آئینہ انیس و دبیر ایک نظر میں

ذاکر اعظمی

ریاض، سعودی عرب

 

میر انیس ومیرزا دبیر آسمان اردو ادب کے وہ آفتاب عالم تاب ہیں جس کی ضو فشانی وتابانی دو صدیاں گذرنے کے بعد بھی آج ایک جہان ادب کو منور کئے ہوئے ہے۔ ان کے کلام میں جو سلاست، روانی، جاذبیت، معجز نگاری، اور رعنائی ودلگیری ہے آج تک ان کا ہم پلہ کوئی پیدا نہیں ہوا۔

 

گذشتہ صدی کے عظیم شاعر جوش ملیح آبادی نے کچھ اس انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:

 

اے دیار لفظ و معنی کے رئیس ابن رئیس

اے امین کربلا، باطل فگار و حق نویس

ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس

عظمت آل محمد کے مورخ اے انیس

تیری ہر موج نفس روح الامیں کی جان ہے

تو مری اردو زباں کا بولتا قرآن ہے

رزم کے میداں میں تو چلتی ہوئی تلوار ہے

بزم کی محراب در میں کلک گوہر بار ہے

اے امامِ کشورِ جادو بیانی السلام

اے کلیم طور الفاظ و معانی السلام

 

ویسے تو میر انیس ومیرزا دبیر کے کلامہائے عقیدت دربیان فضیلت اہل بیت اطہار وشہدائے کربلا پر ظالم یزید کے ہاتھوں جو انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑے گئے اس تعلق سے دشت کربلا کے دونوں شہسواروں نے اپنے اپنے انداز میں وہ جوہر دکھائے کہ آج تک اردو ادب میں اس باب میں کوئی انکی ہمسری کا دعوی نہیں کرسکتا۔

 

قابل صد مبارکباد ہیں مرحوم جناب ظہیر احمد عرف دلارے صاحب جنہوں نے انییس ودبیر کے مرثیہ کا ایک ایسا شفاف موازنہ نہیں بلکہ آئنہ بعنوان ”آئنہ انیس ودبیر” مرتب کرکے فخر موجوادات خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور انکی آل اطہار کے کعش برداروں میں اپنا نام دراج کرانے کا شرف حاصل کیا۔

 

بقول قیصر الجعفری:

 

یہ راہیں اتنی مشکل تھیں کہ شاید سانس رک جاتی

اگر دشت شہادت کی ہوا سر میں نہیں ہوتی

تقابل آئنہ در آئنہ دشوار ہوجاتا

اگر خوئے کرم آل پیمبر میں نہیں ہوتی

انیس اپنی جگہ شاعر دبیر اپنی جگہ شاعر

کہ انکے مرثیہ کی کاٹ خنجر میں نہیں ہوتی

 

آل بیت اطہار سے سچی عقیدت ومحبت رکھنے والے کے ہر گھر میں اس مقدس کتاب کا ہونا شہدائے کربلا کے ساتھ اظہار وفاکیشی ہے۔

 

یارب چمن نظم کو گلزار ارم کر

اے ابر کرم خشک زراعت پہ کرم کر

Comments are closed.