Baseerat Online News Portal

پیرطریقت حضرت مولانا محمد طلحہ کاندھلوی کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم خسارہ

 

قاضی محمد حسن ندوی

استاذ حدیث و فقہ دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ گجرات

١٢ اگست ٢٠١٩ٕمطابق ١٠ ذی الحجہ١٤٤٠ بروز دوشنبہ کوجہاں ایک طرف پورے عالم کے مسلمانوں نے عیدالاضحی کی دوگانہ نماز بڑی خوشی ومسرت اور شادمانی کے ساتھ عیدگاہ میں ادا کی تکبیرتشریق ”اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد “ کی صدا بلند کرکے شیطان کے غصہ کو برانگیختہ کیا جانوروں کی قربانی کرکے سنت ابراہیمی کی یاد کو تازہ کیا اور قربانی کی تاریخ اور حقیقت وروح سے سبق لیتے ہوۓ اپنی خواہشات وچاہت پر اللہ کی محبت وچاہت کو مقدم اور ترجیح دینے کا عہد وپیمان لیا اوردوسری طرف ایک دوسرے کو عید قربان کی مبارک بادی دے ہی رہے تھے کہ یکایک ایک اندوہ ناک خبر بجلی کی طرح پھیل گٸ کہ قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ”رحمہ اللہ رحمةواسعہ“ کاندھلوی کے اکلوتے صاحب زادے سچے جانشیں بقیة السلف پیر طریقت حضرت مولانا طلحہ صاحب ”نوراللہ مرقدہ“ کا میرٹھ ہاسپیٹل میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا ہے۔”اناللہ وانا الیہ راجعون
”انا للہ مااخذ ولہ مااعطی وکل شیٕ الی اجل مسمی“
پیرطریقت کی لاش سہارنپور لاٸ گٸ جنازہ کی نماز جمیعةالعلمإ کے صدر استاذالحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ارشد مدنی مد ظلہ العالی نے پڑھاٸ اور ہزاروں مسلمانوں متعلقین ومتوسلین نے اپنی نم آنکھوں کے ساتھ مولانا کو سپرد خاک کیا اور تمام علمی اور خانقاہی دنیا میں ماتم کا ماحول ہوگیا اور مولانا کے لۓ دعا ہونے لگی
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہٕ نوررستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
یقیناً پیر طریقت کا حادثہ ملت اسلامیہ کے لۓ ایک عظیم حادثہ ہے اس سے ایسا خلا ہیدا ہوا ہے کہ جس کا فی الوقت پر ہونا مشکل معلوم ہوتاہے مولانا کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ کی تعریف اور پہچان کے لۓ یہی کافی ہے کہ آپ کی نسبت ایک عالمی شخصیت قطب الاقطاب شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب ؒ سے ہے جنہیں دنیا شیخ الحدیث کے نام سے جانتی ہے جو جامع الکمالات اورگوناگوں صفات کے حامل تھے اورنہ صرف ہندوستان کے شیخ الحدیث تھے بلکہ وہ عرب وعجم کے شیخ الحدیث تھے اور عرب وعجم کے علمإ کے مرجع تھے اس کے علاوہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ خاص وعام کے درمیان مقبول ہونے والی کتاب (فضاٸل اعمال )کے مصنف تھے ۔
پیرطریقت کی ابتداٸ اور متوسط تعلیم سہارنپور میں ہوٸی اور مکل عربی کی تعلیم اور فراغت مرکز نظام الدین دہلی سے حاصل ہوٸ ۔مولانا یوسف ۔مولانا افتخار الحسن مولانا عبیداللہ صاحبان آپ کے اساتذہ تھے اور مولانا ہارون صاحب ؒ آپ کے ہم سبق تھے
شروع سے آپ کی تربیت وپرداخت والد محترم کی نگرانی میں ہوٸ آپ جہاں مظاہر علوم کے سرپرست تھے وہیں خانوادہ کاندھلوی کی علمی روحانی وراثت کے امین تھےآپ شاہ عبدالقادرراۓپوری سے بیعت کی لیکن اس کے ساتھ ا پنے والد صاحب سےروحانی تعلق کو مظبوط کیا ان کی تربیت میں رہ کرباطنی امراض اور روغ سے دلوں کو صاف اور شفاف کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں اپنی طرف سے بیعت وارشاد کرنے کی اجازت مرحمت عطا کی
آپ جہاں جاتے وہاں اپنی موعظت حسنہ اور سوز دروں سے مجلس کو گرمادیتے روح کو تڑ پادیتے اور دلوں کو تسکین وسرور کا سامان فراہم کرتے اور سنتوں پر عمل کی تاکید فرماتے
پیر طریقت حضرت مولانا جہاں جامعہ مظاہرعلوم سارنپور کے سرپرست تھے۔وہیں آپ اپنے والد محترم شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا ؒ صاحب کے اکلوتے فرزند اور خلف الرشید بھی تھے اسی طرح آپ ام المدارس ازہرہنددارالعلوم دیوبندکے شوری کے رکن رکین تھے اللہ تعالی نے آپ کو توازن اعتدال بے نفسی تواضع کا جزبہ عطا کیا تھا آپ صاحب سیرت وکردار نرم خو کریم النفس اور سادہ شخصیت کے مالک تھے اس لۓ آپ کے ذریعہ ہزاروں لوگوں نے روحانی غذا حاصل کی اور ہدایت کی دولت سے مالامال یوۓ
آپ کے مریدین ومتوسلین کی ایک لمبی تعداد ہے اسی طرح آپ کے خلفإ بھی کم نہیں ہیں خاص طور پر میرے نانا حضرت مولانامماز علی المظاہریؒ مہتمم معہدالبنات یعقوبیہ یکہتہ آپ کے خلفإ میں سے تھے نانا محترم کا شروع میں آپ کے والد محترم شیخ الحدیث زکریا صاحب ؒ سے ربط قاٸم ہوا اوران کی حیات تک یہ والہانہ تعلق قاٸم رہا اس میں تازگی آتی رہی یہی تعلق کا نتیجہ تھا کہ جب تک نانا محترم صحتیاب تھے سفر کے لاٸق تھے ہر سال ماہ مبارک میں خانقاہ مظاہر علوم سہارنپورمیں اعتکاف کرتے حضرت شیخ الحدیث کی روحانی اور علمی محفل سے مستفید ہوتے ان کے وصال کے بعد ان کے فزند پیر طریقت کی پر نور مجلس سے محذوذ ہوتے رہے یہاں تک کہ وہ سعادت اور قیمتی موقع بھی ہاتھ آیا کہ چندسال قبل پیر طریقت نے نانا محترم کو بیعت کی اجازت مرحمت فرماٸ اور خلافت سے سرفراز فرمایا
غالباًپندرہ سال قبل مدرسہ رحمانیہ یکہتہ ضلع مدہوبنی میں اصلاح معاشرہ کے موضوع ہر ایک اجلاس منعقد ہوا تھا اس موقع پر باشندگان یکہتہ بالخصوص نانا محترم مولانا ممتاز علی المظاہری ؒ کی دعوت اور کوشش سے پیر طریقت یکہتہ تشریف لاۓ وعظ ونصیحت سے لوگوں کےدلوں کو گرمایا اس وقت مولانا نے نانا محترم کو بچیوں کا ادارہ کھولنے کا مشورہ دیا ان ہی کی تحریک پرمعہدالبنات یعقوبیہ کی بنیاد پڑی اور مدرسہ رحمانیہ میں شعبہ بنات کا قیام عمل میں آیا اور اس وقت سے بچیوں کی تعلیم پر اس حلقہ میں بڑی بیداری آٸ ہے اب ماشإاللہ معہدالبنات میں دینیات کے ساتھ ساتھ عربی کی تعلیم دی جارہی ہے اور تعلیم سے زیادہ تربیت پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے
اسی تعلق اور لگاٶکی بنا پرکل نانا محترم کے فرزند مولانا مختار علی المظاہری مد ظلہ العالی کی صدارت میں معہدالبنات یعقوبیہ یکہتہ میں تعزیتی اجلاس منعقد کیا گیاجس میں اساتذہ مدرسہ اور گاٶں کے لوگوں نے شرکت کی اورمولانا منظورعالم قاسمی اور مولانا رضوان احمد مظاہری استاذ مدرسہ رحمانیہ یکہتہ نے پیرطریقت کی حیات وخدمات کا تذکرہ کیا اور اخیر میں مولانا کی مغفرت اور جنت میں اعلی مقام کے لۓ دعا کی گٸ
بقول مولانا قاسمی کہ مولانا طلحہ صاحب کی شخصیت میں چارچاند لگانے میں والد صاحب کی تربیت کا بڑا دخل ہے مولانا کی شخصیت اس اعتبارسے منفرد ہے کہ آپ کو سن طفولیت میں ہی پیر طریقت کا خطاب ملا اس کی وجہ یہ ہوٸ کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا حسین احمدصاحب مدنی شیخ زکریا کے یہاں تشریف لاۓ تھے سامنے کچھ بچوں کے ساتھ مولانا طلحہ بھی کھیل رہے تھے ایک دوسرے سے بیعت کررہے تھے مولانا حسین صاحب کو بچوں کا کھیل بڑاپسند آیا قریب گۓ مولانا طلحہ سے کہا کیا کررہےہیں؟ کہابیعت کررہاہوں کہا مجھے بھی کرلیجۓ کہا آٸٕے چنانچہ مولانا حسین گۓ اور اس بچہ کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر بیعت کی چوں کہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ یہ شیخ کے فرزندہیں کسی سےپوچھا پتہ چلاکہ یہ شیخ کے فرزند ہیں اسی وقت مولانا حسین احمد صاحب نے مولانا طلحہ کوپیرطریقت کا لقب عطا کیا اور اللہ نے اچھاماحول بھی عطاکیا تربیت بھی ویسی ہوٸ چنانچہ والد محترم شیخ الحدیث صاحب نے خلافت سے سرفراز فرمایا اور خاص وعام میں پٕر طریقت کے نام سے مشہور ہوۓ
میرے والدبزرگار مولانا احمد حسین صاحب ؒ حضرت شیخ کے شاگرد تھے اس لۓ اپنی حیات میں اپنے استاذ اور ان کے فرزند پیر طریقت کا بڑے والہانہ اندازمیں ذکر کرتے اور اکابرمظاہر اور اکابرنظام الدین کو بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے اور پوری زندگی ان حضرات سے روحانی تعلق قاٸم رکھا
آج سے کٸ سال قبل راقم دارالعلوم کی زیارت کے لۓ دیوبند حاضر ہوا والد صاحب کواطلاع ملی تو بہت خوش ہوۓ اور خاص تاکید کی سہارنپور ضرور جاٶ اور اکابرسہارنپور سے ملاقات کرو اور ان کی صحبت میں رہ کر ان کی جوتیاں سیدہی کرو تب علم میں نور آۓگا ”الامر فوق الادب “کے تحت مظاہر علوم گیا خاص طور پرشیخ یونس صاحبؒ سے ملاقات کی اور آستانہ زکریا میں حاضری کاشرف حا صل ہوا اور اسی موقع پر پیر طریقت کو قریب سے دیکھنے ان کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملا
اخیرمیں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی پیر طریقت کی بال بال مغفرت فرماۓ اعلی علیین میں جگہ عطا فرماۓ اور جمیع وارثان کو صبر جمیل عطاکرے آمین
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.