Baseerat Online News Portal

نفرت کا علاج(1)

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں اُنس اور محبت کا جذبہ و دیعت فرمایا ہے، وہ محبت کرتا بھی ہے اور محبت چاہتا بھی ہے، اگر تعصب اورعناد کا نشہ اس پر چڑھا ہوا نہ ہو تو فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ محبت سے پیش آئے، اس میں خاندان، زبان، علاقہ اورمذہب رکاوٹ نہیں بنتی، اگر سڑک پر کوئی حادثہ پیش آجائے اور کوئی زخمی تڑپ رہا ہو تو ہر شخص مدد کے لئے اس کی طرف بڑھتا ہے، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، گورا ہو یا کالا، مرد ہو یا عورت، کسی زبان کا بولنے والا یا کسی مقام کا رہنے والا ہو، اگر کسی گھر میں آگ لگ جائے تو ہر شخص آگ بجھانے کو دوڑتا ہے، اور اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق اس میں شامل ہوتا ہے، یہ بات نہیں دیکھی جاتی کہ یہ مکان کس کا ہے، اور اس کا تعلق کس گروہ سے ہے ؟ یہی اصل انسانی فطرت ہے، اگر انسان اس جذبہ سے محروم ہوجائے تو پھر انسانی سماج اور اس جنگل کے درمیان کچھ فرق باقی نہیں رہے گا، جس میں درندے رہتے ہیں۔

جیسے انسان خود محبت کرتا ہے، اسی طرح وہ اپنے لئے بھی محبت کا بھوکا ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ ماں باپ، بال بچے، شوہر اور بیوی، خاندان کے لوگ یہاں تک کہ سماج کے تمام لوگ اسے محبت کی نظر سے دیکھیں، بعض دفعہ انسان کا دل پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے؛ لیکن محبت کی آنچ اسے بھی موم بنادیتی ہے، طاقت اور زور زبردستی کے ذریعہ جو بات نہیں منوائی جاسکتی تھی، محبت کے دو بول اور خوش اخلاقی کے اظہار کے ذریعہ وہ بات منوالی جاتی ہے، انسان کی یہ فطرت اسی وقت معطل ہوتی ہے، جب تعصب، تنگ نظری، غلط فہمی و بدگمانی اور پروپیگنڈہ انسان کے دل و دماغ کو نفرت کی آماجگاہ بنادیتا ہے؛ لیکن عام طورپر انسان کے اندر یہ کیفیت وقتی طورپر پیدا ہوتی ہے، جیسے صابن میل کچیل کو صاف کردیتا ہے، اس طرح حسن اخلاق دل کے غبار کو دھو دیتا ہے۔

محبت اور حسن اخلاق تو ہر انسان کے ساتھ ضروری ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص یا گروہ آپ کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہے تو اس کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، ہندوستان میں اس وقت برادرانِ وطن کی صورت حال یہی ہے، اس ملک میں صدیوں سے مختلف قومیں آباد رہی ہیں اور انھوںنے شیر و شکر ہوکر اس ملک کی خدمت کی ہے، مختلف مسلمان خاندانوں نے کم وبیش آٹھ سو سال اس ملک پر حکومت کی ہے، ان کی فوج اور رعایا میں ہندو، مسلمان اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے، اگر وہ ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے ہوتے تو کیسے اتنے وسیع ملک میں یہ حکومتیں قائم رہتیں اور امن و امان کا دور دورہ ہوتا ؟ اس لئے سچائی یہی ہے کہ انگریزوں کے تسلط سے پہلے تک یہاں محبت اور بھائی چارہ کی عام فضا تھی، بد قسمتی سے بعض فرقہ پرست گروہوں کو یہ بات پسند نہیں ہے؛ اس لئے انھوںنے اس ملک کے طول و عرض میں نفرت کا بیج بونا شروع کردیا ہے اور اب یہ زہریلا پودا دن بدن تناور ہوتا جارہا ہے، بیماری کا علاج عام طورپر اس کی ضد سے ہوتا ہے، گرمی کا اثر دور کرنے کے لئے ٹھنڈی چیز دی جاتی ہے اور ٹھنڈک سے بچاؤ کے لئے گرم چیز استعمال کی جاتی ہے، شوگر کے مریض کو کڑوی غذا دی جاتی ہے، اگر گرمی کے اثر سے بیمار ہونے والے شخص کو مزید گرم چیزیں اور ٹھنڈک کے مریض کو اور بھی ٹھنڈی چیزیں دی جائے، یا شوگر کے مریض کو اور بھی میٹھی چیزیں کھلائی جائیں تو ظاہر ہے کہ اس سے بیماری میں اضافہ تو ہوگا، بیماری دور نہیں ہوسکے گی، اسی طرح اگر نفرت کے رد عمل میں نفرت ہی کا اظہار ہوتو ہر طرف نفرت ہی کے کانٹے اُگ آئیں گے، محبت کے پھول کہیں باقی نہیں رہیں گے، اس لئے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس نفرت انگیز مہم کا جواب محبت اور اخلاق کے ذریعہ دیں اور اس تدبیر کے ذریعہ ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں۔

اس سلسلہ میں روز مرہ کی چند قابل توجہ اور ضروری باتیں یہ ہیں:

(۱) اکثر و بیشتر آپ کے مکان و دوکان کے قریب غیر مسلم پڑوسی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بہتر سلوک کیجئے، اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر پڑوسیوں کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا ہے، (النساء: ۶۳) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: حضرت جبرئیل ں مجھے پڑوسی کے بارے میں اس قدر تلقین کرتے ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہیں ان کو وارث نہ بنا دیا جائے، (بخاری، باب الوصاۃ بالجار، حدیث نمبر: ۶۰۱۴، مسلم، باب الوصیۃ بالجار والاحسان إلیہ، حدیث نمبر: ۶۶۳) حدیث کے شارحین نے لکھا ہے کہ اس میں مسلمان، غیرمسلم، عبادت گزار، فاسق، اجنبی، ہم وطن، نقصان پہنچانے والا، فائدہ پہنچانے والا، رشتہ دار، غیر رشتہ دار، قریب کے گھر والے اور دور کے گھر والے سب شامل ہیں، (تحفۃ الاحوذی: ۶؍۶۲) ایک حدیث میں ہے کہ پڑوسی تین طرح کے ہیں، ایک: ایسا غیر مسلم پڑوسی جس سے رشتہ داری نہ ہو، اس کا ایک حق ہے، دوسرے: مسلمان پڑوسی، اس کے دو حقوق ہیں، تیسرے: مسلمان رشتہ دار پڑوسی، اس کے تین حقوق ہیں۔ (شعب الایمان، اکرام الجار، حدیث نمبر: ۹۱۱۳)

پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ آپ کی طرف سے مطمئن ہو، اس کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ آپ کی ذات سے اس کو نقصان پہنچے گا؛ چنانچہ ایک موقع پر رسول اللہ انے تین بار ارشاد فرمایا: خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہوسکتا، صحابہؓ نے عرض کیا: کون اے اللہ کے رسول ؟ آپ انے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کے شر سے مامون نہ ہو، (بخاری، باب اثم من لایامن جارہ بوائقہ، حدیث نمبر: ۶۰۱۶، مسلم، باب بیان تحریم ایذاء الجار، حدیث نمبر: ۱۷۰) — پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ کے یہاں کوئی اچھی چیز پکے اور غیر مسلم پڑوسی وہ کھاتا ہو، تو اس کے گھر بھیج دیا کریں، حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ کے یہاں ایک بکری ذبح کی گئی تو خاص طورپر اس میں سے پڑوس میں رہنے والے یہودی کو تحفہ بھیجنے کا حکم دیا، (تحفۃ الاحوذی: ۶؍۶۲) اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ آپ کے کسی عمل سے آپ کے غیر مسلم پڑوسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓسے آپ ا کا ارشاد منقول ہے کہ جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے: ’’من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلا یؤذی جارہ‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۶۰۱۸)

(۲) پڑوسی کی ایک خاص صورت وہ ہے، جس کو قرآن مجید میں ’’صاحب بالجنب‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس سے ایسے لوگ مراد ہیں، جن سے تھوڑی دیر کا ساتھ ہو، جیسے سفر کا ساتھی، کلاس کا ساتھی، دفتر اور پیشے کا ساتھی وغیرہ، (مفاتیح الغیب: ۱۰؍۷۷) ان کے ساتھ بھی خاص طورپر اللہ تعالیٰ نے بہتر سلوک کا حکم فرمایا ہے، جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں قدم قدم پر غیر مسلم بھائیوں کا ساتھ ہوتا ہے، خاص کر جہاز میں، ٹرین میں، بس میں، ان مواقع پر ان کے ساتھ خوش اخلاقی کا ثبوت دیجئے، ان کا سامان اُٹھانے میں، سامان رکھنے میں، یا سامان اُتارنے میں اگر آپ کی مدد کی ضرورت ہو تو خود سے بڑھ کر مدد کرنے کی کوشش کیجئے، اگر ان کے ساتھ کوئی مریض یا بوڑھا شخص ہو، یا خاتون اور بچے ہوں اور آپ کی سیٹ ان کے لئے زیادہ موزوں ہوسکتی ہے تو ایثار سے کام لیجئے، اور خود تھوڑی سی زحمت برداشت کرلیجئے، چائے یا کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیز منگائیے تو ان کو بھی شامل ہونے کی دعوت دیجئے، ہر قیمت پر جھگڑے تکرار سے بچئے، جو بڑے ہیں ان کو ان کی عمر کے لحاظ سے چچا، نانا، خالہ اور نانی وغیرہ کے لفظ سے، جو برابر عمر کے ہیں ان کو بھائی کے لفظ سے اور جو کافی چھوٹے ہیں، ان کو ان کی عمر کے لحاظ سے مخاطب کیجئے، کسی بوڑھے آدمی کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہو تو بڑھ کر سہارا دے دیجئے۔

آپ کا یہی سلوک ان دوستوں کے ساتھ ہونا چاہئے، جو آپ کے آفسوں کے یا کلاس کے ساتھی ہیں، یہ تھوڑا سا حسن سلوک ان کے دل پر گہرا نقش چھوڑے گا اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے ذہن میں ایک اچھی تصویر اُبھرے گی، اور یہ بات خاص طورپر ذہن میں رکھیں کہ اگر وہ آپ کے کسی بات یا کسی عمل کو پسند کریں تو آپ بتائیں کہ یہ میری ذاتی خوبی نہیں ہے، یہ ہمارے مذہب کی تعلیم ہے، اس لئے ہم نے جو کچھ کیا ہے، اپنا فریضہ ادا کیا ہے۔

(۳) محبت کا ایک اہم ذریعہ تحائف کا لین دین بھی ہے، رسول اللہ انے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے کو تحفہ دو، اس سے ایک دوسرے سے محبت پیدا ہوتی ہے: ’’تھادوا تحابوا‘‘ (أدب المفرد، عن ابی ہریرۃ، باب قبول الہدیہ، حدیث نمبر: ۵۹۴) رسول اللہ انے غیرمسلموں کا ہدیہ قبول بھی فرمایا ہے اور ان کو ہدیہ دیا بھی ہے، امام محمدؒ نے لکھا ہے:

اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمان کسی حربی یا ذمی غیر مسلم کو تحفہ دے اور اس کا تحفہ قبول کرے؛ اس لئے کہ رسول اللہ انے قحط کے موقع پر پانچ سو دینار مکہ بھیجا اورحکم دیا کہ اسے سفیان بن حرب اور صفوان بن اُمیہ کے حوالہ کیا جائے؛ تاکہ وہ اسے مکہ کے فقراء پر تقسیم کردیں اور اس لئے کہ صلہ رحمی ہر دین میں قابل تعریف ہے اور دوسرے کو تحفہ دینا مکارم اخلاق میں سے ہے۔ (ردالمحتار: ۲؍۳۵۲، بحوالہ سیر کبیر)

اس لئے وقتاً فوقتاً جان پہچان کے غیر مسلم بھائیوں اور دوستوں کو تحفہ پیش کرنا چاہئے، خاص کر ان مواقع پر جن میں تحائف پیش کئے جاتے ہیں، جیسے: شادی، بچہ کی پیدائش، تعلیم کی تکمیل، کسی اعزاز کا حاصل ہونا وغیرہ، اسی طرح اگر خود آپ کے یہاں کوئی خوشی کی بات پیش آئے، آپ کسی اہم سفر سے واپس آئیں، یا اس طرح کا کوئی اور موقع ہو، جس میں آپ اپنے دوستوں کو تحائف دیتے ہوں تو ایسے موقع پر غیرمسلم دوست کو فراموش نہ کریں، یہ بات انشاء اللہ محبت کی تخم بونے کا ذریعہ بنے گی اور سماجی زندگی میں خوشگوار تعلقات قائم ہوسکیں گے۔

(۴) اسی طرح کا ایک عمل دعوت اور مہمان نوازی ہے، رسول اللہ انے مہمان نوازی کی ترغیب دی ہے، آپ انے فرمایا کہ جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ مہمان کا اکرام کرے: ’’من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ‘‘ (بخاری، عن ابی ہریرۃ، حدیث نمبر: ۶۰۱۸) مہمان کی دونوں شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ آپ کی دعوت کے بغیر کوئی شخص خود آپ کا مہمان بنے، دوسری شکل یہ ہے کہ آپ دعوت دے کر کسی کو اپنا مہمان بنائیں، رسول اللہ اکے یہاں غیر مسلم بھائیوں کی ضیافت کی دونوں صورتیں ملتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے ساتھ مہمان جیسا سلوک فرمایا، بنو نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اپنا مہمان بنایا، اور بھی بہت سے غیر مسلم وقتاً فوقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بنا کرتے تھے؛ بلکہ ۹ھ تو ’’عام الوفود‘‘ ہی کہلاتا ہے، جس میں غیر مسلموں کے بہت سے وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلۂ خیال کیا، ایمان لائے، یا معاہدات کئے، یہ سب آپ کے مہمان ہوتے تھے، ۷ ھ میں عمرۃ القضاء کے موقع آپ انے حضرت میمونہؓ سے مکہ مکرمہ میں نکاح فرمایا، اور اہل مکہ کو دعوت دی کہ وہ ولیمہ میں شرکت کریں، یہ اور بات ہے کہ انھوںنے شرکت سے انکار کردیا۔ (فتح الباری: ۹؍۲۳۸)

جیسے آپ نے غیر مسلموں کی دعوت اور ضیافت فرمائی ہے، اسی طرح آپ نے خود بھی غیر مسلموں کی دعوت قبول کی ہے، اس سلسلہ کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک یہودی خاتون نے آپ کو مدعو کیا اور کھانے میں زہر ملا دیا، جس کا اثر مرض وفات تک آپ پر رہا، یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ نے بعض غیر مسلم قبائل سے جن شرطوں پر معاہدہ کیا، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو مسلمان اس علاقہ سے گزریں گے، وہ اس کی میزبانی کریں گے؛ کیوںکہ اس زمانہ میں آج کل کی طرح ہوٹل اور بازار موجود نہیں تھے اور عربوں کے رواج میں مقامی لوگوں کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ مسافروں کیلئے کھانے کا انتظام کریں۔

لہٰذا اپنی سماجی تقریبات میں غیر مسلم بھائیوں کو مدعو کیجئے، جیسے ولیمہ، عقیقہ، یا کسی خوشی کے موقع پر جب دعوت کا اہتمام کیا جائے؛ بلکہ افراد کے ساتھ ساتھ اداروں اور تنظیموں کو بھی اس کا اہتمام کرنا چاہئے، مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں، دینی مدارس اور دوسرے اداروں کو چاہئے کہ اگر کوئی دشواری نہ ہو تو اپنے جلسوں اور پروگراموں میں غیر مسلم مذہبی قائدین کو بحیثیت مقرر اور عام غیر مسلم بھائیوں کو بحیثیت سامعین مدعو کریں، اسی طرح اگر غیر مسلم احباب دعوت دیں اور اس دعوت کا تعلق سماجی تقریبات سے ہو تو اس میں شرکت کریں اور مبارکباد دیں، یہ آمد و رفت اورملاقاتیں فاصلوں کو کم کریں گی اور خوشگوار تعلقات کا ذریعہ بنیں گی۔

(۵) ہدیہ اور تحفہ تو اظہار تعلق کے لئے دیا جاتا ہے؛ لیکن اگر کوئی چیز ثواب کی نیت سے دی جائے تو اسی کو ’’صدقہ‘‘ کہتے ہیں، صدقہ جیسے مسلمان پر کیا جاسکتا ہے، غیرمسلموں پر بھی کیا جاسکتا ہے، رسول اللہ انے ایک موقع پر صحابہؓ سے فرمایا کہ وہ صرف مسلمانوں ہی پر صدقہ کریں، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی کہ غیر مسلموں کو ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے اور مسلمانوں سے فرمایا گیا کہ تم جو بھی خیر کے لئے خرچ کروگے تم کو اس کا پورا پورا جر دیا جائے گا: { وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ } (البقرۃ: ۲۷۲)؛ چنانچہ اس کے بعد رسول اللہ انے فرمایا کہ تمام ہی مذاہب والوں پر صدقہ کیا کرو: ’’تصدقوا علی اھل الأدیان‘‘ (نصب الرایہ: ۲؍۳۹۸)؛ چنانچہ سعید بن مسیبؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ انے یہودیوں کے ایک خاندان پر صدقہ فرمایا، (حوالۂ سابق) اسی لئے اس پر تو اتفاق ہے کہ نفل صدقات غیر مسلموں کو بھی دیئے جاسکتے ہیں؛ لیکن امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صدقات واجبہ بھی غیرمسلموں کو دیئے جاسکتے ہیں، صرف زکوٰۃ کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ مسلمانوں سے لی جائے اور مسلمانوں پر خرچ کی جائے۔ (تبیین الحقائق: ۱؍۳۰۰)

اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم بھائیوں کو صدقۃ الفطر دیا جاسکتا ہے، ان کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے، اگر کسی چیز کی غریبوں کے لئے نذر مانی گئی ہو تو اس کو غیر مسلموں پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے، عملی زندگی میں اس کا خیال رکھنا چاہئے، بالخصوص قدرتی آفات، جیسے زلزلہ، سیلاب اور طوفان وغیرہ کے لئے ریلیف میں غیر مسلم بھائیوں کو شریک رکھنا چاہئے، اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم بیمار ہوتو اس کی علاج میں مدد کرنا، لڑکی کی شادی میںتعاون کرنا، یتیموں، اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، تعلیم میں مدد کرنا، یہ سب کارِ ثواب ہے اور ایسا نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ اگر یہ سلوک کیا جائے تو اس پر اجر حاصل نہیں ہوگا، ہمیں روز مرہ کی زندگی میں اسلام کی ان تعلیمات کا لحاظ رکھنا چاہئے؛ تاکہ برادرانِ وطن محسوس کریں کہ مسلمان صرف اپنے لئے نہیں سوچتا ہے؛ بلکہ وہ پوری انسانیت کے لئے سوچتا ہے۔

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.