبیوں پر مولانا یوسف لدھیانوی نے بجا طور پر روشنی ڈالی ہے ، لکھتے ہیں ’’ حضرت موصوف کو حسین و شیریں الفاظ میں مافی الضمیر ادا کرنے کا خاص ملکہ تھا ،دقیق ترین مسائل کو بہت ہی آسان عبارت میں ادا فرماتے تھے اور ایسے زولیدہ و پیچیدہ مباحث جن میں برسوں بھٹکتے ہیں اور انہیں ان کا کوئی سرا نہیں ملتا ، حضرت کا قلم حقائق رقم کر کے ایسے مباحث کو بڑی سہولت و سلاست سے حل کردیتا تھا اور ان کی تحریر پڑھ کر قاری محسوس کرتے کہ اس موضوع پر ان کے ذہن میں کوئی الجھن باقی نہیں رہی ۔انہوں نے سیرت طیبہ سے لے کر مسئلہ تقدیر جیسے نازک مسئلہ پر قلم اٹھا یا مگر ان کا خاص معیاری اسلوب ہر جگہ قائم رہا ۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ محض ذہن کی صناعی اور الفاظ کی مینا کاری نہیں بلکہ یہ وہبی علوم ہیں اور ان میں قاسمی روح جھلکتی ہے ‘‘

کیا۔

(ماخوذ از: مضمون یوسف رامپوری Daleel p.k)

 

مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب فرماتے ہیں:

 

"حضرت قاری صاحب کے ساتھ میری عقیدت و محبت کی تیسری اور سب سے بڑی وجہ ان کا علمی مقام اور متکلمانہ شان ہے۔ وہ علم کا پہاڑ اور معلومات کا سمندر تو تھے ہی، مگر اس علم کے اظہار اور ابلاغ کے لیے ان کا انداز و اسلوب ایسا حکیمانہ اور فطری تھا کہ ان کو سننے اور پڑھنے والا افادہ اور استفادہ کے اس سفر میں خود کو ان کے قدم بہ قدم چلتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ میں ایک طالب علم کے طور پر دیوبندی مکتب فکر میں تین بزرگوں کو سب سے بڑا متکلم سمجھتا ہوں۔ (۱) حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ، (۲) حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ، (۳) حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ، مگر اس ترتیب کے ساتھ کہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ اہل علم کی اوپر کی سطح کے لیے متکلم تھے۔ اس سے نچلے درجہ کے اہل علم کے لیے بھی ان سے استفادہ آسان کام نہیں تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے علوم قاسمی کی قدرے تسہیل کر کے اس سے عام اہل کو استفادہ کا موقع فراہم کیا جبکہ حضرت مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ نے اس دائرے کو مزید وسعت دی اور عام اہل علم اور طلبہ کے ساتھ جدید پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس میں شامل کرلیا”

(ماخوذ: مضمون ابو عمار زاہد الراشدی

ویب سائٹ: سنی آن لاین

بشکریہ ماہنامہ الشریعہ اپریل ۲۰۱۲)

 

مختصر تعارف مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری محمد طیب رحمہ اللہ

 

ولادت

 

مولانا قاری محمد طیب قاسمی 1315ھ مطابق 1898ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام مظفرالدین ہے۔

 

تعلیم

 

7 سال کی عمر میں دار العلوم میں داخل کیا گیا۔ ممتاز بزرگوں کے عظیم الشان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی۔ دوسال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قرأت وتجوید کے ساتھ حفظ کیا، پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکے عربی کا نصاب شروع کیا، جس سے 1337ھمطابق 1918ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔ دوران تعلیم میں امام المحدثین علامہ انور شاہ کشمیر اور پھر الامام المجدد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے اعلی پیمانے اور مخصوص طریق پرآپ کی تعلیم وتربیت کی، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاہیر علما و اساتذہ سے حاصل ہوئی، علامۃ العصر مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ علم حدیث میں آپ کے خاص استاذ ہیں۔ 1350ھ مطابق 1931ءمیں الامام المجدد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت حاصل ہوئی۔

 

مشہور اساتذہ

 

آپ کے اساتذہ میں علامہ مشہور علمائے دین علامہ انور شاہ کشمیری، عزیزالرحمٰن عثمانی، حبیب الرحمٰن عثمانی، علامیشبیر احمد عثمانی اور مولانا اصغر حسین جیسے جید علما شامل ہیں۔

 

تدریس

 

فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند ہی میں مدرس مقرر ہوئے۔ علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، ذاتی علم و فضل، ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت و وجاہت کے باعث بہت جلد طلبہ کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہو گئی،اوائل 1341ھ مطابق 1924ء میں نائب مہتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا، جس پر اوائل1348ھ مطابق 1928ء تک آپ اپنے والد ماجد مولانا محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحبؒ کی زیر نگرانی ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے، وسط 1348ھ مطابق 1929ء میں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب کے انتقال کے بعد آپ کو مہتمم بنایا گیا۔ سابقہ تجربۂ اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہوچکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دار العلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہو گئی، جس سے دار العلوم کی عظمت و شہرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے۔

 

مناصب

 

1341ھ بمطابق 1923ء میں آپ کو دار العلوم کا نائب مہتمم بنادیا گیا، پھر 1348ھ بمطابق 1930ء میں باقاعدہ طور پر دار العلوم کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ آپ حدیث کی اونچی اونچی کتابیں پڑھاتے تھے۔

 

بیعت و اجازت

 

1339ھ میں آپ محمود الحسن سے بیعت ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد 1350ھ میں مشہور عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی نے آپ کو خلافت سے نوازا۔

 

تصانیف

 

خطابت و تقریرکی طرح تحریر و تصنیف پر بھی قدرت حاصل ہے، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے۔ چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: التشبہ فی الاسلام، مشاہیر امت، کلمات طیبات، اطیب الثمرفی مسئلۃ القضاء والقدر، سائنس اور اسلام، تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام، مسئلۂ زبان اردو ہندوستان میں، دین و سیاست، اسباب عروج و زوال ِ اقوام، اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام، الاجتہاد والتقلید، اصول دعوتِ اسلام، اسلامی مساوات، تفسیر سورۂ فیل، فطری حکومت وغیرہ۔

 

آخری ایام اور وفات

 

آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ملت اسلامیہ کے لیے خدمات انجام دیں۔ 1980ء میں جشن آغاز دار العلوم دیوبند کے بعد حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒکی صحت بہت تیزی سے بدلنے لگی۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آپ اپنی قیام گاہ پر لوگوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ بالآخر یوم اجل آ گیا اور 17جولائی 1983ء مطابق 6شوال 1403ھ بروز اتوار آپ اپنے اعمال حسنہ کی جزاء پانے کے لیے داعئ اجل سے جاملے،اس وقت آپ کے گرد بہت سے جانثار و محبین موجود تھے جو اللہ سبحانہ و تعالی کے نام کی تلقین کر رہے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ دار العلوم دیوبند کے احاطہ میں آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نے پڑھائی۔ ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کے جسد خاکی کو آپ کے جد امجد اور بانئ دارالعلوم دیوبند حجۃالاسلام محمد قاسم النانوتوی کے قبر مبارک کے بالکل قریب دفن کیا گیا ہے۔

 

(ویکیپیڈیا، نیز دار العلوم وقف کی ویب سائٹ)

Comments are closed.