مبشرہ کی خودکشی کا عذاب ساری قوم جھیلے گی!

شکیل رشید
ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز / سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن
کیا آپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی نظر میں ایک’ادارہ‘ کسی انسانی جان سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے!
اللہ رب العزت تو یہ فرماتا ہے کہ کسی انسان کی جان لینا ساری انسانیت کی جان لینا ہے او رکسی انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کو بچانا ہے، پر اس دنیا میں ایسے ’بندے‘ بھی ہیں جن کے نزدیک جان سے زیادہ اہمیت ’ادارے‘ کی ’ساکھ ‘ کی ہوتی ہے۔ جان چلی جائے پر ادارے کے کالے کرتوت پر پردہ پڑا رہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ حال ہی میں بھیونڈی میں پیش آیا ہے۔ بے حد دلدوز او رکرب والم سے دل ودماغ کو جکڑ دینے والا واقعہ۔
مبشرہ شیخ ایک ننھی سی طالبہ تھی، دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھی، اس نے یقیناً پڑھ لکھ کر ایک بہتر زندگی گزارنے کے سپنے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے ہوں گے۔ اس کے و الدین نے بھی یہ خواب دیکھا ہوگا کہ ان کی بیٹی پڑھ لکھ کر اور سماج میں باعزت مقام پاکر، ان کا نام روشن کرے گی ۔ پر سارے سپنے ۲۱ اگست کو اس وقت بکھر کر رہ گئے جب مبشرہ شیخ نے اپنی درسگاہ ’انصاری صافیہ گرلز ہائی اسکول‘ کے پانچویں منزلے سے کود کر خودکشی کرلی۔ اس نے خودکشی کیوں کی؟ اس سوال کو بعض لوگ ’معمہ‘ بنارہے ہیں پر اس کا جواب سامنے ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ ہمارے سماج کی ایک ایسی تصویر کو اجاگر کرتے ہیں جوانتہائی مکروہ ہے۔ ایسے لوگوں کی تصویر جن کے چہروں پر بے حسی صاف نظر آتی ہے۔ جنہیں اگر سنگدل اور شقی القلب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ مبشرہ شیخ کا امتحان چل رہا تھا، اس روز اس کا ’سماجی علوم‘ کا پرچہ تھا۔ وہ جنہوں نے اسے پرچہ دیتے ہوئے دیکھا اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ پرچہ دیتے ہوئے بھی او رپرچہ دے کر کلاس روم سے باہر نکلتے ہوئے بھی رو رہی تھی۔ ان دنوں وہ مسلسل روتی ہوئی نظر آتی تھی۔ پتہ چلا کہ عرصے سے اس کی فیس باقی تھی اور اس پر یہ دبائو تھا کہ وہ فیس بھرے نہیں تو اسے امتحان میں بیٹھنے نہیں دیاجائے گا۔ امتحان میں تو بیٹھنے دیاگیا، مگر وہ ’ٹارچر‘ ہوتی رہی اور اس کی ذہنی کیفیت کچھ ایسی ہوئی کہ اس نے ا نتہائی قدم اُٹھالیا۔ اسکول انتظامیہ بلاشبہ اس بات کو قبول کرنے سے انکار کرےگا وہ کہے گا کہ اس کے اسکول کو بدنام کیاجارہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دوسال قبل اسی اسکول کی ایک اور طالبہ کی خودکشی پر اس نے کہا تھا۔ اس وقت بھی معاملہ پیسوں کا تھا ۔ دوبہنوں میں سے ایک ہی کا داخلہ ممکن تھا کیوں کہ والدین کے پاس ایک ہی کا ’ڈونیشن‘ بھرنے کی طاقت تھی۔ دوسری سے یہ برداشت نہ ہوسکا اوراس نے اپنی جان لے لی۔
سوال یہ ہے کہ فیس او رڈونیشن کی ’لعنت‘ کب تک ننھی بچیوں کی آنکھوں سے سنہرے سپنے چھینتی رہے گی؟ فیس کی ادائیگی پر امتحان میں شریک نہ کرنے کی ’دھمکی‘ ایک وبا کی طرح سے پھیلی ہوئی ہے۔ حال ہی میں میرے ایک واقف کار کو اپنی بچی کے امتحان شروع ہونے سے پہلے ادھار لے کر فیس بھرنا پڑی کہ ذمے داران نے کہہ دیا تھا ’فیس نہیں تو امتحان نہیں‘ ۔۔ایک اور سوال یہ بھلا کون سی بچیاں ہیں جن کی فیس سرکار نے معاف کررکھی ہے؟ اگر یہ مبشرہ شیخ جیسی ہی بچیاں ہیں تو فیس کیوں لی جاتی ہے؟ ایک سوال مزید، یہ ہماری قوم کو کس خبیث مرض نے آگھیرا ہے کہ اس کے سیٹھ اور امرا ء اسکول غریب بچیوں اور بچوں کو پڑھانے کےلیے نہیں بلکہ اپنی جیبیں بھرنے کےلیے بنواتے ہیں؟ غریب بچے اور بچیاں کہاں جائیں؟ میونسپل کے اور سرکاری اسکول ان کےلیے ہیں، پر کیا اچھے غیر سرکاری اسکولوں پر ان کا کوئی حق نہیں؟ مبشرہ کی خودکشی سے لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئے۔ اس خودکشی کا عذاب ساری قوم جھیلے گی۔۔اور اگر اس کا کوئی سدباب نہیں ہوا تو عذاب پر عذاب آتے رہیں گے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.