Baseerat Online News Portal

وہ گھٹنے ٹیکتے ہیں، ہم گھنٹیاں بجاتے ہیں!!!

مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ،کرناٹک۔9986437327

مسلمانوں کے پاس جب سیاسی قیادت کی بات آتی ہے تو مسلمانوںکی نگاہیں ہمیشہ سیاسی جماعتوںمیں دئیے جانے والے اُن عہدوںکی ہوتی ہے جو پارٹیاں مسلمانوں کو بہلانے کیلئے پہلے سے طئے کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ہر سیاسی جماعت کے پا س ایک اقلیتی شعبہ موجود ہوتا ہے،ان اقلیتی شعبوںمیں مسلمانوں کو براجمان کیا جاتا ہے،جبکہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو مین اسٹریم یا اہم شعبوںمیں نامز دکرنے کیلئے شائد ہی پہل کرتے ہوں۔مسلمان اقلیتی شعبوں کے عہدوں کولیکر اس قدر خوش وخرم نظرآتے ہیں مانوکہ انہیں ریاست کی باگ ڈور سونپ دی گئی ہو۔دراصل سیاسی جماعتوںمیں اقلیتی شعبوںکے ذمہ داروں کے طورپر نامزد کرنا سانپ سے منہ سے زہر نکال کرٹوکری میں رکھنے کے برابرہے،لیکن مسلمان ان باتوں سے اکتفاء نہیں رکھتے بلکہ وہ اسی کوپوری کامیاب سمجھ لیتے ہیں۔آزادی کے بعد سے مسلسل ہندوستان میں مسلمانوںکی قیادت کمزور ہوتی جارہی ہے،یہ قیادت نہ صرف سیاسی شعبے میں کمزور ہے بلکہ تعلیمی،اقتصادی،معاشی،ثقافتی زمرے میں بھی کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ہندوستان بھر کے تعلیمی اداروں کاجائزہ لیا جائے تویہ سوال پیدا ہوگا کہ مسلمانوںکے پاس کتنے ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو مسلمانوں کوبنیادی سطح سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک تعلیم دےسکیں،ایسی کتنی صنعتیں ہیں جو مسلمانوں کوروزگار دینے کی پابند ہیں،ایسے کتنے ادارے ہیں جو مسلمانوںکے اقتصادی ومعاشی حالات کو بہتر بنانے کیلئےپیش رفت کئےہوئے ہوں۔اگر ہماری قیادت کا مظاہرہ دیکھنا ہو تو صرف مسجدوںکی کمیٹیوں میںدیکھی جاسکتی ہے،مسجد کمیٹی کاصدر بننا ہمارے لئے وزیراعلیٰ بننے کے برابرہے،اگر اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں لیکن اس عہدے کا فرض بھی صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے۔جب مسجد کمیٹی کے صدر کا عہدہ ملتا ہے تو ان کی نگاہیں وقف بورڈ یا وقف مشاورتی کمیٹی کی رکنیت حاصل کرنے کا صدر بننے کیلئے دوڑ دھوپ شروع ہوجاتی ہے۔سرکاری سطح پر اگر کسی مسلمان کو کوئی عہدہ دیا بھی جاتا ہے تو وہ وقف مشاورتی کمیٹی کاصدر یا اردو اکادمی کا رکن یا چیرمین کا عہد ہ ہوتا ہے اور ان عہدوں کو کوئی حاصل کر بھی لیتے ہیں تو ان عہدوں کو ہٹانے یا بٹھانے کیلئے پس پردہ ایسی تحریکیں شروع ہوجاتی ہیںجس کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت بھی بے بس ہوجاتی ہے۔مسلمانوں کو اگرایمانداری کے ساتھ عہدہ ملتا ہے تو وہ صرف اردواکادمی یا وقف بورڈمیں ہی ملتا ہے،مگر اس میں بھی انگلیاں کرنے والے ہزاروں لوگ پیدا ہوجاتے ہیں۔مسلمانوں کو دیگر اقلیتوں کو حکومت سے ملنے والی سہولیات،حکومت کے منصوبوں کے تعلق سے کتنا کا م ہو اہے اس کا جائزہ لینے کیلئے ہمارے پاس طاقت نہیں ہے،اس پر نہ کوئی سوال اٹھتا ہے نہ ہی کوئی آر ٹی آئی کے ذریعے سے معلومات حاصل کرتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے لڑائی کرتا ہے۔ہاں آر ٹی آئی دی جاتی ہے تو وہ وقف بورڈ اور اردو اکادمی میں۔تاکہ جو مسلمان ان عہدوں پر فائز ہوئے ہوں وہ بھی سکون سے نہ بیٹھیں،ہمارے پاس اپنی بقاء وترقی سے زیادہ اپنی انا و مفادات کیلئے سیاست کرنے والے لوگوںکی بڑی تعداد ہے۔یہی وجہ ہےکہ مسلمان بُری طرح پٹ رہا ہے اور بُری طرح سے رسواء ہورہا ہے۔اگر مسلمانوں کے پاس اپنوںکے درمیان مقابلہ کرنے کے بجائےدوسروںکے ساتھ مقابلہ کرنے کا مادہ پیدا ہوجائے تو یقیناً مسلمان اپنے حقوق کو پانے میں کامیاب ہوجائینگے،مگر یہ لوگ ایسا نہیں کرتے،یہ لوگ اپنوںکی ٹانگیں کھینچنے میں بہت مزہ لیتے ہیں،ان کے ساتھ نہ عقابی روح ہے،نہ ہی گنبدِِ خضراء میں نشمین بنانے کا جذبہ ہے۔یہ لوگ نہ ہی شاہین کے اوصاف رکھتے ہیں نہ ہی ان کا عزم فاتح اعظم کی طرح ہے،بلکہ ہمارے لوگ ایک دوسرے سے حسد کھانے والے،جلن رکھنے والے اور اپنے مفادات کی خاطر رسواء کرنے والے لوگ ہیں۔جب تک مسلمان اپنے آپ کو دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں پیش نہیںکرتے اور اپنوں کے درمیان ہی مقابلہ آرائی کرتے رہیںگے تو اسوقت تک ان کی جیت ممکن نہیں ہے۔آج امریکہ کامقابلہ کرنے والاملک کوئی مسلم ملک نہیں ہے بلکہ یوروپی ممالک ہی ہیں۔مہذب اور تہذیب وعلم کے گہوارے مانے جانے والے عرب ممالک ترقی یافتہ ممالک سے کافی دور ہیں،آج بھی ان کے یہاں دوسرے ممالک میںبننے والی مصنوعات اور ضروری اشیاء یہاں تک فوجی سازو سامان بھی دوسروں کے یہاں سے خریدے جاتے ہیں،جبکہ یہ ممالک کسی دور میں علم وادب کے گہوارے تھے۔آج مینڈک و چپکلیاں کھانے والے چین و جاپان ترقی کی راہ میںآگے بڑھ چکے ہیں۔یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ ممالک اپنوںکے درمیان مقابلہ کرنے کے بجائے دوسرے ممالک اور دوسری قوموں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اگر واقعی میں مسلمان قیادت کے نظام کو دوبارہ سنبھالنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں تعلیم کے میدان میں قیادت حاصل کرنی ہوگی،اس کے بعد انہیں تجارت،صحافت اور معاشیات کے میدان میںآگے آنا ہوگا۔جب یہ چیزیں مسلمانوں کے پاس مضبوط ہوجائینگی تو یقیناً مسلمان سیاسی میدان میں مستحکم ہوجائینگے اور وہاں قائدین کی ایک بڑی تعداد موجود رہے گی۔کرناٹک کی ایک چھوٹی سی قوم لنگایت سماج کا جائزہ لیا جائے تو یہ قوم مسلمانوںسے بہت چھوٹی ہے،لیکن کرناٹک کے ہر حصے میں ان کے تعلیمی ادارے قائم ہیں،ان کے مضبوط تجارتی مراکز موجود ہیں،انفوسس جیسی کمپنیاں ان کے پاس موجود ہیں،کے ایل ای،سداگنگا،آدی چن چن گری جیسےتعلیمی ادارے ان کے پا س موجود ہیں،اس کے علاوہ ان کے مذہبی امورپر کام کرنےکیلئے محض تین چار مٹھ موجود ہیں جن کے پاس ایسی قیادت ہے کہ وہ اچھے سے اچھے سیاستدان کو اپنے دروازے پر آنے پر مجبور کرتے ہیں،ہمارے پا س کیا ہے؟۔ہمارے مدرسے اس قدر بکھرے ہوئے ہیں کہ انہیں خود قوم نہیں مانتی،ہمارے مفتیان وعلمائے کرام کا ایک بڑا طبقہ سیاستدانوںکے پیچھے گھومتا ہوا دکھائی دے رہا ہے،جبکہ مٹھوںکے سوامیوں کو ملنے کیلئے وزیر اعلیٰ سے لیکر وزیر داخلہ تک بھی گھنٹوں تک سوامیوں کے در پر منتظر دکھائی دیتے ہیں۔جب تک مسلمان اپنی سوچ و اپنے اوصاف کو نہیںبدلتے اس وقت تک وہ دوسروں کے در کے گھنٹیاں بجاتے ہوئے دیکھے جائینگے۔

Comments are closed.