یو اے پی اے بہانہ مسلمان نشانہ

ذوالقرنین احمد
مہاراشٹر
ملک عزیز میں فرقہ پرست پارٹی بی جے پی کے دوسری مرتبہ مرکزی حکومت پر قابض ہونے کے بعد دن بدن اقلیتوں کیلئے زمین تنگ کو کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ۲۰۱۴ میں ای وی ایم کے سہارے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمانوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ کبھی این آر سی لیسٹ کے نام پر ڈرایا جاتا ہے، کبھی مسلم خواتین سے جھوٹی ہمدردیاں دیکھا کر طلاق ثلاثہ بل کو منظور کرانے کی کوشش جاتی ہے اور آج بھی جاری ہے، دراصل یہ حکومت آر ایس ایس کے سیاسی جماعت ہے۔ یہ کوئی ایکدم سے اقتدار میں نہیں آئی ہے اسکے پیچھے برسوں کی منصوبہ بند منظم سازشیں کا نتیجہ ہے۔ جو مسلسل آزادی کے بعد سے جاری ہے۔ جسکی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عالمی ادارے اور عالمی میڈیا نے اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ لیکن پوری دنیا میں اسلام اور مسلم دشمنی کے نتیجے میں آج ہندوستان میں اپنے میشن پر کام کررہی ہے۔
۲۰۱۹ میں بی جے پی ایک بڑی پلاننگ کے تحت مرکزی اقتدار پر قابض ہوئی اور اقتدار میں آتے ہی اپنے مفاد کی خاطر قانون میں ترامیم کرنا شروع کردیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہمارے کالے کارناموں کو اپوزیشن پارٹیاں اور انصاف پسند سماجی مصلحین اجاگر کریں گے، اس لیے اپنی ہٹ دھرمی اور ملکی مفادات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے قانون میں ترامیم کرنی شروع کردی۔ بڑے بڑے جرائم میں ملوث بی جے پی رہنماؤں کو جنہیں رہنما کہنا بھی درست نہیں ہے۔ انکے خلاف قتل، اور کرپشن، جیسے عائد الزامات سے انہیں با عزت بری کردیا گیا۔ جو گجرات فسادات میں ملوث تھے، کچھ ایسے افسران جنھوں نے عہدوں میں ترقی کیلئے مسلم نوجوانوں کا جھوٹے الزامات لگا کر انکاؤنٹر کیا۔ اور جھوٹ فریب مکاری کے نتیجے میں حکومتی ایوارڈ حاصل کیے۔
اسی طرح ۲۰۱۹ کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے پلوامہ حملے کو دہشت گرد حملہ قرار دیا اور اس میں ہمارے سیکڑوں جوانون کی موت ہوگئی۔ اسکے بعد بدلہ لینے کے نام پر ائیر اسٹرائیک کا جھوٹا کھیل کھیلا گیا جس میں افسر ابھی نندنی نے سرحد سے بھاگنے کیلے اپنے طیارے کا اکسترا لوڈ وہاں پھک کر اپنی حفاظت کی کوشش کی تب پاک فوج نے انہیں گرفتار کر لیا۔اور حکومت نے میڈیا کے زریعے یہ جھوٹی خبر کو پھیلا دیا کے بھارتی فوج نے پلوامہ حملے کا بدلہ لیا اور ۳۰۰ دہشت گردوں کو مار گرایا ہے اور دہشت گردوں کے اڈوں پر بم برسائے ہے۔ جبکہ پاک میڈیا نے اس بات کا انکار کیا وہ ایکسٹرا لوڈ جنگل میں گرا تھا اس میں صرف درختوں کو نقصان پہنچا تھا۔ اگر سچ میں پلوامہ حملے کا بدلہ لیا جاتا اور ۳۰۰ دہشت گردوں کو مارا جاتا تو انکے کچھ باڈی کے حصے ضرور ملنے چاہئے تھے۔ بھارت کا میڈیا حکومت کے تلوے چاٹنے میں لگا ہوا ہے۔ عوام کو جتنا بے وقوف سمجھتے ہیں وہ اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ تم کچھ بھی کہوں اور مان جائے۔ اگر سچ میں دہشت گردوں کو مار گراتے تو ضرور ہمیں خوشی ہوتی کے ہمارے نوجوانوں کا بدلہ لیا گیا ہے۔ لیکن انتخابات میں اپنے مفاد کیلے جھوٹ پھیلایا گیا۔
حال ہی میں ۲۲ جولائی کو چندریان ۲ بھارت نے خلا میں بھیجا ہے سارا ملک اس خوشی میں جھوم رہا تھا اور خوشی کی بات بھی ہے کے امریکہ کے بعد ہندوستانی خلائی ریسرچ ادارہ اسرو دورسری بار میشن پورا کر رہا ہے۔ لیکن اس خوشی کے موقع پر حکومت نے اپنی چالاکی سے اور اپنے کالے کارناموں کو چھپانے کیلئے ۲۰۰۵ کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے اندر ترمیمی بل کو لوک سبھا میں پاس کرلیا، بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے ادارے اور قانون پر حملہ کیا گیا ہے کہ جس کے زریعے ایک عام شہری حکومت سے قانون حق اطلاعات کے مطابق معلومات مانگنے کا حق رکھتا ہے۔ اس قانون کے اندر ترمیم کے بہانے اسے حکومت کے ماتحتی میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حق اطلاعات کے اداروں میں کام کرنے والے افسران کو اپنے دباؤ میں رکھنے اور انکے معاوضے طئے کرنے سے لیکر کس معلومات کو عوام تک پہنچانا ہے یا نہیں پہنچانا ہے پہلے حکومت اس پر غور کریں گی اسکے بعد وہ فیصلہ کرے گی کے اسکی معلومات فراہم کرنا ہے یا نہیں۔
اسی کے ساتھ آر ٹی آئی کے اندر خالی جائیدادوں کو پر نہیں کیا جارہا ہے، تاکہ اسکا کام سست روی سے چلتا رہے۔ لاکھوں لوگ اس ایکٹ کے زریعے جو اکثر غریب ہوتے ہے اپنے حق حاصل کرتے ہیں۔ اور جب ادراے میں افسران ہی نہیں رہے گے کام کرنے والوں کی بھرتی نہیں کی جائیں گی تو ہزاروں درخواستیں جمع ہوتی رہی گی۔ لیکن انہیں معلومات فراہم نہیں کی جائے گی۔ جبکہ یہ ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کے باوجود دن بدن عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔
اتنا ہی نہیں گزشتہ روز یو اے پی اے میں تبدیلی کرنے کیلئے ایک ترمیمی بل کو بھی پاس کیا گیا ہے جبکہ اپوزیشن نے اسکی مجالفت کی اور واک آؤٹ کیا۔ یو اے پی اے بل کو کانگریس کے دور حکومت میں ۲۰۰۴ میں ۲۰۰۸ اور ۲۰۱۳ میں ترمیم کی گئی ہے۔ کانگریس کے دور میں مسلم نوجوانوں کو جھوٹے الزامات میں گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا گیا اور یو اے پی اے کے قانون کو سخت سے سخت کیا گیا اس قانون کا استعمال پہلے سماجی ملی تنظیموں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے نام پر کیا گیا اور مسلمانوں کی سماجی تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی۔ لیکن” امیت شاہ نے کہا کہ دہشت گردی صرف بندوق چلانے کانام نہیں ہے بلکہ یہ انسانوں کے دلوں و دماغ میں ہوتی ہے اسے نکالنے کیلے ہم یہ ترمیم کر رہے ہیں پہلے تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث ہوتی تھی اور ان پر پابندی عائد ہونے کے بعد وہ اسکا نام بدل کر پھر سے دوسرے تنظیم بنا لیتے تھے, وہ لوگ بھی دہشت گرد ہے جو انکی مدد کرتے ہیں، جو معاشی طور پر مدد کرتے ہیں، جو ذہنی طور پر مدد کرتے ہیں، جو ادبی طور پر مدد کرتے ہیں یہ سب اس میں شامل ہے، لیکن ہم اس بل کے زریعے ایسے تمام لوگوں پر سخت کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔” جو ایسی کسی بھی قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس بل میں ترمیم کرکے این آئی اے کو اور مضبوط کیا جارہا ہے جبکہ این آئی اے خود سوالات کے گھرے میں ہے۔ اورنگ آباد اور ممبرا کے نوجوانوں کے داعش سے جوڑے ہونے جھوٹے الزام میں باعزت بری ہونے کے بعد جمعیت نے عرضی داخل کی ہے جب وہ نوجوان کے خلاف ثبوت نہیں ہے تو انہیں کیوں برسوں جیلوں میں رکھا گیا۔ اسی طرح گزشتہ روز دوسا ضلع کے سملیٹی علاقے میں بم دھماکے کے الزامات میں ۱۹۹۶ میں ۶ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ جنہیں راجھستان ہائی کورٹ نے بے قصور ٹھہرایا ہے۔ جنہیں ۲۳ سالوں کے بعد با عزت بری کیا گیا ہے۔ جس میں ایک نوجوان اس وقت صرف ۱۶ سال کا تھا لیکن جھوٹے الزامات میں گرفتار کرنے کیلئے افسران نے اسکی عمر ۱۹ سال بتائی تھی۔ اب ان بے قصور نوجوانوں کے ۲۳ سال کون لوٹائے گا۔ کیا عدالت کے باعزت بری کرنے سے انکی زندگی انکی جوانی انکے بیوی بچے انکے ماں باپ خاندان واپس لوٹ سکتے ہیں۔ جو مر چکے ہیں کیا وہ واپس لوٹ سکتے ہیں۔ جب اتنا بڑا جھوٹ اور فریب اور منظم طریقے سے نوجوانوں کو پھنسایا جاتا ہے اور انکی نوجوانی کی عمر گزر جاتی ہے جو زندگی سنوارنے کی عمر ہوتی ہے وہ برباد ہوچکے ہوتی ہے۔ تو ان افسران کے خلاف کیوں کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔ یہاں این آئی اے سے عدالت نے جواب طلب کرنا چاہیے یہ ادرہ ہی جھوٹے الزامات عائد کر رہا ہو تو کیا کسی بے قصور کو انصاف مل سکتا ہے۔
امیت شاہ نے جیسے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ یقین دلانے چاہتے ہے کہ اس بل کا غلط استعمال نہیں کیا جائےگا اور اپوزیشن نے صرف اس لیے اسکی مخالفت کی کیونکہ کہی سیاسی دشمنی نکالنے کیلے حکومت اس کا استعمال ان پر نہ کریں۔ امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی دل و دماغ میں ہوتی ہے جو ایسے افراد ہوتے ہیں وہ ایک جٹ ہوکر پھر سے نئی تنظمیں بنا لیتے ہیں ہم انکے خلاف سخت بل کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس جملے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ اس کا صاف مطلب ہے کہ اس کا استعمال ملی تنظیموں پر ہوگا کیونکہ بی جے پی لیڈر نے اس سے پہلے ملی تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کہا تھا اور ایک بڑی شخصیت کو انکا لیڈر کہا تھا یہ بات الگ ہے کہ اس بیان کی مخالفت کرنے کے بعد اس نے معافی مانگی تھی۔ لیکن یہاں اس بات کو نارمل نہیں لینا چاہیے امیت شاہ کا نشانہ مسلمانوں کی طرف ہے۔ مسلمانوں کی ملی، سماجی تنظیموں پر نظر ہے۔ جیسی اس پہلے ایک تنظیم پر پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ وہ ایک اسلامی طلباء تنظیم تھی جس کا کام نوجوانوں کو عصری علوم کے ساتھ دین سے جوڑنا تھا لیکن حکومت نے اس پر پابندی عائد کردی اور بے گناہوں کو دہشت گردی کے الزامات میں پھنسایا گیا۔ اس بل کا اقلیتوں کے خلاف استعمال کرنے کیلے ہی اس میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اور اس میں ایک عام انسان کو صرف شک کی بنیاد پر گرفتار کیا جائےگا، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت کے خلاف زبان کھلنے کی کوشش کریں گا تو اسی غدار وطن کہا جائے گا۔ اسے دیش دروہی کہے کر جھوٹے الزامات میں پھنسایا جائے گا۔ اور اس بل کی وجہ سے عوام پر خوف طاری کیا جائے گا۔ کے تم ملک کے ساتھ کھلواڑ ہوتے تو دیکھ سکتے ہو لیکن حکومت کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ ورنہ تم دہشت گرد قرار دیے جاؤگے۔
اسی کے ساتھ مزید کہا گیا کہ جو ادبی طور پر ذہین سازی کرتے ہیں وہ بھی دہشت گرد ہے جبکہ ہندوستان کے قانون کے مطابق ہر مذہب کا ماننے والا اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے۔ وہ اپنے مذہبی کتابیں بانٹ سکتا ہے۔ اب کچھ لوگ کہنے گے کے انہوں نے ایسا تو نہیں کہا کہ مذہبی تبلیغ کرنے والے دہشت گرد ہے تو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اس قانون کے تحت شک کی بنیاد پر گرفتار کرلیا جائے گا اور اسی کے ساتھ ۶ مہینے تک اسکی ضمانت نہیں ہوسکتی ہیں۔ اور این آئی اے جرم عائد ہونے کے قبل ہی اسکی جائیداد پر قبضہ کرلے گا۔ اب آپ سوچیے کہ کس طرح سے اس بل کا استعمال ہوسکتا ہے۔ جس کا نشانہ اقلیتوں کو ہی بنایا جائے گا۔ میں یہاں خوف زدہ کرنے کیلے یہ نہیں لکھ رہا ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو خوب خرگوش سے بیدار ہوجانا چاہیے کہ وقت کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہوئے اب اپنی حفاظت اور قانون کی حفاظت کیسی کرنی چاہیے۔ ورنہ سب اپنے نمبر کا انتظار کرتے رہیے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.