شری روی شنکر پرساد جی! اسلام کا مطالعہ کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناانصافی نہیں کی!

تجزیۂ خبر: شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن

 

چلیے تیسری بار بھی ’طلاق ثلاثہ‘ بل کو مودی سرکار نے لوک سبھا سے منظور کروالیا!

خیر لوک سبھا میں تو اسے منظور ہونا ہی تھا وہاں بی جے پی کے اراکین کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ ہے۔ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے مصداق جو اس بل کے مخالف تھے وہ اعتراض کرتے ہی رہ گئے اور اراکین کی بڑی تعداد کے بَل پر بی جے پی بازی مار لے گئی۔ اس بل کو مودی سرکار کیوں ’قانون‘ بنوانا چاہتی ہے، اس سوال پر نہ جاتنے کتنی بار بحث ہوچکی ہے۔ اپوزیشن کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بی جے پی اس بل کا صرف اور صرف سیاسی فائدہ اُٹھاناچاہتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مودی سرکار ۲۰۱۹ کے لوک سبھا الیکشن میں اس بل کا سیاسی فائدہ اُٹھا چکی ہے۔ اب اس بل کو جلد ی میں پیش کرنے کی بڑی وجہ کئی ریاستوں کے عنقریب ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں؛ مہاراشٹر میں بس چندمہینوں کے اندر ہی الیکشن ہونے والا ہے، اس درمیان یوپی کی کئی سیٹوں کےلیے ضمنی انتخابات بھی ہونے ہیں، بی جے کا طلاق ثلاثہ مخالف بل کو پیش کرنا ان تمام ہی انتخابات میں سیاسی فائدہ اُٹھانے کی تیاری ہے۔ لیکن اس بل کو پیش کرنے کی ایک وجہ اور ہے؛ اس ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کو یہ احساس کراناکہ بی جے پی جس طرح بھی چاہے گی تمہارے مذہب میں مداخلت کرے گی، تمہارے مذہبی قوانین کو مسترد کرکے اپنے قوانین تم پر تھوپے گی اور تم کچھ نہیں کرسکوگے۔ ایک وجہ یہ احساس کرانا بھی ہے کہ ہندو سماج میں بھلے بیوائوں کی حالت ابتر ہو، بھلے ہی گھریلو تشدد میں وہ ماری پیٹی جاتی ہوں، بھلے ہی آشرم ودھوائوں کے استحصال کے اڈے بنے ہوئے ہوں، پر ان کے قصور واروں کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایاجائے گا، قانون تو تمہارے ہی خلاف بنے گا، جیل تو تم ہی کوجانا پڑے گا اور جیل جانے کے بعد گھر تو تمہارا ہی برباد ہوگا۔

ایک جملے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بل کے پیش کرنے کا مقصد سیاسی فائدہ کے ساتھ ساتھ مسلم سماج اور قوم کو بے بس او رمحکوم بنادینا ہے۔

لوک سبھا میں لوگوں نے لاکھ یہ سوال کیاکہ مسلم فرقے سے زیادہ مطلقہ تو سماج میں ہندو خواتین ہیں ان کےلیے حکومت بل کیوں نہیں لاتی؟ پر اس سوال کا نہ جواب دینا ہے اور نہ دیاگیا۔ یہ بل انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ جیساکہ اوپر تحریر کیاگیا اس کے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ایک تو سیاسی اور دوسرا مسلمانوں کو بے بس او رمحکوم بنادینا۔

احساس بے بسی یا احساس لاچاری کا مطلب مایوسی ہے۔ اب اگر اس ’جمہوری ملک‘ میں مسلمان، آئین کے ذریعے دئے گئے حقوق کے باوجود ، اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں بے بس ہوں گے تو انہیں مایوسی تو آگھیرے گی۔ یہ مایوسی ان کی زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے، تعلیم، تہذیب اور ثقافت سب پر۔ مایوسی انہیں تعلیم سے دور بھٹکا سکتی ہے۔ تہذیب اور ثقافتی شعبوں میں انہیں ترقی سے روک سکتی ہے، بالفاظ دیگر مسلمانوں میں حالیہ دنوں میں آگے بڑھنے کا جو ایک ولولہ او رایک لگن پیدا ہوا ہے اس پر روک لگ سکتی ہے۔ مسلمانوں بالخصوص نوجوان مسلمانوں کو ان کی قیادت سے متنفر کرسکتی ہے، اس کے نتیجے میں مسلم نوجوان بغیر کسی قائد کے ایک ایسے ریوڑ میں تبدیل ہوسکتے ہیں جسے اپنے بھلے برے کا احساس نہ ہو۔

پر حل ہے۔ بل کو منظور ہوجانے دیجئے لیکن مایوسی طاری نہ ہونے پائے۔ ابھی حالات اتنے خراب بھی نہیں ہوئے۔ ماضی، بالخصوص رسول اکرم ﷺ کی سیرت میں ہم سب کےلیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں، ان ہی میںایک سبق یہ بھی ہے کہ بدترین حالات میںبھی نہ اللہ کے رسول ﷺ اور نہ ہی صحابہ کرام ؓ مایوس ہوئے نہ ہی بد دل۔ لہذا سنگھیوں کے منصوبے کو ان پر ہی الٹنا ہوگا، ہمیں تعلیم، ثقافت، تہذیب ہر شعبے میں آگے بڑھنا ہوگا۔ خوب ترقی کرنی ہوگی ۔ اور ہر اس لیڈر اور سیاسی پارٹی کو، جس نے بی جے پی کو آگے بڑھانے میں مدد دی ہے چھوڑنا ہوگا، جیسے کہ نتیش کمار، اور ان کی متحدہ جنتا دل۔ آج انہو ںنے بل کی مخالفت میں ووٹ دیا مگر گزرے ہوئے کل کو یہی تھے جو بی جے پی کو جتا کر اقتدار پر بٹھارہے تھے، اگر وہ اور ان کے سیکولر ساتھی بی جے پی کے ساتھ نہ ہوتے تو بی جے پی کے کم از کم اتنے اراکین لوک سبھا میں نہ ہوتے۔ بی جے پی کے وزیر قانون روی شنکر پرساد خوش ہیں ۔ ایک غلط عمل کے جواز میں پیغمبر اسلامﷺ کا حوالہ دے کر انہو ںنے کہاکہ اس لیے ہم نے طلاق ثلاثہ کو کریمنل ایکٹ کے تحت کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ کو آپﷺ نے ناپسند کیاتھا۔ شری روی شنکر پرساد جی! پہلے اسلام کا مطالعہ کریں پھر حوالہ دیں، اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے کبھی ’ناانصافی‘ نہیں کی اور آپ اس بل کے ذریعے مسلم خواتین سے بھی او رمسلم مردوں سے بھی ’ناانصافی ‘ کررہے ہیں!

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.