جمعہ نامہ : خون ناحق کو روکنے کے لیے دست قاتل کو توڑنا ہوگا

 

ڈاکٹر سلیم خان

ارشادِ ربانی ہے : بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں(التوبہ ۱۱۱) گردشِ ایام اس آیت کی عملی تفسیر مختلف انداز میں بیان کرتا رہتا ہے ۔ کرائسٹ چرچ کے حملے کا جس قدر چرچا ہوا اوسلو پر اتنی گفتگو نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کرائسٹ چرچ میں ۵۱ لوگ شہید ہوگئے تھے جبکہ اوسلو میں کوئی مارا نہیں گیا۔ کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پرحملہ ہوا اور دونوں مقامات پر اس کو روکنے کی کوشش بھی ہوئی مگر اس کا ذکر بھی کم ہوا ۔ مسجد نور جہاں ۴۲ لوگ شہید ہوئےتھے ایبٹ آباد کے پچاس سالہ نعیم رشید نے حملہ آور سے بندوق چھیننے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے اوراپنے بیٹے طلحہ سمیت شہید ہوگئے مگر کئی لوگوں کو محفوظ رکھنے کامیابی حاصل کی ۔ نعیم کا بھائی خورشید عالم محسوس کرتاہے کہ اس کا ایک بازو کٹ گیامگر اسےاپنے بھائی کی جرأتمندی پر فخرہے۔حکومت نے انہیں بعد از مرگ اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیا ۔ حملہ آور جب مسجد النور سے نکل کر لین وو ڈ کی مسجد میں قتل و غارتگری کے لیے پہنچا تو وہاں بھی اس بندوق بردار دہشت گرد پر افغانی نژاد عبدالعزیز وہاب زادے نے کارڈ ریڈر پھینک کر مارا ۔ ا س کے بعد حملہ آور کی کار کے قریب پڑا پستول اٹھاکر اس پر فائر کیا۔ بدقسمتی سے اس میں کارتوس نہیں تھے اس لیے گاڑی پر اسے پھینک کر مار دیا۔ اس کے بعد حملہ آور وہاں سے فرار ہوگیا۔

اوسلو کا دہشت گرد فلپ مینشاؤس سماجی رابطے کےذرائع ابلاغ پر اعتراف کرچکا ہے کہ اسے حملے کے لیے کرائسٹ چرچ کے حملہ آور نے ’منتخب‘کیا ہے۔ وہ اپنے ناپاک عزائم میں اس لیے ناکام رہا کیونکہ اوسلو کی النور مسجدمیں موجود پینسٹھ سالہ محمد رفیق نے باہر ہونے والی فائرنگ کی آواز سنی تو دوڑ کر اس پر ٹوٹ پڑے اور نیچے گرا کرقابو پا لیا۔ اس مدا فعت میں مسجد کے اندر موجود دومصلیان نے محمد رفیق کا ساتھ دیا۔ زرہ بکتر اور آہنی ٹوپی پہنے حملہ آور نے اپنی پوری انگلی رفیق کی آنکھ میں گھسا دی جس سے وہ معمولی زخمی ہوئےلیکن اس پر اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی بلکہ اس سےبندوق چھین کر دور پھینک دی اور اسے پولس کے حوالے کردیا ۔ پاکستانی فضائیہ کےاس سابق اہلکار سے جب پوچھا گیا کہ کیا ان پر گولی چلائی گئی تو وہ بولے‘ اس وقت میں حملہ آور کو روکنے پر اس قدرمتوجہ تھا کہ گولی کے لگنے پر ہی اس کا پتا چلتا’۔ یہ واقعہ علامہ اقبال کے اس شعر کی تعبیر ہے ؎

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اوسلو اور کرائسٹ چرچ میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بیچ کمال کی مشابہت ہے۔ دونوں مساجد کا نام النور ہے۔ اس نورکو بجھانےکے لیے کوشاں نام نہاد اعلیٰ مغربی تہذیب کے پروردہ عیسائیوں کو اپنے سفید فام نسلی تفاخر پر گھمنڈ ہے۔ ان دونوں کے دل میں اسلام سے بغض اور مسلمانوں سے نفرت ہے ۔ان میں سے کوئی بھی اپنی حرکت پر نادم نہیں ہے ۔ اس بہیمانہ حملے کے لیے نہ کوئی ان کے عقائد و مذہبی تعلیمات کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے اور نہ کسی میں یہ جرأت ہے کہ یوروپی تہذیب وتمدن پر انگشت نمائی کرے ۔ ان انتہاپسند نظریات و افراد سے امن عالم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اس لیے ان کے خلاف کسی قسم کی مشترکہ جدوجہدکو ضروری نہیں سمجھا جاتا اور اسے انفرادی عمل قرار دے کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ملا کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرنے والے مغرب زدہ دانشوراپنی روشن خیالی بچانے کے لیےاس جانبدارانہ اور منافقانہ رویہ کی مذمت نہیں کرتے جبکہ اللہ کے محبوب بندے ‘ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے’(المائدہ ۵۴) ۔ وطن عزیز میں مدافعت کی خبرپہلےآسنسول سے آئی جہاں محمد کبیر نے جئے شری رام کے اصرار پرسورج بہادر کا سرقلم کردیا اور پھر پلول میں گئورکشک گوپال ہجومی تشدد کے لیے ساتھیوں کو جمع کرتے ہوئے گولی سے ہلاک ہوگیا۔ اب ایم پی سے اسلم نامی نوجوان کے ذریعہ تین حملہ آوروں کے ہلاک ہونے کی خبر گونج رہی ہے ۔

Comments are closed.