کیا کشمیری واقعی خوش ہیں؟

نازش ہما قاسمی
۵؍اگست کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہوا تھا آج اسے دوہفتے سے زائد ہوچکے ہیں، وہاں مواصلات اور دیگر نظام بند ہے۔ اسکول خال خال کھلے ہیں ۔لیکن طلبہ ندارد ہیں ۔۔۔سڑکیں سنسنان ہیں، گھروں میں ماتم پسرا ہوا ہے۔ حکومت عوامی زندگی کو پٹری پر لانے کی ہر ممکن کوشش میں لگی ہے تاکہ وہاں حالات سازگار ہوجائیں ۔۔۔وزیر اعظم نے یوم آزادی سے قبل وہاں کے نظام مواصلات بندکیے جانےکے بعد ان سے ’’براہ راست‘‘ گفتگو بھی کی تھی اور انہیں حوصلہ بھی دیا تھا ۔۔ ہوسکتا ہے ان کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے علاحدگی پسند کشمیری وفاق ہندوستان کی حامی بھرلیں اور تشدد سے باز آجائیں ۔۔۔ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ جنت ارضی میں جہنم کا سماں نہ ہو۔ ہمارا بھی یہی ماننا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور کشمیر سے ہم کبھی دست بردار نہیں ہوسکتے ۔۔۔لیکن جس طرح وادی کشمیر سے ہمیں محبت ہے اور وہ ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اسی طرح کشمیریوں سے بھی محبت ہونی چاہیے ۔ اگر ہم طاقت کے بل پر ان سے کچھ منوائیں گے تو وقتی طور پر تو وہ زیر ہوجائیں گے لیکن جو نفرت ان کے دلوں میں پروان چڑھے گی وہ نسلوں تک جائے گی جس کا انجام انتہائی ڈروانا و بھیانک ہوسکتا ہے۔ ۔۔خیر وہاں کرفیو زدہ ماحول میں دو ہفتوں سے زائد اسی لاکھ کی آبادی بے سروسامانی کے عالم میں پڑی ہوئی ہے ۔۔۔کوئی پرسان حال نہیں ۔۔ملکی میڈیا تو تمام تر حالات کے سازگار ہونے کا دعوی کررہا ہے؛ لیکن بین الاقوامی میڈیا گاہے گاہے وہاں کی خبروں کو نشر کررہا ہے جس سے تشویش لاحق ہورہی ہے ۔ ملکی میڈیا کے مطابق کشمیر میں سب ٹھیک ٹھاک ہے، کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم کئے جانے سے کشمیری بہت خوش ہیں تو یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ ” کیا کشمیری واقعی خوش ہیں؟ اگر جنت ارضی کے مکین واقعی خوش ہیں تو وہاں کے لوگوں کو خوشی مناتے ہوئے کیوں نہیں دکھایا جاتا ہے۔۔؟ مواصلاتی نظام کو آخر کیوں بند رکھا گیا ہے۔۔۔؟ اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے تو کشمیر کے حالات کیوں نہیں دکھائے جارہے ہیں؟ کشمیر کے حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہاں مریض اسپتالوں میں دم توڑ رہے ہیں ، نظام زندگی مفلوج ہوچکا ہے ، نوجوان بچے بچیاں بینائی کھورہے ہیں، اگر کچھ دن اور کرفیو میں ڈھیل نہ دی گئی تو بھکمری عام ہوجائے گی ۔ بچوں کے بلکنے کی آوازیں ہر گلی اور ہر گھر سے سنی جائے گی، توانا جسم نقاہت سے چور ہوجائیں گے۔ خوشنما چہرے مایوسی کا لبادہ اوڑھ لینگے۔ لوگ سوال کررہے ہیں کہ کشمیر کو دوسرا غزہ بنانے کی تیاری تو نہیں چل رہی ؟ وہاں پہلے سے موجود فوج کے علاوہ تیس ہزار فوج جو کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم کرنے سے پہلے بھیجی گئی تھی اس پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں بعضوں کا کہنا ہے کہ تیس ہزار فوج کے لباس میں شدت پسند ہندو دہشت گرد غنڈوں کو بھیجا گیا ہےاور انہیں مکمل چھوٹ دی گئی ہے کہ جس طرح چاہو کشمیریوں کو مارو کاٹو، ان کی لڑکیوں کی عصمت سے کھلواڑ کرو۔ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہاں فوج نوجوان لڑکے اور دوشیزائوں کو ان کے گھروں سے اُٹھا کر لے جارہی ہے ، ہمیں اپنی فوج پر بھروسہ ہے وہ ایسا غلیظ اور انسانیت سوز کام نہیں کرسکتی ۔ لوگ افواہ پھیلا کر یہاں کے حالات کو سازگار نہیں ہونے دیناچاہتے ہیں، ہماری فوج کو بدنام کرکے ملک کے شہریوں سے فوجیوں کی محبت کو ختم کرناچاہتے ہیں ، ہمیں امید ہے کہ یہ صرف الزام ہے؛ لیکن اگر اس الزام میں ذرہ برابر بھی صداقت ہوئی تو یہ اچھی بات نہیں ہوگی؛ بلکہ جمہوریہ ہند کے لیے شرمناک بات ہوگی جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ملک کا سر شرم سے جھک جائے گا۔
کیا ہم سوچ سکتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہر طرح کی سہولیات سے محروم کشمیر میں آخر کس طرح عیدالاضحی کا تیوہار منایا ہوگا ؟ کس طرح ان کے روز مرہ کے کام ہورہے ہوں گے، شاید ہندوستان کے مسلمانوں نے نہیں سوچا ہوگا کہ وہ کس طرح دوہفتوں سے گھروں میں محصور ہیں ، اپنے مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں لاسکتے ، اپنے عزیزواقارب کے احوال سے واقف نہیں ہوسکتے ،اپنے بچوں کی خبر نہیں لے سکتے؛ کیونکہ واقفیت کا کوئی نظام ہی نہیں ۔ مواصلات میں ذرا سی ڈھیل دی گئ تھی ۔ نظام چالو بھی ہوا تھا بعض جگہوں پر ، لیکن پھر افواہوں کے بازار گرم ہونے کے بعد سے ٹھپ ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی حکومت وہاں کے حالات کو ساز کرکے کشمیر کو امن وسکون کا گہوارہ بنا دے گی۔ حکومت کے چار نکاتی پروگرام جس میں پتھربازوں کی کونسلنگ، اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں پر لگام ، دراندازوں کے خلاف سخت کارروائی وغیرہ ہے اگر اس پر خلوص نیتی سےعمل درآمد ہوجائے تو ممکن ہے جلد ہی حالات سازگار ہوجائیں۔ کشمیر کے لیے ملک کے مسلمان صرف دعا کرسکتے ہیں اور پرامن احتجاج ۔۔۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت سے سوال کریں کہ آپ کا دعوی جو ہے کہ وہاں حالات سازگار ہیں لیکن بین الاقوامی میڈیا کچھ اور بتا رہا ہے ہم کس پر یقین کریں ۔ کیا واقعی کشمیری خوش ہیں تو ان کی خوشی کو دکھایا جائے ۔۔۔بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کی رپوٹورں سے تو نہیں لگتا کہ وہ خوش ہیں؛ بلکہ انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں ۔۔۔جنت ارضی جہنم کا نظارہ پیش کررہی ہے اور اگر کچھ دن تک یہی حالات رہے تو شاید کشمیر دنیا کا سب سے بڑا قبرستان بن جائے ؛ اس لیے حکومت جلد سے جلد وہاں کے حالات کو ساز بنائےتاکہ وہاں خوشیاں لوٹ سکیں۔اللہ کشمیریوں کی حفاظت فرمائے۔(آمین)
Comments are closed.