Baseerat Online News Portal

ایشیا کے دل میں چند دن!

(دوسری قسط )

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

نماز ظہر کے بعد میزبانوں نے ہم لوگوں کے لئے ایک تفریحی پروگرام طے کیا تھا؛ چنانچہ پہلے ہم کابل سے کچھ فاصلے پر قرغہ نامی جھیل لے جائے گئے، یہ بڑی خوبصورت اور صاف وشفاف جھیل ہے، جہاں برف کا پگھلا ہوا پانی جمع ہوتا ہے، اس کے چاروں طرف ہرے بھرے درخت اور خوب صورت پھولوں کے پودے ہیں، لوگ اس وسیع وعریض جھیل میں کشتیوں اور بوٹوں کے ذریعہ سیر کرتے ہیں، ہم لوگ تھوڑی دیر یہاں رُک کر اور اس قدرتی نظارہ کا لطف اُٹھا کر آگے بڑھے، یہاں سے دو تین کیلو میٹر کے فاصلے پر پغمان نامی مقام ہے، اس کے چوراہے پر’’ باب آزادی‘‘ بنا ہوا ہے، جو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی یادگار ہے، کہا جاتا ہے کہ امان اللہ خان انگریزوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد اسی راستے سے کابل میں داخل ہوئے تھے، جیسے دہلی کے انڈیا گیٹ پر مجاہدین آزادی کے نام کندہ کئے گئے ہیں، اسی طرح برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کی جنگ میں جو لوگ شہید ہوئے، یہاں ان کے نام کندہ کئے گئے ہیں، سابق صدر افغانستان احمد کرزئی صاحب نے یہاں اپنے دور میں ایک خوبصورت اور وسیع پارک بنایا ہے، اس پارک میں ایک محل بھی تعمیر کیا گیا ہے، جو کافی بلندی پر ہے، اور مختلف ہالوں اور سنگ مرمر کے وسیع صحن پر مشتمل ہے،نیچے دور تک سبزہ زار اور خوبصورت پھولوں اور ہرے بھرے درختوں کا منظر نہایت ہی دل کش ہے، اور چوں کہ یہ پہاڑی پر واقع ہے؛ اس لئے سبک خرام ہواؤں کا قافلہ بھی اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے گزرتا اور آنے والوں کے لئے راحت کا سامان مہیا کرتا ہے،افغانستان اور بعض دیگر وسط ایشیائی ممالک میں اہل فارس کا قدیم تیوہار نوروز منایا جاتا ہے، اور ہر سال باری باری کسی ایک ملک میں نوروز کی مرکزی تقریب رکھی جاتی ہے، چند سال پہلے یہ تقریب افغانستان کے حصہ میں آئی تھی، اس تقریب کے لئے بہت ہی کم وقت میں اس پارک کی تعمیر ہوئی؛ لیکن تقریب کے منعقد ہونے سے پہلے ہی طالبان نے اعلان کر دیا کہ نوروز کی تقریب غیر اسلامی فعل ہے؛ اس لئے وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے، نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تقریب یہاں کے بجائے صدارتی محل میں منعقد ہوئی؛ لیکن اس بہانے یہ خوبصورت تفریح گاہ بن گئی، عصر کی نماز ہم لوگوں نے اسی پارک میں ادا کی۔

ہمارا قافلہ جو ۲۵؍۲۶؍افراد پر مشتمل تھا،یہاں سے کابل کے مرکز دعوت وتبلیغ کی طرف روانہ ہوا،یہ مرکز شہر کے اہم علاقہ میں شارع عام سے متصل اور قصر صدارت کے قریب واقع ہے، مرکز کی چار منزلہ مسجد بہت ہی وسیع وعریض ہے اور اس میں ہزاروں افراد کے قیام کی گنجائش ہے، یہاں بہت سارے افراد سے ملاقات ہوئی، ان میں ایک تعداد اردو سمجھنے والوں کی بھی تھی، جماعت کے حلقہ میں اس وقت جو اختلاف چل رہا ہے، اس کا اثر افغانستان میں بھی ہے؛ لیکن کابل کا یہ مرکز پاکستان کے مرکز رائے ونڈ کے تحت کام کررہا ہے۔

آج احباب نے عشائیہ کا انتظام مرکز کے قریب ’’صلح ریسٹورینٹ‘‘ میں رکھا تھا، یہ ریسٹورنٹ گویا ایک پارک کی شکل میں تھا، جس میں ہرے بھرے پودے اور سبزہ زار بھی تھے اور جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے چھپر کے کیبن بھی بنے ہوئے تھے، میز اور کرسیوں کا بھی نظم تھا، اور افغانی ثقافت کے مطابق فرش، گاؤ تکیہ اور دسترخوان کا بھی ، افغانستان میں پکوان عمدہ اور لذیذ ہوتے ہیں؛ لیکن کم سے کم تیل اور مسالہ کا استعمال ہوتا ہے؛ اس لئے طبیعت پر کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا، افغانی پلاؤ میں مغزیات اور کشمش کا بہت استعمال کیا جاتا ہے، جو اس کی لذت کو دوچند کرتا ہے، روٹیاں بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں ،اور کباب بھی انواع واقسام کے بنتے ہیں، یہاں مختلف قسم کے کباب اور نان سے دسترخوان سجایا گیا، مجھ جیسے لوگوں کو افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں ایسے کھانے کا تصور نہیں تھا؛ لیکن جب کسی چیز کا اعلیٰ ذوق ہوتا ہے تو وہ ہر حال میں قائم رہتا ہے، یہ بات یہاں دیکھنے کو ملی۔

۲۸؍جون کو جمعہ کا دن تھا، کابل کے احباب میں ایک مخلص دوست مولانا گل محمد نورستانی ہیں، انہوں نے اپنے ادارہ مدرسہ فاروقیہ فتحیہ کی بنیاد رکھنے کے لئے دعوت دی، یہ شہر کے کنارے کی جگہ ہے، اور پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، جگہ تو ہموار اور وسیع ہے؛ لیکن فی الحال کوئی عمارت نہیں ہے؛ بلکہ ایک خیمہ ڈال دیا گیا ہے، اسی میں محلہ کے بچے آتے ہیں، اور ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر مدرسہ صفہ کی یاد آگئی، جس میں صحابہ کی رہائش محض ایک چبوترے پر تھی، اور دارالعلوم دیوبند کا بھی خیال آیا، جسے انار کے درخت کے نیچے قائم کیا گیا تھا، محلے کے اہم افراد اور مقامی لیڈران بھی آگئے، جن میں زمین وقف کرنے والے حضرات بھی شامل تھے، موقع کی مناسبت سے مدرسہ کی اہمیت پر مختصر گفتگو کرتے ہوئے دعاء کی گئی، کابل کا موسم کچھ ایسا ہے کہ حالاں کہ دھوپ تھی؛ لیکن خیمہ کے اندر گرمی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔

کابل کی ایک نو تعمیر شدہ بڑی اور خوبصورت مسجد’’ جامع حاجی عبدالرحمن ‘‘ہے، جس کے چاروں طرف ہرے بھرے چمن بنے ہوئے ہیں، یہیں جمعہ کی نماز ادا کی گئی، جمعہ کے خطیب مولانا محمد یونس سادات کے ہم درس تھے، جو اس وقت کابل کے محکمۂ اوقاف کے ذمہ دار ہیں، اسی جگہ’’ کندوز ریسٹورینٹ‘‘ میں ظہرانہ تناول کیا گیا، اس کے مالکان تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، اور علماء کے بے حد قدرداں ہیں؛ حالاں کہ ہمارے ساتھ ۱۴؍۱۵؍افرادتھے اور پہلے سے ان کو اطلاع نہیں کی گئی تھی؛ لیکن انہوں نے بہت عمدہ ضیافت کی اور پیسہ لینے سے بھی انکار کر دیا،فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔

کابل کی تاریخی عمارتوں میں ایک قصر’’ دارالامان ‘‘ہے، یہ افغانیوں کے بابائے قوم امیر امان اللہ خان کا محل ہے، جنگ میں یہ عمارت تباہ وبرباد ہوگئی تھی، اب پھر اس کی مرمت کرائی جا رہی ہے، اس کے پیچھے افغانستان کی نو تعمیر شدہ پارلیامنٹ ہے، جس کو حکومت ہند نے تعمیر کرایا ہے، اس کا ڈیزائن افغان طرز تعمیر کے مطابق ہے، عمارت کے اوپر ایک خوبصورت سرخی مائل سنہرے رنگ کا چمکتا ہوا بڑا سا گنبد ہے، اسی راستہ میں گلبدین حکمت یار کا مکان ہے، جو جنگ افغانستان کے مشہور مجاہدین میں سے ہیں، اور اس وقت حکومت میں شامل ہیں،یہ جگہ انہیں حکومت کی طرف سے دی گئی ہے، ان کے علاوہ جنگ روس کے دوسرے اہم مجاہدین کو بھی بڑی بڑی جگہیں دی گئی ہیں؛ چنانچہ پغمان کے قریب ایک اور فوجی کمانڈر جناب عبد رسول رب سیاف کا مکان بھی ایک وسیع قطعۂ زمین میں واقع ہے، وہاں سے بھی ہم لوگوں کا گذر ہوا، یہ اچھی بات ہے کہ حکومت نے سابق مجاہدین کی قدردانی کی ہے۔

یہاں سے قریب ایک مقبرہ ہے، مشہور ہے کہ، لیث بن قیس بن عباس ، یعنی عم رسول حضرت عباس کے پوتے کا مقبرہ ہے ؛لیکن تاریخ ورجال کی کتابوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی؛ کیوں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحب زادے کے تذکرے میں لیث نام کے کسی صاحب زادے کا ذکر نہیں ہے، شاید حجاز سے آنے والے قافلے میں لیث نامی شخص رہے ہوں اور ان کے والد کا نام بھی عباس ہو، اس سے لوگوں کو اشتباہ ہو گیا ہوواللہ اعلم۔

یہاں ایک مسجد ہے جو ’’مسجد شاہ دوشمشیر‘‘ سے معروف ہے، مسجد پر لگے ہوئے کتبہ کے مطابق حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بنیاد رکھی تھی، یہ فتح مکہ کے موقع سے مسلمان ہوئے تھے، انہوں نے سجستان اور کابل کا علاقہ فتح کیا تھا، اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو سجستان کا والی بنایا تھا، ان کی وفات ۵۰ھ یا ۵۱ھ میں بصرہ میں ہوئی، اس مسجد کو ’’ مسجد شاہِ دو شمشیر‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جو فوج کابل کو فتح کرنے کے لئے آئی تھی، اس میں ایک مجاہد بیک وقت دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتے تھے، کچھ ہی فاصلے پر دریائے کابل ہے، جس کی دونوں طرف پتھر کی دیواریں بنی ہوئی ہیں، اس کا عرض وسیع ہے، ابھی تو پانی کی مقدار کم تھی؛ لیکن بارش اور برف کے موسم میں پورا دریا لبریز ہو جاتا ہے، اس کے ساحل پر ایک وسیع اور قدیم مسجد ہے، جو ’’ پُل خِشتی مسجد‘‘ کہلاتی ہے، لوگ بتاتے ہیں کہ اس مسجد میں چھ ماہ خواجہ حسن بصریؒ کا قیام ہوا تھا، اوریہیں ان کے درس کی محفلیں لگتی تھیں، یہیں سے کچھ آگے ’’مسجد تخت سلیمان‘‘ ہے، اس جگہ کو لوگ’’ خواب گاہِ سلیمان‘‘ کہتے ہیں، لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ حضرت سلیمانؑ اس جگہ قیلولہ کیا کرتے تھے، مسجد پُل خِشتی کے باہر بہت ہی مشغول بازار ہے، جس میں برصغیر کے قدیم بازاروں کی طرح چھوٹی چھوٹی فٹ پاتھ کی دکانیں ہیں اور شور وہنگامہ برپا رہتا ہے، یہ مسجد جنگ کے دوران کافی متأثر ہو گئی تھی، اس کا فرش اور صحن افغانستان کے سفید اور ٹھنڈے سنگ مرمر سے تیار کیا گیا ہے۔

مسجد پُل خِشتی سے ہم لوگ ائیرپورٹ کی طرف اور وہاں سے ہرات کے لئے روانہ ہوئے، اس سفر میں مولانا امتیاز احمد قاسمی صاحب کے علاوہ دارالعلوم ہرات کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ وثیق احمد صاحب بھی شامل تھے، یہ ایک پختہ کار مقبول مدرس اور باصلاحیت مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ متواضع اور ملنسار شخصیت کے حامل ہیں، جوفارسی اور پشتو کے علاوہ اردو بھی اچھی خاصی جانتے ہیں، ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم لوگ ہرات پہنچے، یہاں دارالعلوم ہرات کے ناظم مفتی سروَر صاحب، مولانا عبدالخالق صاحب (جو طالبان کے دور حکومت میں وزیر اوقاف تھے) نیز دارالعلوم کے اساتذہ کے بہ شمول تقریباََ پندرہ بیس افراد ائیرپورٹ پر موجود تھے، ہم لوگ ائیرپورٹ سے سیدھے دارالعلوم پہنچے، یہاں اساتذہ، طلبہ اور منتظمین نے بڑی محبت کے ساتھ استقبال کیا، مولانا عبدالشکور (فاضل دارالعلوم زاہدان) کو ہم لوگوں کی ضیافت پر مامور کیا گیا تھا، انہوں نے بڑی محبت کے ساتھ ایک ایک ضرورت کا خیال رکھا، مولانا عبدالخالق صاحب کافی معمر ہیں؛ لیکن واقعی مرد مجاہد ہیں، وہ عوام وخواص کے درمیان بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں، ان کا وطن ہرات سے قریب فراہ نامی جگہ میں ہے۔

اگلے دن ۲۹؍جون کو دارالعلوم میں دو پروگرام تھے، ایک تو بخاری کا افتتاح کرنا تھا، یہ سعادت اس حقیر کے ذمہ تھی، اساتذہ وطلبہ کے اصرار پر اجازت حدیث بھی دی گئی، شیخ الحدیث مولانا عبداللہ وثیق صاحب نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا، یہاں دورۂ حدیث کے ایک طالب علم حافظ قمر الدین سے ملاقات ہوئی، جو قرآن مجید کے ساتھ ساتھ بخاری شریف کے بھی حافظ ہیں، دارالعلوم میں آج دوسرا پروگرام بعد نماز ظہر دارالعلوم کے وسیع ہال میں تھا، اس میں ہرات کے مختلف مدارس کے اونچے اساتذہ، شہر کے اہم علماء اور یونیورسٹیوں کے بعض اساتذہ مدعو تھے، میزبان کی طرف سے استقبالیہ اور اس حقیر کے لئے کلمات سپاس پیش کئے گئے، پھر ہرات یونیورسیٹی کے تحت شیخ عبدالرؤف مخلص ازہری نے افغانستان اور ہرات کی تاریخ اور مسلمانوں کے موجودہ مسائل پر عربی زبان میں اپنا مقالہ پیش کیا، ان کا مقالہ خاصا طویل تھا، اس کے بعد اس حقیر کا خطاب ہوا، راقم نے اپنے خطاب میں اعتدال، اسلام کا دفاع اور مغرب کی طرف سے اسلام کے خلاف ہونے والی فکری یلغار پر خصوصی توجہ دلائی اور عرض کیا کہ آج کا اصل جہاد یہی ہے کہ دین کی فکری سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔

آج کا دن اس سفر کا بہت ہی اہم دن تھا، جس میں کئی یادگاروں کو جانے اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کا موقع ملا،سب سے پہلے ہم لوگ امام فخر الدین رازیؒ’’ صاحب مفاتیح الغیب ‘‘ کی قبر پر گئے، قبر کی زیارت کی اور فاتحہ پڑھا، یہاں ایک مدرسہ بھی ہے،وہاں سے قریب ملا حسین واعظ کاشفی کی قبر پر حاضری کا موقع ملا،’’ تفسیر حسینی ‘‘کے نام سے فارسی زبان میں ان کی تفسیر ہے، جس میں اسرائیلی اور موضوع روایتیں بھی اچھی خاصی ہیں، ان کو اہل سنت بھی اپنا بزرگ مانتے ہیں اور شیعہ بھی، شیعہ حضرات اہل بیت کے بارے میں ان کے اشعار محرم کے موقع پر پڑھتے ہیں، اس کے بعد مشہور شاعر اور نعت گو مولانا عبدالرحمن جامیؒ کے مرقد پر حاضری ہوئی، مولانا جامیؒ کی قبر کے ایک طرف ان کے استاذ علامہ کاشغری ؒاور دوسری طرف ان کے تلمیذ رشید علامہ عبد الغفور لاری کی قبریں ہیں، یہاں سے پھر ہم لوگ آگے بڑھے، ایک اور بزرگ کی قبر پر لے جایا گیا، ان کا نام خواجہ یحیٰ عمار سجستانیؒ ہے اور یہ خواجہ غلطان کے نام سے مشہور ہیں، ان کی مزار کے پاس ایک پتھر رکھا ہوا ہے، کہا جاتا ہے کہ جو اس پر سر رکھتا ہے، وہ کروٹ بدلتے ہوئے چھ سات قدم تک جاتا ہے، ہم لوگوں کے سامنے بھی بعض لوگوں نے پتھر پر سر رکھا اور وہ اسی طرح الٹتے پلٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر جاکر رُکے، معلوم نہیں یہ کرتب ہے یا اس میں کچھ حقیقت ہے، یا کسی اَن دیکھی مخلوق کا فعل اس میں شامل ہے؟

یہاں سے آگے ہم لوگ شیخ ابو الولید آزادانی کے مزار پر پہنچے، یہ امام بخاریؒ کے استاذ اور امام احمد بن حنبلؒ کے تلمیذ ہیں، بخاری نے اپنی کتاب میں ان سے ۱۳؍یا ۱۴؍روایتیں لی ہیں، یہاں کچھ دیر تک توقف کیا اور فاتحہ پڑھا، اس کے پیچھے ان عرب شہداء کا مقبرہ ہے، جو روسیوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے، یہاں ایک بزرگ استاذ العلماء حضرت مولانا نور احمد فائز مدظلہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، یہ اس دیار کے بڑے عالم استاذ الاساتذۃ مولانا نصیر الدین غو غشتیؒ کے واحد شاگرد ہیں، جو باحیات ہیں، ان کی عمر ۹۰؍سال سے زیادہ ہے، اور ۶۰؍سال سے تدریس کی خدمت میں مصروف ہیں، فارسی زبان ہی میں بات کرتے ہیں، عربی بھی بہت کم بولتے ہیں، دیکھنے میں بھی بہت معصوم اور نورانی صفت کے ہیں، میری خواہش پر میرے لئے دعاء بھی کی اور پھر مجھ سے بھی اصرار کر کے اپنے لئے دعاء کرائی، یہاں سے نکل کر جس سڑک سے ہم لوگ آگے بڑھے، اس کے چوراہے پر ’’باب قندھار‘‘ کا علاقہ ہے، اس جگہ مجاہدین اور شہداء کی ایک مصوّر یادگار بنائی گئی ہے، بتایا گیا کہ روس نے ایک ہی دن میں بم باری کر کے ۲۴؍ ہزار افراد کو شہید کر دیا تھا، یہ اسی کی یادگار ہے، آگے بڑھتے ہوئے ایک سڑک ملی، جس کا نام’’ شارع ملا علی قاریؒ‘‘ ہے، شارح مشکوٰۃ ملا علی قاریؒ کا تعلق ہرات ہی سے تھا، یہ سڑک ان ہی کے نام سے موسوم ہے۔

پھر دارالعلوم ہرات آکر اور کچھ دیر آرام کر کے ہم لوگ شیخ عبداللہ انصاریؒ کے مزار پر گئے، اس مزار کو سب سے بڑھ کر لوگوں کا مرجع پایا، ان کو’’ پیر ہرات‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے مزار کے قریب ہی مشہور افغانی حکمراں امیر دوست محمد خان مرحوم کی قبر بھی ہے، یہاں فاتحہ پڑھنے کے بعد ہم لوگ ایک قومی یادگار پر لے جائے گئے، جو درختوں سے ڈھکی ہوئی بلند پہاڑیوں پر بنائی گئی ہے، یہ بڑی خوبصورت جگہ ہے، جو ایک تفریحی مرکز بن گئی ہے، جس سے پورا شہرِ ہرات نظر آتا ہے، اس جگہ روس کی شکست کے بعد ایک یادگار تعمیر کی گئی ہے، جس کو’’خانۂ جہاد‘‘ کا نام دیا گیا ہے، ہم لوگوں نے یہیں عصر کی نماز بھی ادا کی، اس پہاڑی سے اترنے کے بعد کچھ ہی فاصلے پر ہندوستانی سفارت خانہ ہے، جس پر ترنگا جھنڈا لہرا رہا ہے، اپنے ملک سے باہر اپنا جھنڈا دیکھ کر بڑی خوشی محسوس ہوئی، ہندوستان نے وہاں بہت سارا ترقیاتی اور فلاحی کام کرایا ہے، پارلیامنٹ کے علاوہ سڑکوں اور ہاسپیٹلوں کی تعمیر وغیرہ، اسی طرح معلوم ہوا کہ چار سو بسیں افغانستان کو ہندوستان کی طرف سے تحفہ میں دی گئی ہیں، ہندوستانی آٹو بھی وہاں مقبول ہے؛ حالاں کہ پاکستان اور خود افغانستان کی بنائی ہوئی تین پہیوں کی گاڑیاں بھی موجود ہیں؛ لیکن ہندوستانی آٹو زیادہ مقبول ہے، اور ہندوستان کے سلوک کی وجہ سے عمومی طور پر لوگ ہندوستان کے احسان مند ہیں، طالبان کو عام طور پر میڈیا میں ہندوستان مخالف باور کرایا جاتا ہے؛ لیکن وہاں لوگوں نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہماری لڑائی صرف امریکہ سے ہے، نہ کسی اور ملک سے ہے اور نہ کسی مذہب سے۔

ہندوستانی سفارت خانہ سے گزرتے ہوئے کچھ آگے بڑھے تو ایک میوزیم نظر آیا، ہماری خواہش پر مفتی سروَر صاحب اور ان کے رفقاء ہمیں یہاں بھی لے گئے، جانے کے بعد احساس ہوا کہ اگر اس میوزیم میں نہ آئے ہوتے تو ایک اہم چیز چھوٹ جاتی، یہ جہاد افغانستان کا میوزیم ہے، مجاہدین نے روسیوں کے چھوٹے بڑے بہت سے ہتھیار چھین لئے تھے، یہاں ان کو یادگار کے طور پر رکھا گیا ہے، جس میں پستول سے لے کر فوجی ہیلی کاپٹر تک سب کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا ہے، میوزیم کی اندرونی عمارت میں مجسموں کے ذریعہ میدان جنگ کی بہترین نقاشی کی گئی ہے، روسی فوجیوں کو آتے ہوئے اور واپس جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ میدان جنگ میں ہے، اسماعیل خان کی دعوت پر روس کے خلاف جہاد کے لئے قبائلی سرداروں کی میٹنگ’’ غُور‘‘کے قصبہ ساغر میں منعقد ہوئی تھی، اس کو بھی مجسموں کے ذریعہ دکھایا گیا ہے، بیرونی پارک میں بنائی گئی دیواروں پر ۲۸؍سو شہداء کے نام کندہ ہیں، یہ مشہور اور اہم شہداء ہیں، جنہوں نے مادرِوطن اور دین کے لئے قربانیاں دی تھیں، بہر حال یہ بڑا ایمان افروز میوزیم ہے، جس کو دیکھ کر اللہ کی نصرت پر یقین بڑھتا ہے۔(جاری)

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.