مینٹل ہائی جیک

مدثراحمد

ایڈیٹر،روزنامہ آج کاانقلاب،شیموگہ،کرناٹک۔9986437327

ملک میں جہاں ایک طرف میڈیا میں بارش،چندریان، دھونی اور کوہلی پر زبردست چرچہ جاری ہے ،گھنٹوں ان مدعوں پر بات ہورہی ہےتو دوسری جانب پارلیمان میں ایسے قوانین منظور کئے جارہے ہیں جس میں مسلمان ہی شکار ہونے والے ہیں۔ این آئی اے، یو اے پی اے اور تین طلاق جیسے اہم قوانین کو حکومت نے اسطرح سے ترمیم کیا ہے کہ اس کے سیدھے اثرات مسلمانوں پر پڑھیں گے۔ حالانکہ پارلیمان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ جو لوگ محب وطن نہیں ہیں یا پھر ہندوستان کی حکومت سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں ایسے لوگوں کیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے۔ ویسے سنگھ پریوار کی نظروں سے دیکھا جائے تو سوائے ہندوئوں کے اس ملک میں کوئی بھی دیش بھگت نہیں ہیں ، ہندوئوں کے علاوہ سب اینٹی نیشن لوگ ہیں۔ اس لحاظ سے اب سے بڑا اینٹی نیشن کوئی طبقہ ہے تو وہ طبقہ مسلمانوں کا ہی ہوگا ۔ اس کے بعد مائو نواز اور نکسلی آئیں گے۔ ایک طرف بی جے پی حکومت ہندوراشٹر قائم کرنے کیلئے اپنے قدم تیزی سے بڑھارہی ہے تو انکا مقابلہ کرنے کیلئے اپوزیشن جماعتیں بھی ناکام ہوچکی ہیں۔ جس سے بی جے پی اورسنگھ پریوار کا ایجنڈہ آسانی کے ساتھ اس ملک پر نافذ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں آزادی سے قبل دوقومی نظریات کے تحت ہندوستان وپاکستان کی تشکیل ہوئی تھی جسمیں پاکستان مسلمانوں کا ملک اورہندوستان میں تمام مذاہب کے لوگوں کا رہنا طئے پایا گیا تھا۔ ہندوستان کو سیکولرز م کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا تھا تو پاکستان کو اسلام کے نام پر الگ ہونا پڑا۔ یہ بات اور ہے کہ دونوں ممالک اپنے اپنے ایجنڈوں پر قائم رہنے میں ناکام ہوئے۔ نہ پاکستان پوری طرح سے اسلامی جمہوریہ بنا نہ ہندوستان میں اب جمہوریت کے اصول باقی رہے۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی کی جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیںاور یہاں فرقہ واریت کے بیج اسطرح سے بوئے جارہے ہیں کہ اس سے نکلے والے کونپل تیزی کے ساتھ درخت بنتے جارہے ہیں۔ ہندوستان میں ہندوتوا کے نام پر لوگوں کے ذہینوں کو ہائی جیاک کیا جارہا ہے جسے ہم مینٹل ہائی جیاکنگ کہہ سکتے ہیں۔ملک میں ہندوئوں اورمسلمانوں دونوں پر اس مینٹل ہائی جیکنگ کے اثرات ہورہے ہیں۔ ایک طرف ہندوراشٹربنانے کیلئے ہندئوں میں ہندوتوا، گئورکشا، رام مندر، بابری مسجد، لوجہاد، رام کے نام پر منظم کیا جارہا ہے تو وہیں مسلمانوں کو ان مدعوں پر ڈرا کر ہندوئو سے دور کیا جارہا ہے۔ پچھلے دس سالوں سے ہندوستان میں جو فرقہ واریت فروغ پارہی ہے اسکی مثال آزادی کے بعد کے دور میں کہیں نہیں ملتی۔ یہ وقت ہندوستانی مسلمانوں کیلئے سخت ترین وقت ہے اوراس وقت میں مسلمانوں کو اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے حالات سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ جہاں ہندو ئوںمنظم کرنے کیلئے زہریلے منصوبے اپنارہا ہے وہیں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آپسی ایکجہتی کو فروغ دینے کیلئے "جئے بھیم۔جئے میم” کے فارمولے پر عمل کرنا چاہئے۔ سنگھ پریوار کے تنظیمی خاکے پر نظر دوڑائی جائے تو اعلیٰ ذاتوں کا طبقہ صرف حکومتی اورافسرشاہی زمرے میں کام کررہا ہے۔ جبکہ دلت اور پچھڑے طبقوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں کھڑا کیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے ہندوستان بھر میں ماب لنچنگ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اس کام کو صرف اورصرف بی جے پی ہی انجام دے رہی ہے بلکہ اس بات پر بھی غور کریں کہ کانگریس سمیت دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں بی جے پی کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اگر ہندوستان میں ہندو۔ مسلم، مسجد۔ مندر کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے تو سیاسی پارٹیوں کے پاس انتخابات لڑنے کیلئے کوئی مدعے نہیں رہیں گے اورنہ ہی مفت میں کوئی فسادہوگا۔ یہاں سیاست کو گرمانے کیلئے مسلمانوں کو نرم کیا جارہا ہے، سیاستدان مسلمانوں کو خالص اپنے مفادات کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ ان حالات میں مسلمان ہوش سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو ان حالات کا سامنا کرنے والا بنائیں ۔ ملک میں 20 کروڑ مسلمانوں کی آبادی ہے اس میں اوسطاً 12 تا 13 کروڑ مسلمان ووٹ دینے کے لائق ہیں ۔ لیکن مسلمانوںنے اپنے آپ کو اس قدر لاپرواہ اوربزدل بنارکھا ہے کہ وہ ووٹ جیسے طاقتور ہتھیار کو استعمال کرنے میں بھی ناکام ہوتے رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے نام الیکشن کی فہرست میں جمع کئے ہیں کچھ لوگوں نے یہ بھی کام نہیں کیااورجن لوگوں نے اپنے نام ووٹنگ فہرست میں جمع کئے وہ کبھی اس بات کو گوار نہیں سمجھیں کہ وہ کچھ قدم بڑھاکر اپنا ووٹ کسی قابل امیدوار کو دیں۔ بھلے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ یا 25 کروڑ اس وقت تک مسلمان کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنا ووٹ استعمال کرنے کی ذمہ داری کو نہیں سجھتے۔ اکثر ہم نے یہ کہتے ہوئے لوگوں کو سنا ہے کہ بی جے پی اقتدار پر آ چکی ہے اس میں ای وی ایم کا سہارا لیا ہے۔ جب بی جے پی نے ای وی ایم کوہائی جیاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو کیونکہ مسلمان اسی سہارے کو کمزور کرنے کیلئے اپنے ناموں کا اندراج نہیں کرواتے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اپنے حال ومستقبل کے تئیں لاپرواہ ہوچکے ہیں۔ اگر مسلمان یوںہی خاموش بیٹھے رہیں گے تو سنگھ پریوار مسلسل ہندوستانیوں کے ذہین کو اغواء یعنی مینٹل ہائی جیاکنگ کے سلسلے کو جاری رکھے گا۔ اس کاخمیازہ آنے والی نسلیں اٹھائیں گے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.