شریعت نے ہرشعبے میں حکمت، مصلحت اور سہولت کا نظریہ پیش کیا ہے

 

کچھ لوگ امام حضرات اور مسجد کے منتظمین پر تنقید کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور بِلا ضرورت بھی کچھ نہ کچھ بول کر مسجد کے ماحول کو غیر سنجیدہ بنادیتے ہیں ؛اس سے صرف امام صاحب یا منتظمین کو ہی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ تمام حضرات جو سکون کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے لو لگانے آتے ہیں وہ بھی ذہنی خلجان کے شکار ہوجاتے ہیں اور عبادت کا مزہ جاتا رہتا ہے۔

مدثر احمد قاسمی

کسی کام کوحالات، وقت اور تقاضا کے مطابق پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے بہتر نتائج اور فائدے بھی سامنے آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موقع کی مناسبت اور نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے انجام دیئے گئے کاموں سے عوام الناس نہ صرف بڑے پیمانے پر مستفید ہوتے ہیں بلکہ اُن کی زندگیوں میں ان سے کافی آسانیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے دینِ فطرت اسلام میں انسانی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حالت، وقت اور تقاضا کے مطابق احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصولی طور پر رمضان کے روزے ہر عاقل بالغ پر فر ض ہیں لیکن اسی کے ساتھ حالت اور ضرورت کے مطابق بیمار وں اور مسافروں کے لئے اس میں رخصت ہے کہ جو روزے اِن علتوں کی بنیاد پر چھوٹ جائے ان کو بعد میں رکھ لیں۔غور کریں کہ اگر بہر صورت رمضان کے روزوں کو لازم قرار دیا جاتا تو بیمار اور مسافر مشکل میں پڑ جاتے لیکن یہ اسلام کی خوبصورتی اور امتیاز ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کے بجائے حالات کے مطابق احکامات جاری کرنے کا یہاں ایک منظم اور منضبط نظام ہے۔

مذکورہ تمہید کو سامنے رکھتے ہوئےبقرعید کی نماز کے موقع پر پیش آمدہ واقعہ کے تناظر میں ذمہ دارانِ ملت ،علمائے امت اور عوام الناس کی خدمت میں چند معروضات پیش ہیں۔ راقم الحروف جہاں بقرعید کی نماز ادا کرنے گیا تھا وہاں مسجد سے باہر بھی کھلے آسمان کے نیچے کافی تعدادمیں بوڑھے،بچے اور جوان موجود تھے اور سخت گرمی و چلچلاتی دھوپ میں پسینے سے شرابور اور پریشان تھے۔چونکہ اندرونی حصے میں پنکھے بھی چل رہے تھے اور چھت کا سایہ بھی تھا اس وجہ سے امام صاحب کے ذہن سے باہر میں گرمی کی شدت والی بات نکل گئی اور نماز نسبتاً لمبی ہوگئی مزید براں اس کے بعد دعا سے پہلے لمبے خطبے اور چندے کے سلسلے نے لوگوں کو مزید بے چین کر دیا اور دھوپ سے پریشان لوگوں نے چہ می گوئیاں شروع کر دی۔دریں اثناحالات اس وقت اور نا گفتہ بہ ہوگئے جب ایک بچہ گرمی کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگیا۔

اس واقعہ کے تذکرہ سے ہر گز کسی پرتنقید مقصد نہیں ہے بلکہ شریعتِ مطہرہ نے اس تناظر میں جو ہدایات جاری کی ہیں اس کا دُہرانا پیشِ نظر ہے۔دیگر شعبوں کو اگر چھوڑ دیں اور صرف نماز کے باب کا ہی مطالعہ کریں تو نماز کو حالات اور تقاضے کے مطابق مختصر اور طویل کرنے کے تعلق سے بے شمار روایتیں ہمیں احادیث کے ذخیرہ میں ملتی ہیں۔چنانچہ سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :

"اگر تم ميں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہيے کہ وہ اسے مختصر کرے کيونکہ ان ميں کوئی بيمار، ناتوان اور بوڑھے بھی ہيں اور جب اکيلا اپنے لئے نماز ادا کرے تو جتنا چاہے اسے لمبا کرے۔” (صحیح بخاری: ۷۰۳) اسی طرح ایک اور روایت میں ہے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے ارشادفرمايا: "ميں جب نماز ميں کھڑا ہوتا ہوں تو ميں اسے لمبا کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر بچے کا رونا سنتا ہوں تو ميں اس کی ماں پر مشقت کو نا پسند کرتے ہوئے اپنی نماز کو مختصر کر ديتا ۔” (متفق علیہ)

مذکورہ دونوں احادیث میں تقاضے کے مطابق نماز کو مختصر کرنے کی تعلیم ہے اور اس تعلیم پر ہر اس وقت عمل کیا جائے گا جب جب ضرورت پیش آئے گی۔اسی کے ساتھ ہمیں یہ یاد بھی رکھنا چاہئے کہ جب حالات ساز گار ہوں ،اُس وقت سنت کے مطابق نمازمیں قرات ہونی چاہئے،بلا ضرورت امام صاحب کو مختصر نماز پڑھانے کے لئے آمادہ کرنا اور اُن پر دباؤ بنانا بھی با لکل مناسب نہیں ہے ۔کیونکہ امام صاحب اپنی مرضی کے مطابق ایسا نہیں کرتے ہیں بلکہ نبی اکرم ﷺ جیسی نماز پڑھانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔

یہاں ہم سب کے ذہن میں یہ بات ضرور رہے کہ جس طریقے سے ہم دنیاوی کاموں کے لئے معقول وقت نکالتے ہیں اور اُس وقت تک اُس میں لگے رہتے ہیں جب تک کہ وہ صحیح ڈھنگ سے مکمل نہ ہوجائے ؛اسی طریقے سے ہمیں دینی کاموں کے انجام دہی کے لئے بھی معقول وقت نکالنا چاہئے اور خانہ پُری والے طرزِ عمل سے باہر آنا چاہئے کیونکہ ہمارے اس دنیا میں آنے کا مقصد ہی عبادتِ الٰہی ہے۔

موضوع کی مناسبت سے یہاں ایک عوامی رجحان کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ امام حضرات اور مسجد کے منتظمین پر تنقید کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور بِلا ضرورت بھی کچھ نہ کچھ بول کر مسجد کے ماحول کو غیر سنجیدہ بنادیتے ہیں ؛اس سے صرف امام صاحب یا منتظمین کو ہی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ تمام حضرات جو سکون کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے لو لگانے آتے ہیں وہ بھی ذہنی خلجان کے شکار ہوجاتے ہیں اور عبادت کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ اس تعلق سے معقول طرزِ عمل یہ ہوناچاہئے کہ اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسجد میں انجام پانے والا کسی عمل یا کام میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو آپ ماحول کو ہنگامہ خیز بنانے کے بجائے ذمہ داروں سے بات کریں ؛اگر آپ کا مشورہ مناسب ہوگا تو وہ حضرات اس پر ضرور عمل کریں گے کیونکہ عوام الناس کی خدمت اور سہولت ہی شب و روز اُن کا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے زندگی کے ہر شعبے میں حکمت، مصلحت اورسہولت کا جو نظریہ پیش کیا ہے ،ذمہ داران ہمیشہ اُن کو پیشِ نظر رکھ کر ہی کسی فریضے کی ادائیگی کو یقینی بنائیں ؛اسی طریقے سے عوام الناس کو چاہئے کہ علماء و ذمہ داران کی عزت کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں تاکہ جانبین کے تعامل سے ایک خوبصورت اور مطلوبہ اسلامی معاشرہ تشکیل پا سکے۔

(مضمون نگار انگریزی رسالہ ایسٹرن کریسنٹ ،ممبئی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر اور روزنامہ انقلاب ممبئی میں ڈیلی کالم نگار ہیں۔([email protected]

 

 

Comments are closed.