حضرت گرونانک اور اسلام (قسط 1)

 

بقلم: مفتی محمد اشرف قاسمی

پھراٹھی آخرصدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے

سکھوں کے مقتدا حضرت گرونانک

کسی مذہب کی عمارت اس کے بانی کے نظریات اور معتقدات پر قائم ہوتی ہے۔ سکھ فرقے کا مستقل تعارف بیان کرنے کے بجائے سطور ذیل میں سکھ ازم کے بانی حضرت گرونانک کے معتقدات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ جس سے اندازہ ہو گا کہ گرو نانک کے نظریا ت در حقیقت اسلامی نظریات ہیں اور سکھوں کی اصل وبنیاد، اسلام ہے۔

گرونانک کی ولادت 15 اپریل1469ء میں لاہور سے چالیس میل کے فاصلے پر جنوب مغرب میں واقع ایک گاؤں تلوندی میں ہوئی، جسے اب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے، والد کا نام مہتا کالو تھا، بیدی کھتری خاندان سے تعلق رکھتےتھے، گرونانک نے ابتدائی عمر میں سنسکرت اور ہندو مذہب کی مقدس کتابوں کا علم حاصل کیا، پھر گاؤں کی مسجد کے مکتب میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، بچپن ہی سے مذہبی لگاؤ رکھتے تھے جو روز بروز بڑھتا گیا، پنجاب کے مشہورصوفیا کرام شیخ اسماعیل بخاریؒ، بابافریدؒ، علاء الحقؒ، جلال الدین بخاریؒ، مخدوم جہانیانؒ اور دیگر بزرگوں سے کسب فیض کیا۔ع

ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش
قلندری و قبا پوشی و کلہ داری

زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے
ان ہی کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری

حضرت گرونانک کے یہاں توحید کی تعلیم

گرونانک فرماتے ہیں کہ:

”کرنی اکھ کلمہ کے تان مسلمان سدائے“

”ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کو کلمہ طیبہ کے مطابق بنا ئے، وہی حقیقی مسلمان کہلانے کا حق دار ہے۔“(1)
(گرو گرنتھ دار مابھ شلوک محلہ 1ص 141)

ایک دوسری جگہ گر ونانک کہتے ہیں:

مَرنے کی چِنتا نہیں جیون کی نہیں آس
تو سرب جیاں پر تپا لدا لیکے سَاس گراس(2)
(گرو گرنتھ صاحب سری راگ محلہ ص20)

’’اے میرے خدا میرے دل میں نہ تو موت کی فکر ہے اور نہ ہی زندگی کی لالچ ہے۔ اے خدا تو ہی تمام جانداروں کو پال رہا ہے۔ تو ہی ہر شخص کی زندگی کے اعمال کا حساب لے گا۔“(2)
(گرو گرنتھ صا حب سری راگ محلہ 1ص 20/)

گرونانک نے پنجابی کی طرح فارسی اور عربی میں بھی اشعار کہے ہیں۔ سطور ذیل میں فارسی میں گرونانک کے عقیدۂ توحید اور آخرت کے تعلق سے ایک مناجات ملاحظہ کریں۔ع

یک عرض گفتم پیش تو در گوش کن کر تار
حقا کبیر کریم تو بے عیب پَروَردِگار

سم سرِموئے پدر عزرائیل گرفتہ دل ہیچ نہ دانی
زن پسر پدَر برادراں کس نیست دستگیر

آ خر بیفتم کس نہ دارد چوں شود کبیر (3)
( گرو گرنتھ صا حب تلنگ محلہ1/ ص726)

”اے اللہ میں آ پ سے یہ التجا کرتا ہوں کہ آپ میری دعا قبول فرمالیں۔ آپ توسچے ہیں، اور سب سے بڑے کریم ہیں۔ اور پورے عالم کوپا لنے والے ہیں، میں نے بڑی تحقیق کے بعد یہ بات سمجھ لی ہے کہ یہ دنیا فنا اور ختم ہونے والی ہے اور موت کے فرشتے عزرائیلؑ نے میری پیشانی پکڑلی ہے، مگر میرا دل اس سے بے پرواہ اور غافل ہے، یعنی مجھے اس کی کوئی فکرنہیں ہے کہ ایک نہ ایک دن عزرائیل میری پران اور جان میرے بدن اور تن سے نکال لیں گے۔ اور یہ بیوی بچے، ماں باپ اور بھائی وغیرہ میرا ہاتھ پکڑنے والے نہیں ہیں، مجھے یقین ہے کہ جب میں بے جان ہو جاؤں گا تو یہ لوگ میرے اوپر نماز جنازہ پڑھ کر مجھے دفن کردیں گے، تو اس وقت تیرے علاوہ تیرے عذاب سے بچا نے والا کوئی نہیں ہو گا، اے مالک تو ہی میرا سہارا بن جا۔ بقیہ کسی کے سہارے کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔“(4)
(گرونانک اور ان کی تعلیم و دعوت: ص92/ مو لاناحبیب اللہ صاحب چشتی قادری)
(مختلف قومیں اور اسلام: ص43وص44) تصنیف: محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہرمہدپور
ضلع اجین ایم پی
[email protected]

Comments are closed.