Baseerat Online News Portal

طلاق تو مُلّا دیتے ہیں اور ہم آہوتی ………

 

احساس نایاب (شیموگہ, کرناٹک)

ایڈیٹر گوشہء خواتین بصیرت آن لائن

سریش شروع سے ہی سماجی کارکن رہا ساتھ ہی لوگ اس کو حقوق نسواں کا علمبردار کہا کرتے تھے, وہ ہمیشہ تین طلاق کو مسلم خواتین پہ ظلم و ناانصافی کہا کرتا تھا جس کی وجہ سے طلاق کی پرزور مخالفت بھی کرتا تھا …….
اس کی زندگی کا مقصد صاف تھا کہ وہ کسی بھی قیمت میں تین طلاق جیسے شرعی قانون کا خاتمہ کرے اور عوام کے آگے خود کو مسلم خواتین کا ہمدرد بناکر پیش کرے, جس کی وجہ سے وہ ہر ممکن کوشش کرتا اور ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا جب خواتین گھریلو مسائل لے کر پولس یا کورٹ تک آتیں, وہ ایسی خواتین کو انصاف دلانے کے خاطر دن رات جدوجہد کرتا ………
بارسوخ ہونے کی وجہ سے اس کی آواز پولس اور میڈیا سے لے کر پارلیمنٹ تک گونجتی تھی ……. لوگوں کی نظر میں وہ انسانیت کا علمبردار بن چکا تھا یہی وجہ ہے کہ ہر عورت اپنی پریشانی لے کر اُس کے پاس آتی ……. پریشانیوں کا حل اور انصاف ملے نہ ملے ہمدردی کے دو چار میٹھے بول ضرور مل جاتے جو ایک پریشان حال جذباتی عورت کے لئے مرہم کا کام کرتے………
آج بھی سریش صبح سے ہی طلاق مخالف سرگرمیوں میں مصروف تھا اور دیر رات تھکا ہارا اپنے گھر پہنچا …. بیمار بیوی ننھی سی بچی کو پہلو میں لئے سورہی تھی جو دیکھ کر سریش کو غصہ آگیا اور کمرے میں رکھا سامان زور زور سے پٹخنے لگا …. شوہر کی آہٹ پہ نرملا یعنی سریش کی بیوی جاگ گئی.
نرملا سروگُن سمپن , پتی کو پرمیشور ماننے والی نیک عورت تھی ….. شوہر کا رویہ دیکھ کر سوئی ہوئی نرملا گھبرا کر اپنے بستر سے اُٹھی اور جلدی سے باورچی خانے کا رُخ کیا ….. کھانا گرم کرنے کے بعد بڑے ہی سلیقے سے اس کو ٹیبل پہ سجایا , طبیعت ناساز ہونے کے باوجود وہ اپنے شوہر کو کوئی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی؛ اس لئے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے بخار میں تپتے جسم کو سنبھالتے ہوئے رات کے 3 بجے ٹیبل پہ کھانا لگاکر پاس والی کرسی پہ ٹیک لگائے سریش کے انتظار میں بیٹھی رہی کہ اتنے میں سریش فریش ہوکر آگیا ….. سردی بخار سے کپکپاتی بیوی پہ ایک سرسری نظر دوڑائی اور کھانا شروع کیا …. جیسے ہی پہلا نوالا منہ میں گیا سریش غصے سے آگ بگولا ہو گیا …… دراصل سریش کو آج کھانے میں نمک زیادہ لگ رہا تھا یا یوں کہیں شادی میں تحفے کے نام پہ سسرال سے جو کار ملنے والی تھی وہ کسی وجہ سے مل نہ سکی جس کا غصہ ہر دن کھانے میں زیادہ نمک یا گھر کی صاف صفائی یا کسی اور بہانے سے نکلتا …… آج بھی کچھ یہی ہوا؛ لیکن جو ہوا وہ انسانیت پہ بدنما داغ تھا.
سریش بیمار نرملا پہ بھڑک پڑا, سالن کا کٹورا اٹھاکر اُس کے منہ پہ دے مارا اور اُس کے ماں باپ کے بارے میں گندی گندی گالیاں بکنے لگا ……
بلاوجہ ماں باپ کو ذلیل ہوتا دیکھ کر نرملا کے صبر کا باندھ ٹوٹ گیا، اُس نے اپنے شوہر یعنی سریش کو گالی گلوج سے روکنے سمجھانے کی کوشش کی؛ لیکن بات حد سے بڑھنے لگی اور جب حالات بےقابو ہوگئے تو نرملا نے سریش سے طلاق کا مطالبہ کیا, وہ ہر دن کے جھگڑے سے تنگ آچکی تھی ہر دن گالیاں سننا مار کھانا ذلیل و خوار ہونا اس کا مقدر بن چکا تھا جس سے وہ تھک چکی تھی اُس کی برداشت نے اب جواب دے دیا تھا وہ اپنے شوہر کے ظلم و زیادتیوں سے نجات چاہتی تھی اپنی شادی شدہ عذاب بھری زندگی سے آزادی چاہتی تھی …..؛ لیکن مردانگی کا دھونس جمانے, بیوی کو پیر کی جوتی سمجھنے والے سریش کو ارملا کا طلاق مانگنا برداشت نہ ہوا, وہ جلاد کی طرح لات گھونسوں سے بیمار بیوی کو پیٹنے لگا اور جب دل نہ بھرا تو رسوئی سے کیروسین کا ڈبہ اُٹھا لایا ……..
ادھر کمرے میں سورہی ننھی سی گڑیا باپ کی آواز سے گھبرا کر جاگ گئی ,ننھے قدموں سے لڑکھڑاتے ہوئے ڈائنگ ہال پہنچی تو ماں کو باپ کے ہاتھوں پیٹتے روتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہوگئی اور روتے ہوئے اپنی ماں کے سینے سے چمٹ گئی؛ لیکن اس جلاد باپ کو نا اپنی بچی پہ ترس آیا نہ ہی سات جنموں کا ساتھ نبھانے والی اپنی شریک حیات پہ رحم آیا وہ غصے میں پوری طرح سے پاگل ہوچکا تھا اُس پہ وحشت سوار تھی اور اسی وحشت کے چلتے کیروسین سے بھرا ڈبہ اٹھاکر سارا کیروسین ارملا کے جسم پہ انڈیل دیا, بیچاری ارملا کیروسن میں لت پت سینے سے لپٹی اپنی لخت جگر کو دیکھ کر زار و قطار رونے لگی شوہر کے آگے اپنی اور اپنی بچی کی زندگی کی بھیک مانگنے لگی, ہاتھ جوڑے, پیر پکڑے ؛لیکن سریش کو کوئی فرق نہیں پڑا …… ماچس کی تیلی نکالی اور بیوی کے ساتھ ساتھ اپنی 2 سالہ معصوم بیٹی کو بھی جلاڈالا …….. اس درندگی کے دوران اُس کے چہرے پہ نہ خوف تھا نہ پچھتاوا؛ بلکہ وہ تو تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ بار بار یہ الفاظ دہرائے جارہا تھا …. کہ
” بیوی کو طلاق مُلاّ دیتے ہیں اور ہم آہوتی ” ……..
دوسرے دن صبح اخبارات کے اول صفحے کی سرخیوں میں یہ دردناک خبر شائع ہوئی کہ کھانا بناتے وقت رسوئی میں آگ لگنے کی وجہ سے حقوق نسواں کے علمبردار سریش کی بیوی نرملا اور 2 سالہ بچی حادثہ کا شکار ہوگئی ………..
اس کے بعد سریش کو عوام کی خوب ہمدردی حاصل ہوئی اور بہت جلد وہ انتخابات میں جیت حاصل کر کے پارلیمنٹ پہنچ گیا اور آج بھی حقوق نسواں کے لئے سریش کی لڑائی جاری ہے …………….

Comments are closed.