عید الاضحیٰ کا پیغام

 

محمد سلمان پرتاپگڑھی
متعلم اے ایم یو علی گڑھ
رابطہ نمبر
8795314212

اسلام کی دو اہم عیدوں میں ایک عید الاضحی ہے، جو ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو عالمِ اسلام میں پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔
عید کا آغاز 624ء میں ہوا۔نبی کریمﷺ کی ہجرت سے پہلے اہلِ مدینہ دو عیدیں مناتے تھے،جن میں وہ لہوو لعب میں مشغول رہتے تھے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے تھے۔آپﷺ نے دریافت کیا کہ ان دونوں کی حقیقت کیا ہے؟لوگوں نے عرض کیا کہ عہدِ جاہلیت سے ہم اسی طرح دو تہوار مناتے چلے آرہے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا! اللہ تعالی نے اس سے بہتر دو دن تمہیں عطا کیے ہیں،ایک عید الفطرکا دن اور دوسرا عید الاضحی کا دن(ابوداؤد:1134)
عید الاضحیٰ کیا ہے: یہ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی کے حضور پیش کی تھی۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کے دل میں حضرت حاجرہؓ سے شادی کے بعد اولاد کی خواہش پیدا ہوئی اور اس کا اظہار آپ نے اللہ تعالی سے ان الفاظ میں کیا:
رب ھب لی من الصٰلحین(الصٰفٰات:100)
’’ائے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے ۔جب آپ کچھ بڑے ہوئے تو اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش کا سلسلہ شروع ہوا ۔حکم ملا کہ اپنی بیوی اور شیر خوار بچے کو مکہ کی بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ آؤ ۔ آپ نے اس حکم کی تعمیل کی اور جب ان کو چھوڑ کر لوٹنے لگے تو پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ مبادا فطری جذبے سے دل بھر آئے اور ارادے میں تنزل پیدا ہوجائے ۔سیدہ حاجرہؓ آپ کے پیچھے پیچھے چلیں اور پوچھا کہ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جاتے ہیں؟ جواب ملا’اللہ پر‘ تو انہوں نے فرمایا :میں اللہ پر راضی ہوں۔ جب آپ اس آزمائش پر کھرے اترے تو اللہ تعالی نے انعا م کے طور پر اس بے آب وگیاہ آبادی میں زمزم کا چشمہ جاری کردیا اور قبیلہ جرہم کو آباد کیا۔
ہم سب کے لیے اس میں سبق ہے کہ : اللہ کے دین کو رائج اور قائم کرنے کے لیے بڑا سے بڑا خطرہ مول لینے میں کبھی نہیں جھجکنا ہے، چاہے اس کے لیے بیوی بچوں سے جدائی یا بھوک پیاس براشت کرنا پڑے اور جان ومال کی قربانی دینی ہوتو بھی پس و پیش سے کام نہ لیں جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کیا تھا
الله ہم سب کو سنت ابراہیمی پر تا حیات عمل کرنے والا بنائے
اٰمین یارب العالمین

Comments are closed.