Baseerat Online News Portal

اسلام کو ہم برداشت کر رہے ہیں!

ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

آكسفورڈ یونیورسٹی

مسلمان دنيا كے ايك بڑے حصه ميں اكثريت ميں ہيں اور اقتدار پر فائز، اور دنيا كے باقى علاقوں ميں اقليت ميں ہيں اور كسى قسم كے سياسى اقتدار سے محروم ، دونوں كيفيتوں ميں بظاہر بڑا فرق ہے، تاہم ان كے درميان سب سے بنيادى اور اہم بات ميں اشتراك ہے، اور وه ہے اسلام سے ان كا تعلق۔
مسلمان خواه كہيں بهى ہوں اور خواه كسى قسم كے سياسى واجتماعى حالات ميں جى رہے ہوں، اسلام ان كے لئے ايك بار گراں بنا ہواہے، يه ايك وزن ثقيل ہے جس نے ان كى رفتار كو برى طرح متاثر كيا ہے، انہيں زندگى كے ہر محاذ پر كمزور كرديا ہے، اور دنيا كى دوسرى قوموں كے مقابله ميں ان كو پيچهے ڈهكيل ديا ہے، ان كا مذہب ان كے لئے ادبار وپستى كى علامت ہے، اور جان ومال اور عزت وآبرو كے نقصان سے عبارت ، اوراس دين كى وجه سے وه ہر طرف احساس كمترى وخجالت اورخوف و ذلت كى نفسيات ميں جى رہے ہيں۔
يه بوجه اتنا بهارى ہے كه جب بهى انہيں اس كے كسى حصه كو اتار پهينكنے كا بہانه ملتا ہے اسے بغير كسى ترددكے اتار پهينكتے ہيں اور اس طرح خود كو كچه دير كے لئے ہلكا محسوس كرتے ہيں، اسلام كے جس حصه سے وه دستبردار ہوجاتے ہيں اس پر انہيں كوئى افسوس نہيں ہوتا، اور نه باقى مانده حصه كو دل وجان سے لگانے كے لئے انہيں كوئى تازه حوصله ملتا ہے، بلكه جلد ہى ثقالت كا وه احساس اسى شدت كے ساته عود كر آتا ہے، اور كسى دوسرے حصه كو كاٹ ڈالنے كے متقاضى ہوجاتے ہيں۔
وه دنيا كى دوسرى قوموں كو رشك كى نگاه سے ديكهتے ہيں، ان كى آزاديوں اور ترقيوں كو اپنے لئے نمونه سمجهتے ہيين، انہيں جو عيش وامن حاصل ہے اس پر للچائى ہوئى نگاه ڈالتے ہيں، اور اپنے پيروں ميں اسلام كى بيڑى اور اعمال واخلاق كى زنجيريں ديكهكر سخت تكليف اور شرمندگى محسوس كرتے ہيں، ان كو وه مفكر يا واعظ ومصنف محبوب لگتا ہے جو اسلام كے كسى حكم كو غير اسلامى ثابت كرسكے، جو قرآن كى ايسى ترجمانى كرے كه قرآن كے احكام خواہش نفس اور رسم ورواج كے تابع ہوجائيں، اور جو ان كے نبى كى سنت كو جاہليت كا اثر قرار دے، مسلم معاشروں ميں ايسے رہنماؤں كى تعداد روز افزوں ہے، اور ان كو علمائے صالحين كے مقابله ميں زياده پزيرائى حاصل ہے، اور انہيں ہر جگه عظمت واحترام كى نظر سے ديكها جاتا ہے۔
اسلام سے ہمارى محبت ووفادارى كا دور ختم ہوگيا ہے، اس كے روز روشن كو ہم نے خير باد كہا، اس كى صدا ہميں سنائى نہيں ديتى، اب اس كے رخ زيبا وخنداں ميں ہمارے لئے كوئى كشش نہيں، اس كے معطر جهونكے ہميں فرحت نہيں بخشتے، اس كے ابدى ترانے ہميں زندگى كا پيغام نہيں ديتے، ہم ہيں اور ايك خواب مست جس كى مدہوشى نے ہميں ہر حركت ونشاط سے معذور كرديا ہے، كسلمندى وطول امل نے ہم پر اپنى گرفت مضبوط كرلى ہے، دروغ گوئى، تزوير، بزم امراء ميں حاضرى كا شوق، اصحاب اقتدار سے قربت كى دوڑ، نفاق وتزويق، ان ميں سے ہر خصلت ہمارى شناخت بنتى جا رہى ہے۔
ہمارے اسلاف كو اس دين كے جزئيات وفروع اسى طرح عزيز تهے جس طرح اس كے كليات واصول سے ان كو محبت تهى، وه جان ومال وعزت وآبرو كو اسلام پر قربان كرنے كے لئے ہمه وقت تيار تهے، اور اس ميں ايك عجيب لذت محسوس كرتے تهے، انہيں بخوشى يه گوارا تها كه سب كچه چلا جائے ليكن اسلام كو كوئى آنچ نه آئے، وه آئين وفادارى كے محافظ تهے، وه عہد وپيماں كو نبهانے والے تهے، اور رسم محبت كے پاسدار تهے۔
ہم ہيں ان كے نكمے اخلاف! كتاب الہى ہمارےى نزديك سر چشمۂ ہدايت ورحمت نہيں، ہمارے اندر تڑپ نہيں كه ہم اس كے احكام اور ان احكام كى تفصيلات كا علم حاصل كريں، اور ان پر عمل پيرا ہونے كو اپنا ذريعۂ نجات سمجهيں، بلكه ہم اس دهن ميں مست ہيں كه آيات بينات كى ايسى تاويل كريں كه ان كى ہدايات بے روح، اوامر ونواہى بے حقيقت اور الفاظ بے معنى ہوجائيں، آه! اس مقدس فرمان كو ہم نے بازيچۂ اطفال بنا ڈالاہے، اور اس پر طرفه يه كه اس تحريف وجاهلانه ترجمانى كو ہم علم كا نام ديتے ہيں۔
پيغمبر كى سنت ہمارے لئے روشنى نہيں، دنيا كى سارى قوموں كى تهذيبيں اور ان كے رسوم وعادات ہميں اچهے لگتے ہيں، حالانكه ان طريقوں كے پيچهے نه كوئى سند ہے اور نه كوئى دليل، اور نه ان ميں انسان كى عقلى وروحانى ترقى يا تشفى كا كوئى سامان، اور پيغمبروں كے پاكيزه طريقے جو رب العالمين كے منظور شده ہيں اور جو ہمارى روحانى وعقلى ترقيوں كے ضامن ہيں انہيں ہم كمتر سمجهتے ہيں، اور تخلف وپسماندگى كا رمز۔
اسلامى اتحاد ہمارے لئے ايك كلمۂ موہوم اور ايك خيال بے جان ہے، فرقه پرستى ہميں عزيز ہے، مسلمانوں كو متحد كرنے كى كسى كوشش ميں ہم سنجيده نہيں، اس اتحاد كى خاطر ہم اپنى جماعتى اور گروہى شناخت كو ختم كرنے كے لئے تيار نہيں، بلكه ہم نے اپنى شناختوں كو خدا كے دين كا درجه دے ركها ہے، انہيں كے ذريعه ہم ديندارى كو ناپتے ہيں، ہمارے ہر مسلك، مشرب وفرقه كا اصرار ہے كه اتحاد كى شكل يه ہے كه سارے مسلمان اس كے رنگ ميں رنگ جائيں، سب كى شكليں نه سہى عقليں ايك ايك جيسى ہو جائيں۔
خدا كے دين سے وفادارى كا ايك انعام ہے، وه انعام ہميں استحقاق سے زياده ملا، بے وفائى كى بهى ايك جزا ہے، بے وفائى كے رہتے ہوئے ہمارى تقدير نہيں بدل سكتى، كاش ہم نوشتۂ ديوار پڑھ سكتے كه وه ساعت آنے والى ہے جس سے كوئى چاره نہيں، وه ساعت ٹالى نہيں جاسكتى، اندهے بهى ديكه سكتے ہيں كه اس وقت دنيا كے افق پر كيا نمودار ہو رہا ہے، جن كو بات كرنے كا سليقه نہيں وه ہمارے مقابله ميں سحبان وائل، سعدى اور فردوسى زمان بن گئے ہيں، جن كے پاس بزدلى كے علاوه كوئى جوہر نہيں وه ہمارے سامنے رستم دوراں اور دارا وسكندر بن كر آرہے ہيں، اور ہم پر يه ملمع ساز وفريب كار اپنے سارے حربے اپنا رہے ہيں ۔
اميد كى صرف ايك كرن ہے كه اپنے مالك سے دوباره رشته استوار كريں، اس كے غير سے منه موڑيں، اپنے جرائم كى معافى مانگيں، اور ايك با ايمان زنده قوم كى طرح جينے كا عہد كريں: أوفوا بعهدي أوف بعهدكم وإياي فارهبون۔

Comments are closed.