فقیہ العصرحضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی اور مدرسہ ڈسکورس…. ایک وضاحت

محمد ابوالبرکات قاسمی
ادھر سوشل میڈیا میں مدرسہ ڈسکورسز نامی پروگرام کے سلسلے میں کافی گفتگو ہوتی رہی، جس میں حضرت الاستاذ فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ نے شرکت فرمائی، ہم لوگ بحیثیت شاگرد مولانا کی فکر و مزاج سے بہت اچھی طرح واقف ہیں، وہ منصوص مسائل میں بہت ہی تصلب رکھتے ہیں، وہ بعض فقہی مسائل میں فقہ حنفی یا مذاہب اربعہ کے دائرے میں رہتے ہوئے توسع کے قائل ضرور ہیں؛ لیکن تجدد اور انحراف کے اسی درجہ مخالف ہیں؛ چنانچہ راقم الحروف نے مولانا سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس ادارے کی فکر، اس کے کام یہاں تک کہ اس کے نام سے بھی واقف نہیں ہوں اور کئی بیرونی اسفار نیز عدیم الفرصتی کی وجہ سے میں اس بارے میں معلوم بھی نہ کر سکا، جامعہ ملیہ کے شعبۂ اسلامک اسٹیڈیز میں میں کئی دفعہ محاضرہ دے چکا ہوں، مجھ سے بتایا گیا کہ جامعہ کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز میں آپ کو اس موضوع پر کہ *”فکر اسلامی کو آج کیا چیلنج ہے؟ اور اس کے حل میں علماء کو کیا رول انجام دینا چاہیے؟”* محاضرہ دینا ہے؛ چنانچہ میں نے اپنے خطبہ میں اس بات پر زور دیا کہ اعتقادات نصوص پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے؛ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں اس کے دلائل پیش کرنے میں اس زمانے کے علوم سے فائدہ اٹھایا جائے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے علم کلام کا دائرہ وسیع ہوجائے، اسی پس منظر میں توحید و رسالت اور آخرت کے ساتھ ساتھ روافض کے مقابلے خلافت راشدہ کی حقانیت اور صحابہ کی عدالت یا معتزلہ کے مقابلے صفات باری تعالی کی بحث کو علم کلام کا حصہ بنایا گیا، اور ماضی قریب میں قادیانیت کے پس منظر میں ہمارے بزرگوں نے بجا طور پر ختم نبوت کو علم کلام کا حصہ بنایا، آج قوانین شریعت کی معنویت کی تفہیم کو بھی علم کلام کا حصہ بنانا چاہیے، مولانا نے کہا کہ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سر کی آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز غلط ہو سکتی ہے اور ہاتھوں کے ادراک میں غلطی ہو سکتی ہے؛ لیکن جو بات اللہ اور اس کے رسول نے فرمادی، نہ اس میں غلطی کا امکان ہے اور نہ اس میں تبدیلی کو گوارا کیا جا سکتا ہے۔ راقم الحروف (محمد ابوالبرکات قاسمی) بطور وضاحت مولانا سے ہونے والی اس گفتگو کو احباب کی خدمت میں پہنچا رہا ہے؛ تاکہ نہ غلط فہمی پیدا ہو اور نہ حضرت استاد کے نام کا غلط استعمال کیا جائے۔
Comments are closed.