ماہ ذی الحجہ کے استقبال کی تیاری

 

ساجد حسین سہرساوی

غالب گمان تو یہی ہے کہ آج ” ذی القعدة ” کی آخری تاریخ ہوگی ، ہلال کمیٹی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذمہ داروں نے عوام الناس سے ذوالحجہ کا چاند دیکھنے کی اپیل کی ہے ، آج اتفاق سے سید الایام بھی ہے ، جسے ہفتے کی عید بھی کہا گیا ہے ، اس دن کی فضیلتیں احادیث میں بےشمار آئی ہیں اور اس پر زبان رسالت سے یہ مہر ہمیشہ کےلیے ثبت ہوگئی : "خير يوم طلعت عليه الشمس يوم الجمعة ﴿ الحدیث ﴾” اس دن خاص طور پر ہر طرح کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنے کو کہا گیا اور مسلم معاشرہ میں اس پر کافی حد تک عمل بھی کیا جاتا رہا ہے کماقال علیہ الصلوة و السلام : "لا يغتسل رجل يوم الجمعة ، ويتطهر ما استطاع من طهر ، ويدهن من دهنه ، أو يمس من طيب بيته ، ثم يخرج فلا يفرق بين اثنين ، ثم يصلي ما كتب له ، ثم ينصت إذا تكلم الإمام إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى } [البخاري].
یعنی جمعہ کے دن جو شخص صحیح سے غسل کرتا ہے ، اور جس کو صاف کرنا ضروری ہے اسے صاف کرتا ہے ، تیل لگاتا ہے ، اور اگر خوشبو کی گنجائش ہو تو لگاتا ہے ، پھر مسجد میں جاکر دو آدمیوں کے درمیان تفریق کرکے نہ بیٹھتا ہے ، مقرر کردہ نماز ادا کرتا ہے اور پھر خطبے کے وقت خاموشی اختیار کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اس کو اگلے جمعہ تک کے گناہ بخش دیتا ہے.
اگر آج چاند ہو جاتا ہے ، تو کل سے سے ماہ ذی الحجہ کا آغاز ہو جائے گا ، یعنی ایسے مہینے کا آغاز جس کے پہلے عشرے کی ڈھیر ساری فضلیتیں قرآنی آیات اور احادیث میں وارد ہوئی ہیں ، کماقال اللہ تعالی : ” والفجر و لیال عشر ” قدآور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس "قسمیہ جملہ” سے ذوالحجہ کے پہلے عشرے کی صبح کی نماز فجر مراد لیا ہے ، نیز ” ولیال عشر ” سے اس کی تائید بھی ہورہی ہے ، اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے : مَا مِنْ أَیَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ۔ ﴿ الحدیث ﴾ یعنی ان ایام کے اعمال صالحہ دوسرے دنوں کے اعمال صالحہ کے مقابلے میں اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب و پسندیدہ ہیں .
اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل مدعا پر آتے ہیں.
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ : آپ ﷺ نےارشاد فرمایا : ” جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا ارادہ ہو تو وہ بال ، ناخن یا جسم کا کوئی حصہ نہ کاٹے ، جب تک قربانی نہ دے دے. ” ایک دوسری روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے.
یعنی جس شخص کو قربانی دینا مقصود ہو ، وہ ان دس دنوں میں بدن کے کسی حصہ سے کچھ نہ کاٹے اور نہ کٹوائے احادیث میں بطور خاص ناخن اور بال کا ذکر ہے؛ تاکہ لوگ اس عادت جاریہ سے بھی بچے رہیں ، البتہ زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرنے کا مقررہ وقت متجاوز ہورہے ہوں تو بہتر ان بالوں کو صاف کر لینا ہے ؛ علماء نے لکھا ہے : صاحب قربانی کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے ، دوسرے لوگوں کےلیے بھی ایسا کرنا بہتر ہے اور چاہیے کہ ان چیزوں کے کاٹنے سے رکے رہیں ؛ اللہ کی ذات سے امید کامل ہےکہ وہ اس مشابہت پر اجر سے ضرور نوازیں گے.
.آمدم برسر مطلب
آج جمعہ بھی ہے اور یوم اختتام ذی القعدة بھی ہے ، جمعہ کے معمولات کے مطابق بدن کے ساتھ ساتھ آس پاس کی جگہوں اور گلی گلیاروں کی اچھی طرح صفائی ستھرائی کر لی جائے ، سر ، بغل ، زیر ناف اور مونچھ کے بال اسی طرح سے ناخن وغیرہ کو معمول کے مطابق آج ہی صاف کر لیا جائے اور مکمل تیاری کے ساتھ آنے والے دس دنوں کے احترام اور مطلوبات میں لگ جایا جائے ، رضائے الہی کی تلاش میں مصروف ہو جایا جائے ، اوامر پر کاربند ہوکر نواہی سے اجتناب ضروری سمجھا جائے اور ممکن ہو تو صدقات اور روزے کی پابندی کی جائے ، دیگر عبادات میں بھی اضافہ کر لیا جائے اور ہروقت توفیق الہی طلب کی جائے ؛ خصوصاً دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل و حوادثات ، زبوں حالی و احساس کمتری اور پرخطر کھائی سے نکلنے کےلیے دعائیں کی جائیں.
اللہ ہم سب کو توفیق بخشے اور جب تک زندہ رکھے اپنے دین و شریعت پر قائم و ثابت قدم رکھے ، حالات و واقعات سے متاثر نہ کرے ، مدام اپنا محبوب بنائے رکھے اور اپنے دین کی حفاظت کا سامان بدرجہ اتم مہیا کرے ﴿ آمین یا رب ذی الجلال و الاکرام ﴾

Comments are closed.