Baseerat Online News Portal

آہ وہ سایہ دار شجر!

سعدیہ سلیم شمسی، آگرہ

18 جولائی 2019 بروز جمعرات بوقت ساڑے چار بجے میرے پیارے پاپا ہم سب سے رخصت ہوگیے کیا لکھوں کیسے لکھوں؛اس المناک کیفیت کے بیان کیلئے نہ الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی میرے دل و دماغ میرا ساتھ دے رہے ہیں۔

پاپا کا یوں اچانک سے مجھے چھوڑ کر چلے جانا ایک بڑا سانحہ ہے ایسا خلا ہے جس کی کمی کوئی پر کر ہی نہیں سکتا۔ کل رات جیسے ہی نیٹ آن کیا تو ہزاروں کی تعداد میں تعزیت و مغفرت کے میسیجز کا جیسے ایک سیلاب سا نظر کے سامنے آگیا ۔ ہر میسج نے یقین دلایا کہ سبھی دل کی گہرائیوں سے میرے پاپا کی مغفرت کی دعائیں کررہے ہیں اور ہم سب کے غم میں برابر کے شریک ہیں میں ان تمام احباب کے لیے دعا گو ہوں اور یہی دعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک سب کے والدین کی سرپرستی بنائے رکھے اور سب کو ان کی زندگی میں ہی ان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

 

اے ضیاء ماں باپ کے سائے کی ناقدری نہ کر

دھوپ کاٹے گی بہت جب یہ شجر کٹ جائیں گے

 

ہوتا یہ ہے کہ قلمکار جب لکھنے بیٹھتا ہے تو اپنے جذبات و احساسات ذہن میں رکھ کر احساسات و جذبات کا سلسلہ مربوط کرتا ہے اور پھر اسے الفاظ کے پیکر میں ڈھال دیتا ہے لیکن کبھی کبھی جذبات کا بحر بیکراں موجزن ہوتا ہے مگر الفاظ ساتھ ہی نہیں دیتے ہاتھ لرزتے ہیں اور بجائے الفاظ کی شکل میں آنے کہ آنکھوں کے راستے اُمڈ پڑتے ہیں… اس وقت میں بھی اسی کیفیت سے دوچار ہوں…

میرے پاپا اتنے بڑے ادارے کے منیجر تھے ساری دنیا میں مقبولیت پانے والے رسائل کو بہت محنت سے انہوں نے سینچا تھا میرے دادا محترم (ابو سلیم محمد عبد الحی) کے لگائے ہوئے اس شجر کو ایک خوشنما باغ کی شکل دی تھی ۔

پاپا ایک بہت ہی مخلص اور ایک اچھے اخلاق کے مالک تھے ہر کسی سے دوستانہ مراسم ؛ ہنسی مذاق میں بڑے ہی خوبصورت انداز میں بات کرنے کا فن اللہ پاک نے انکو کو عطا کیا تھا چاہے کسی موضوع پر ہم بات کریں ان کے سمجھانے کا طریقہ اتنا اچھا اور اتنا پُر اثر کہ ذوق تجسس کو قرار مل جاتا.. میں جب جب کسی مسئلہ کو لے کر پریشان ہوتی تو پاپا مجھے ایسی ایسی مثالوں کے ساتھ سمجھاتے کہ لگتا کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ؛ میں تو ایک بیٹی ہوں بیٹیاں عموماً اپنے پاپا کے بہت قریب ہوتی ہیں لیکن میرے گھر میں تو الحمدللہ پاپا کی تینوں ہی بہوؤں کو پاپا سے نہ کبھی کوئی شکایت ہوئی اور نہ ہی کبھی انہوں نے کسی کی دل آزاری کی۔

آج ہر بہو ؛ہر بیٹے، ہر داماد اور انکے دونوں چھوٹے بھائیوں محترم عبدالمالک فہیم صاحب اور محترم عبدالرب کلیم صاحب کے دل میں وہی تڑپ وہی بے چینی کا عالم کہ یہ کیا ہوگیا۔؟ وہ یوں اچانک ہمیں چھوڑ کر کیسے چلے گئے ۔؟ میرے تینوں بھائی تڑپ تڑپ کر دعائیں کررہے ہیں اور بار بار گھر کے درودیوار سے ایسا لگتا ہے جیسے میرے پاپا ابھی یہاں سے چل کر آجائیں گے اور اپنے مخصوص انداز میں بیٹھ کر ہم سے محبت آمیز گفتگو کریں گے۔

خیر اب تو میری آنکھیں ہیں تمہاری آنکھیں

ہاں میرے بعد نظر آئے گی دنیا تم کو

پوری الحسنات فیملی اس وقت غم کے ماحول میں ڈوبی ہوئی ہے ؛ سب کی زبانوں پر پاپا کی مغفرت کی دعائیں اور صبر…. میں نے اپنی تمام زندگی میں اپنی سب سے پیاری اکلوتی پھپھو جان کو اس طرح ہچکیوں سے روتے نہیں سنا؛ جب انہوں نے مجھ سے امریکہ سے کال پر بات کی تو کیسے وہ مجھے سمجھا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تسلی دے رہی تھیں لیکن نہ ان کو اپنے آنسوؤں پر اختیار تھا اور نہ ہی مجھے…. وقت بہت بڑا مرہم ہے رفتہ رفتہ صبر آجائے گا لیکن جو ہم نے کھویا ہے وہ تو زندگی بھر نہیں مل سکتا بس اب ہمارے پاس دعاؤں کا ذخیرہ ہے جو ان کو ہر وقت ہی دیتے رہنا ہے۔

مجھے اس غم سے لبریز دل کی تڑپ کا اندازہ ہے جو میری والدہ کے سینے میں شدت کرب سے گھٹ کر رہ گیا ہے ؛ صبر نے غم کے سیلاب کو اسیر کرلیا ہے لیکن نماز میں سجدوں کے دوران ؛ اکثر تلاوت قرآن کے وقت اور بیشتر عزیز واقارب کی زبانی اپنے شوہر کا تذکرہ سن کر صبر کا یہ مضبوط باندھ ٹوٹ کر سیل غم اشکوں کی صورت آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے ؛ کیسی عجیب کیفیت ہے کہ وہ طویل رفاقت نبھانے والے محبت کے پیکر اپنے شوہر کی محرومی کے غم کو برداشت کریں یا اپنے بچوں کا غم بانٹنے کیلئے انکو تسلی دیں ۔ ہائے ! میری شفیق ماں !!! اللہ رب العزت انکو صبر وقرار عطا فرمائے ۔آمین آمین آمین ۔

 

۔ اللہ رب العزت انکی مغفرت فرماکر عقبیٰ میں بلند درجات عطا فرمائے ۔ نیک نیتی ؛ صاف دلی ؛ صلہ رحمی کا مزاج تھا اور اللہ کا خوف انکے پیش نظر رہتا تھا شاید انہی نیکیوں کے سبب انتقال کے بعد بھی انکے چہرے پر ایسا نور اور ایسا سکون تھا کہ جتنے لوگوں نے جنازہ دیکھا سبھی نے نوٹس کیا ؛ ورنہ عموماً جان کنی کی تکلیف انسان کے چہرے پر کرب کے آثار چھوڑ جاتی ہے ۔ اللہ سے محبت کا یہ عالم میں نے خوددیکھاکہ کوئی کام یا کوئی بات جو انکی مرضی کے خلاف ہو یا اس پر انکی طبیعت آمادہ نہ ہو ؛ اسکو کسی قیمت پر بھی قبول کرنے کو تیار نہ ہوں لیکن جب اللہ کا واسطہ دیا جاتا تھا تو فوراً ہی آمادہ ہوجاتے اور صاف گوئی کا یہ عالم کہ کسی سے اگر کوئی شکایت بھی ہے تو بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ ایسے کہہ دینا کہ شکایت ہی نہ رہتی ہر آنے والے کی زبان پر صرف اور صرف ان کے اخلاق اور ان کے مزاج کی ہی تعریفیں تھیں۔ اللہ رب العزت انکی خطاؤں کو درگذر فرمائے اور انکی تمام تر نیکیوں کو اپنی بارگاہ عالی میں قبول فرماکر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین ثم آمین،،،

 

موت اس کی ہے جس کا کرے زمانہ افسوس

یوں تو آئے ہیں دنیا میں سبھی مرنے کے لیے

Comments are closed.