وہ صبح کبھی تو آئے گی!

 

غلام غوث، بنگلور

یہ ہم مسلمانوں کی پرانی عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنا کوئی بھی مسلہ اْس وقت تک حل نہیں کر لیتے جب تک کوئی اور اس کا حل نہ پیش کر دے۔اور جب دوسرے حل پیش کر دیتے ہیں تو ہم چیخنے چلانے لگ جاتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے شرعی مسائل میں مداخلت کی ہے اور غلط احکامات صادر کر دیے ہیں۔اب مسلم مقرروں کو موقعہ مل جاتا ہے اپنے جذباتی اور غلط معلوماتی باتوں کو لے کر تقریریں کر نے کا، اچھل کود کر نے کااور مشورے دینے کا۔ایسا لگتا ہے کہ ہم اس بادشاہ کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں جو اپنے محل کے اندر عیش و عشرت میں مشغول تھا۔وزیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت انگریزوں نے ہمارے ملک پر حملہ کر نے کے لئے آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے تو جواب ملا ”بڑھنے دو ابھی وقت ہے“، حضور انگریز ملک میں داخل ہو چکے ہیں جواب ملا ” داخل ہونے دو ابھی وقت ہے“، حضور انھوں نے محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے جواب ملا ”گھیر لینے دو ابھی وقت ہے۔ جب وزیر نے کہا کہ حضور وہ آپ کے کمرے میں گھس آئے ہیں تب بادشاہ نے نگاہیں اوپر اٹھائیں اور قیدی بنا لیا گیا۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر ہم نے ایسا ہی کیا اور اب یکساں سیول کوڈ اور دوسرے مسائل ہیں جن پر ہم اس بادشاہ کے نقش قدم پر چلنے والے لگ رہے ہیں۔ ہم باتیں بہت کر تے ہیں اور مشورے بھی بہت دیتے ہیں مگر عملی کاموں کے لیے وقت نہیں دیتے۔ ریٹائرڈ حضرات کی بھی عادت یہ ہے کہ وہ سروس میں رہنے تک فائلس ڈھکیلتے رہتے ہیں اور یس سر نو سر کر تے رہتے ہیں اور پھر ریٹائر ہو نے کے بعد تمام تجربہ اور معلومات لیکر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ جب انھیں تلاش کر کے میدان میں آنے کے لیے کہا جاتا ہے تو ہزاروں مشورے دیتے ہیں مگر ہمیشہ مشغول رہنے کا بہانہ بنا کر گھر کی چار دیواری کے اندر اپنے نواسوں اور پوتروں کو کھلانے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کسی مسجد کے ممبر بن جاتے ہیں اور مرنے تک ممبرشپ نہیں چھوڑتے اور دوسروں کو موقعہ نہیں دیتے۔ بزنس والوں کا حال بھی کوئی جدا نہیں ہے۔ ہماری نظروں میں خدمت خلق کا ایک ہی کام ہے مسجدیں تعمیر کر نا اور ضرورت ہو یا نہ ہو مدرسے قائم کر نا اور چندہ وصولی میں لگ جانا۔ چندہ چندہ چندہ اور ہر جگہ چندہ وصولی۔ سیاسی وزن پیدا کر نا ہمارا کام نہیں، تعلیمی میدان میں قابلیت پیدا کر نا ہمارا کام نہیں، اپنے عمل سے غیروں کو اسلام کی طرف راغب کرا نا ہمارا کام نہیں، ہمارے فروئی مسائل کو سلجھانا ہمارا کام نہیں۔ اتحاد کی باتیں کر نا مگر خود اس پر عمل نہیں کر نا ہمارا کام ہے، ایسا کر نا ویسا کر نا کہنا ہمارا کام ہے مگر خود کچھ کرنا ہمارا کام نہیں ہے، دوسروں کے عیب گنوانا ہمارا کام ہے مگر خود ہمارے اندر کتنے عیب ہیں یہ پہچاننا ہمارا کام نہیں ہے،ہمارے آبا ء و اجداد کیا تھے، کتنے سورما تھے اور کتنے متقی اور پرہیزگار تھے اس کا دن رات ڈھنڈورا پیٹنا ہمارا مشغلہ ہے مگر ہم کیا ہیں اس پر نظر ڈالنا ہمارا کام نہیں ہے، سیریس کتابوں کا مطالعہ نہ کر نا اور غور و فکر نہ کرنا ہمارا کام ہے مگر بیوقوفی کی باتیں کر نا ہمارا روزمرہ کا کام ہے۔ اب قارئین خود بتائیں کہ کیا ایسی قوم اس دنیا میں با وقار اور عزت کی زندگی گزار سکتی ہے؟ کیا یہ حالت آج ہم مسلمانوں کی نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیا اسے بدلنا ضروری نہیں ہے؟ ایسی حالت میں اگر آر یس یس اور بی جے پی طلاق ثلاثہ قانون لاگو کر تی ہے تو کیا غلط کر تی ہے؟ خود سے نہ سدھر نے والوں کو وہ اگر سدھارنے کی کوشش کرتی ہے تو کیا غلط کرتی ہے؟ خود کے شرعی قوانین پر عمل نہ کر نے والوں کو یکساں سیول کوڈ کے دائرے میں لانے کی کوشش کر تی ہے تو کیا غلط کر تی ہے؟ ہر معاملہ میں افرا تفری سے دو چار قوم کو ڈسپلن کے دائرے میں لانے کے لیے مدارس کے نصاب میں تبدیلی۔ اذان،؎، راستوں پر نمازِ جمعہ، کثرت ازواج، اوقاف کی بد نظمی وغیرہ پر قانون بناتی ہے تو کیا غلط کر تی ہے؟ سچ بتا نا اگر ہم مسلمان ان تمام مسائل پر غور و فکر کرتے اور اپنے آپ کو سدھار لیتے تو کیا حکومت کو غلط یا صحیح قوانین بنانے کا موقعہ ملتا؟ سورہ بنی اسرائیل، آیت نمبر 16میں اللہ فرماتا ہے ” جب ہم کسی آبادی کے برباد کر نے کا ارادہ کر تے ہیں تو پہلے اس کے خوشحال لوگوں کے پاس اپنا حکم بھیج دیتے ہیں اور جب یہ لوگ ہمارے حکم میں اڑنگے ڈالتے ہیں تب ان پر عذاب کی حجت پوری ہو جانے پر ہم اس آبادی کو اکھاڑ کر پٹک پٹک کر برباد کر ڈالتے ہیں“ ۔آج دیکھیے ہمارے خوشحال لوگوں کی اکثریت لا پرواہی اور فضول خرچی میں مبتلا ہو گئی ہے اور اللہ کی نافرمانی کا شکار ہو گئی ہے۔ اب سزا کے طور پر اللہ نے ہمارے درمیان نااتفاقی ڈال دی، ہم ایک دوسرے کو کافر اور منافق پکارنے لگے، ایک دوسرے کے درد دکھ میں شامل ہو نے سے قاصر رہے۔ اس لیے اللہ نے ہم پر ہر جگہ ظالم حکمرانوں کو مسلط کر دیا۔ یہ ہمارے لیے سزا اور جاگنے کے لیے ایک موقعہ نہیں تو اور کیا ہے۔ دنیا بھر میں مظلوموں کی آہ و بکاہ نے اللہ کے قہر کو ہم تمام پر لازم کر دیا ہے۔ چاروں طرف دریاوں کی طغیانی موسلا دھار بارش، جنگلوں میں نہ تھمنے والی آگ، نئی نئی بیماریاں۔ پہاڑوں سے آتش فشاں کا بڑھنا یہ سب اللہ کی طرف سے سزا نہیں تو اور کیا ہے۔ پہلے زمانے میں ایسا ہو تا تھا تو لوگ ااپنے گناہو ں سے توبہ کرتے اور عبادت گاہوں کا رخ کرتے تھے مگر آج اس سزا کو صرف قدرتی تغیر سمجھا جا رہا ہے۔ خصوصی طور پر یوپی میں جہاں مسلکی افراتفری زوروں پر ہے وہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسلکی دوریاں ختم کریں اور تمام دوسرے معاملات میں متحد ہو جائیں ورنہ وہ تو ڈوبیں گے ہی مگر اپنے ساتھ تمام ہندوستاں کے مسلمانوں کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اب تو ہم سب کو جاگ جانا چاہیے۔چلو شکوے شکایت چھوڑو اب بھی وقت ہے کچھ کر نے کا۔ سب سے پہلے ایک دینی اور ایک مذہبی امیر (لیڈر) کو چن لو اور ان کی رہنمائی میں دوسرے تمام مسائل پر توجہ دو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے پہل کون کرے گا؟ کرناٹک میں یہ پہل شروع ہو چکی ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جن احباب کو بلاتے ہیں ان میں سے اکثر آتے نہیں، صرف دو گھنٹے مانگو تو دیتے نہیں، جوڑو تو جڑتے نہیں، مسائل پر ہوم ورک کر کے آتے نہیں اور جو دل میں آیا وہ کہہ کر نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ہے ہماری حالت اور یہ ہے میدان میں کام کرنے والوں کا تجربہ۔ دوسری ریاستوں میں بھی کوئی ادارہ یہ ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔ اب اس حالت کو کیسے بدلنا ہے اس پر ہم سب کو غور کر نا ہے اور اس صبح کا انتظار کر نا ہے جو کبھی نہ کبھی ضرور آئے گی۔

Comments are closed.