طلاق ثلاثہ مخالف قانون بن گیا!

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
شکیل رشید
مرکز کی مودی سرکار کتنی متحرک ہے!
طلاقِ ثلاثہ مخالف بل جھٹ لوک سبھا میں منظور ہوا، پٹ راجیہ سبھا نے اسے مان لیا اور اب صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے بھی اس کی توثیق کردی، گویاکہ ایک ہفتہ کے اندر مودی سرکار نے ایک ایسے’بل‘ کو ’قانون‘ کی شکل دے دی جو اس سرکار ، اور اس سرکار کے وزیر اعظم نریندرمودی اوروزیر قانون روی شنکر پرساد اوربی جے پی کےتین سو سے زائد ممبران پارلیمان کے بقول’’مسلم خواتین کو ایسی راحت دے گا ایسی راحت دے گا کہ ان کی زندگیاں بن اور سنور جائیں گی‘‘!!مودی سرکار کی ’تعریف‘تو کی ہی جانی چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل بالخصوص مسلم خواتین کے مسائل کے حل کے لیے اس قدر فکر مند ہے کہ سابقہ حکومت سے لے کراس جاری حکومت تک اس نے ایک لمحہ بھی ’طلاق بل‘ کو ’قانون‘ کی شکل دلوانے میں کوتاہی نہیں برتی، اسے تین تین بار لوک سبھا میں پیش کیا، منظور کروایا ،اور راجیہ سبھا میں اس کی منظوری میں جو ’اڑچنیں‘یا’دشواریاں‘ پیش آرہی تھیں انہیں اس خوبی سے دور کیا کہ سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ اپوزیشن نے ’بل‘ کی مخالفت بھی کی اور’بل‘ کو منظور کروانے میں بھی ایک نمایاں کردار اداکیا۔
پہلے بات کرلیتےہیں اپوزیشن کی۔ اس اپوزیشن کی جواب یہ شور مچا رہی ہے کہ اسے دھوکے میں رکھ کر’بل‘ منظور کروایاگیا۔ کانگریس کے ایک ’بڑے قائد‘ غلام نبی آزاد کا کہناہے کہ کانگریس نے اپنے ممبران پارلیمان کو ایوان میں رہنے کا ’حکم‘ اس لیے نہیں دیا تھا کہ کانگریس نے پہلے ہی پارلیمانی امور کے وزیر پرہلادجوشی کو یہ بتادیا تھا کہ کانگریس جن بلوں کو’سلیکٹ کمیٹی‘ میں بھیجنا چاہتی ہے ان میں طلاق بل بھی شامل ہے۔ یعنی یہ کہ کانگریس اور اپوزیشن اس امر پر بات چیت کررہے تھے کہ فلاں فلاں بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنا ہے اس لیے کانگریس سمیت اپوزیشن کی کئی پارٹیوں نے اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ایوان میں رہنے کا کوئی حکم نہیںدیا! بقول غلام نبی آزاد’’ہم اس غفلت میں رہے کہ یہ بل سلیکٹ کمیٹی کو جارہا ہے۔‘‘ خیر کانگریس تو ہمیشہ سے غفلت ہی میں رہی ہے یہ اور بات ہے کہ یہ غفلت ہمیشہ ’دانستہ‘رہی ہے۔ چاہے بابری مسجد کی شہادت پر اس وقت کےکانگریسی وزیر اعظم نرسمہارائو کا خود کو اپنے بنگلے میں اس حکم کے ساتھ ایک کمرے میں بند کرنارہا ہوکہ ’’کسی کو مجھ سے ملنے کی اجازت نہ دی جائے۔‘‘چاہے ممبئی کے فسادات میں آنکھیں بندکرکے بیٹھ رہنا رہا ہوکہ مسلم اقلیت کٹتی پٹتی رہے!
حیر ت انگیز امر یہ ہے کہ وہ تمام کی تمام سیاسی پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں پر اپنا حق سمجھتی ہیں، یا جن کا وجود ہی مسلمانوں کے ووٹوں کے ’بل پر قائم ہے‘راجیہ سبھا سے غائب رہیں! سماج وادی پارٹی تو خود کو مسلمانوں کے ووٹوں کا بلاشرکت غیرے مالک سمجھتی ہے۔ ملائم سنگھ یادو اس لیے ’ملّا‘ کہلاتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی بابری مسجد بچانے کے لیے کارسیوکوں پر گولیاںچلوائی تھیں، پر اس کے تمام ممبران ایوان سے غائب رہے۔ ٹی آرایس کے تلنگانہ میں وجود کے پس پشت مسلمانوں کی قربانیاں ہیں اور پھر بیرسٹر اسدالدین اویسی اور ان کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کا ٹی آر ایس کو ساتھ حاصل ہے، اس کے باوجود ٹی آر ایس کے ممبران پارلیمان ایوان سے غیر حاضر رہے۔ نتیش کمار خوب شور مچارہے تھے کہ ’’ہم تو طلاق بل کی مخالفت کریں گے‘‘انہوں نے مخالفت تو کی مگر ان کے ممبران راجیہ سبھا سے باہررہ کر مودی سرکار کے اس بل کومنظور کرانے میں پیش پیش رہے۔ اناڈی ایم کے ممبران پارلیمان ’شردپوار‘ پرفل پٹیل سب غائب رہے۔ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی نے واک آئوٹ کرکے بل کی منظوری میںاہم کردار اداکیا۔یہ سب کے سب مسلم ووٹوں پر جیت کر آتے رہے ہیں مگر جب مسلم ووٹروں کو ان کی ضرورت پیش آئی تو وہ راجیہ سبھا سے یا تو یوں غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ یا پھر انہوں نے’مکر‘ سے کام لیا اور ایوان سے ’واک آئوٹ‘ کرگئے، ایوان سے ’واک آئوٹ‘ بھی ایک طرح کی ’غیر حاضری‘ ہی تھی اور اس کے سبب طلاق بل کی منظوری یقینی بن گئی ۔
اب یہ سوال اٹھ رہا ہے اور اسے اٹھنا بھی چاہیے کہ کیا سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں نے مودی سرکار سے کچھ تال میل کوئی ساز باز کرلی ہے؟؟ایک ایسے موقع پر جب طلاق بل جیسے حساس موضوع پر بحث ہورہی ہو، اتنی بڑی تعدا د میں سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کے ممبران کی راجیہ سبھا سے غیر حاضری اور ا ن کا واک آئوٹ یقیناً معمول کی بات نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ہی اپوزیشن کے اس عذر کو درست مانا جائے گا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے! اگر مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا ولی رحمانی یہ کہتے ہیں کہ ’’واک آئوٹ کرنے والی پارٹیوں نے بی جے پی کی حمایت کی ہے‘‘ تو ان کی بات کو آسانی کے ساتھ نہ رد کیا جاسکتا ہے نہ مسترد۔
اب ایک اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ جب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور پوری طرح سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ طلاقِ ثلاثہ بل کی منظوری میں اپوزیشن کا کردار دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے تو مسلمان کیا کریں؟؟اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے، اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے ، ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ سیکولر کہلانے والی سیاسی پارٹیوں کے قول و عمل کا جائزہ لیا جائے اور کوئی ایسی راہ نکالی جائے کہ آئندہ مسلم رائے دہندگان ان کے ’مکر اور فریب‘ کا شکار نہ ہونے پائیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنی ’سیاسی بےوقعتی ‘اور’سیاسی بے حسی ‘ اور ’سیاسی بے وزنی‘ کو ختم کریں ، یہ عمل مشکل ہے پر ناممکن نہیں لیکن اس کے لیے لازمی ہوگا کہ مسلمان جنہیں ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں انہیں اور ان کے ساتھ ان ’دھوکے بازوں‘ کو ووٹ دلوانے کے لیے سرگرم رہنے والے اپنے بے حس، بے غیرت اور ناکام قائدین کو لات مار دیں اور اپنی اور برادران وطن کی صفوں سے نوجوان مخلص اور تعلیم یافتہ نئے قائدین کو منتخب کریں اور انتشار و افتراق کا شکار نہ ہوں۔
بی جے پی کی مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’طلاق بل‘ کی منظوری مسلم خواتین کے لیے نیک فال ہے۔ بقول وزیر اعظم مودی’’اب مسلم خواتین کو آزادی حاصل ہوگئی ہے‘‘۔ آزادی کس سے؟ایک طبقہ کہے گا کہ طلاقِ ثلاثہ کے غیرانسانی قانون اورظالم شوہر سے۔ ایک طبقہ کہے گا کہ ایک ہی جھٹکے میں طلاق کے بعد دربدر ہونے سے ۔
ایک طبقہ یہ کہے گا کہ شرعی قوانین سے۔ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی کے مطابق بل کی منظوری مسلمانوں پر یکساں سول کوڈ تھوپنے کی شروعات ہے۔ مولانا رضی الاسلام ندوی کا کہنا ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ہی موقع پر تین طلاق دے گا تو طلاق تو واقع نہیں ہوگی لیکن اسے قابلِ تعزیر جرم سمجھا جائے گا اور وہ (تین طلاق دینے والا مرد) تین برس جیل کی سزا کا مستحق ہوگا۔ کتنا دلچسپ ہے یہ قانون؟ جو عمل واقع ہی نہیں ہوا اس پر سزا تجویز کی گئی ہے۔‘‘بات واقعی میں دلچسپ ہے کہ جو عمل ’جرم‘ نہیں اس پر ’سزا‘ دی جارہی ہے ! پرکیا کیا جائے اس ملک میں اب تو مسلمانوں کے لیے ایسے ہی قانون بنیں گے اور کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔اب ایک مسئلہ مزید کھڑ اہوگا۔ملک کے قانون کے مطابق طلاقِ ثلاثہ دینے کے باوجود طلاق نہیں ہوئی، یعنی کوئی جرم نہیں ہوا، پر مردکو سزاملی، وہ بھی تین برس کی، اب اس بل میں ،جو منظور ہوا ہے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کہ ان تین برسوں کے لیے، اس کا وہ شوہر جس نے تین بار طلاق کے لفظ ادا کیے ہیں ،پر اس کے باوجود ملک کے قانون کے مطابق بیوی کی حیثیت مطلقہ کی نہیں ہوئی ہے ،جب جیل میں رہے گا تب بیوی کی کفالت کی ذمہ داری کون لے گا؟؟حکومت نے تو یہ ذمہ داری لینے سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔چلئے تین سال اگر یہ’بیوی‘ کسی طرح نکال لے تو ’شوہر‘ جو جیل سے باہر آئے گا کیا وہ اسے قبول کرے گا؟؟ اس کی ایک شکل یا تو یہ ہے کہ پولس شوہر کو پیٹ پیٹ کر بیوی کو قبول کرنے پر راضی کرے یا پھر ’شوہر‘ اس ’بیوی‘ کو دوبارہ طلاق دئیے بغیر ’چھوڑدے‘ اور وہ بھی اس ملک کی بہت ساری چھوڑی ہوئی عورتوں میں شامل ہوجائے، جیسے کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی بیوی جسودا بین کو چھوڑ رکھا ہے! بات صرف یہیں تک نہیں ہے، ایک اہم مسئلہ ’شریعت‘ کا بھی ہے۔ بھلے ہی طلاقِ ثلاثہ کے بعد اس ملک کا قانون بیوی کو مطلقہ نہ مانے پر جو مسالک بالخصوص حنفی،حنبلی ،مالکی، شافعی ایک وقت کی تین طلاق کو تین طلاق ہی مانتے ہیں ان کے نزدیک تو بیوی ’مطلقہ‘ ہوگئی۔ایک مطلقہ کو بیوی بناکر رکھنے کا مطلب مسلمانوں پر یکسا ںسول کوڈ کی کسی شق کو تھوپنا ہی تو ہوا اور اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ ملکی قانون اور مذہبی قانون ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑے ہونگے اور مسلمان عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور ہونگے۔ مرد بھی پریشان اور بیوی بھی پریشان حال اور بچے اور خاندان بھی۔ بے شمار زندگیاں تباہی سے بچ نہیں سکیں گی۔
کاروان امن و انصاف کے صدر طارق ایوبی ندوی اس قانون کو اب تک کا سب سے بھونڈا اور لنگڑا قانون قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ قانون’’انصاف دلانے کے نام پر عورت کو مزید مظلوم بنادے گا، اس کی حیثیت نہ گھر کی ہوگی نہ گھاٹ کی‘‘۔وہ مزید کہتے ہیں ’’مسئلہ صرف تین طلاق پر پابندی کا نہیں ہے، صرف یہاں تک مسئلہ ہوتا تو بات اور ہوتی ،اس قانون کی ذیلی شقوں کی رو سے طلاق رجعی کے علاوہ طلاق بائن کی ہر شکل پر پابندی ہوگی، جن صورتوں میں عورت مظلوم ہوتی ہے اور وہ کسی صورت رہنا ہی نہیںچاہتی صرف اور صرف طلاق بائن کا ہی مطالبہ کرتی ہے یا خلع ہی چاہتی ہے وہ اب مرد کی طلاق رجعی کی مرہون منت بن کر رہ گئی۔یاد رہے جس طرح طلاق کا حق مطلق مرد کو ہے اسی طرح رجعت کا بھی حق بلاشرط اسی کو حاصل ہے۔ اس بل سے بائن کی تمام شکلیں خلع، اورحق حضانت او رقانون نفقہ سب ختم اور کالعدم ہوگئے اور دارالقضاء کے لیے بھی نکاح فسخ کرانااور اس کا اعلانیہ نوٹس دینا بہت بڑا چیلنج بن گیا اب‘‘۔
یہ شریعت پر حملہ ہی تو ہے ! جو حضرات حضرت عمرؓ کی سنت کی بات کرتے ہیں شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے سزا کے ساتھ تین طلاق کو تین طلاق ہی مانا تھا اور یہاں سزا تو ہے پر طلاق ثلاثہ کے باوجود عورت کو مطلقہ نہیں مانا جارہا ہے! یہ کھلواڑ نہیں تو کیا ہے؟ویسے یہ تو ابتدا ہے۔مودی نے 2024تک کی مدت مانگی تھی ،اس مدت میں مزید شگوفے کھلیں گے۔ ملک کو ’ہندوراشٹر‘ میں بدلا جائے گا۔ کوشش یہ بھی ہوگی کہ اسلامی شریعت قطعی ختم کردی جائے۔ مسجدیں اور مدرسے نشانے پر ہونگے بلکہ نشانے پر لینے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ آج ہی سینئر صحافی ونوددوا کا ایک پروگرام دیکھا، وہ کہہ رہے تھے کہ اس حکومت کے ذریعے ’این آرسی‘ کو پورے ملک میں لاگو کرنے کی تیاری ہے۔بقول ونود دوا ’کانگریس مکت‘ کی باتیں کرنے والے ’مسلم مکت‘ بھارت کے لیے کوشاں ہیں۔اب مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ ثابت کرو کہ تم اسی ملک کے شہری ہو۔ طلاقِ ثلاثہ پر قانون تو شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.