Baseerat Online News Portal

ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی

 

نامور فقیہ شیخ محمد مختار سلامی کی رحلت

 

مولانا بدر الحسن القاسمی(کویت)

 

دوشنبہ ۱۹؍اگست ۲۰۱۹ء کو تیونس کے سابق مفتی اعظم بلند پایہ فقیہ اور نامور عالم دین شیخ محمد مختار سلامی اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور۹۴؍سال کی عمر میں انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون۔

مختلف سمیناروں، فقہی کانفرنسوں اور کویت، جدہ، مکہ مکرمہ اور دبئی منعقد ہونے والی علمی مجلسوں میں شرکت کی وجہ سے مرحوم شیخ سے ایک طرح کا قریبی تعلق پیدا ہوگیا تھا وہ فقہ مالکی پر عبور رکھنے کے ساتھ جدید مسائل کے حل کا بھی خاص ذوق اور سلیقہ رکھتے تھے اور کانفرنسوں میں پوری حاضر دماغی سے شریک ہوتے، مقالات لکھتے اور بحث ومناقشہ میں بھرپور حصہ لیتے تھے، اور مختلف مسائل میں اپنی رائے سے ضرور نوازتے تھے۔

شیخ محمد مختار سلامی اس عہد کی یادگار تھے جس میں نابغہ روزگار ہستیاں تیار ہوتی تھیں اور پرانی نسل کے نامور علماء اپنے فیض صحبت سے اپنے جانشیں تیار کیا کرتے تھے۔

علامہ محمد الطاہر ابن عاشورؒ اور ان کے صاحبزادے شیخ محمد الفاضل ابن عاشورؒ، شیخ محمد مختار سلامی کے خاص اساتذہ میں رہے ہیں عرصہ تک تدریس کے مشغلہ میں رہنے کے بعد ۱۹۸۴ء میں انہیں شیخ محمد الحبیب بلخوجہ کی جگہ پر تیونس کا مفتی عام منتخب کیا گیا تھا چنانچہ وہ ۱۹۹۸ء تک اس منصب پر فائز رہے۔

انہوں نے قیاس، مقاصد شریعت، اجتہاد وتجدید اور اسلام کے سیاسی نظام جیسے موضوعات پر اپنی گرانقدر تصنیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں اور عمر کے آخری سالوں میں انہوں نے ‘‘نہج البیان فی تفسیر القرآن’’ کے نام سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے جو چھ جلدوں میں شائع شدہ ہے، اس سے پہلے انہوں نے مازری کی شرح ‘‘التلقین’’ کو ایڈٹ کرکے شائع کیا تها۔

اس کے علاوہ ‘‘الفتاوی الشرعیہ’’ کے نام سے ان کے منتخب فتاوی کا مجموعہ اور اسي طرح ان کے جمعہ کے خطبوں کا مجموعہ بھی لائق مطالعہ ہے۔

شیخ محمد مختار سلامی فقہاء کے درمیان عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے اور علم وفضل میں امتیازی حیثیت رکھنے کی وجہ سے اپنے ملک میں ان کو متعدد تمغوں سے نوازا گیاتها اس کے علاوہ ۲۰۰۱ء میں ‘‘کویت فاؤنڈیشن برائے سائنسی ترقیات’’ اور ‘‘اسلامی تنظیم برائے طبی علوم’’ کی طرف سے اور ۲۰۰۷ء میں ‘‘اسلامک ڈپلومینٹ بنک جدہ’’ کی طرف سے خصوصی انعامات سے بھی نوازا گیا۔

جدہ کی معروف شخصیت اور ‘‘دلۃ البرکہ’’ کمپنی کے مالک شیخ صالح کامل نے جب اسلامی بینک کاري کے لئے ایک الگ شرعی نگراں بورڈ تشکیل دیا تاکہ اس الزام کو دور کیا جاسکے کہ شرعی بورڈ کے ارکان مالی طور پر چونکہ بینکوں سے جڑے ہوتے ہیں اس لئے ان کی رائے آزاد نہیں ہوتی تاكه ان کے فتاوی کو طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے اس مقصد سے ‘‘هیئۃ الرقابة والتصنیف’’ کے نام سے ایک آزاد بورڈ قائم کی جائے جو کسی متعین بینک سے جڑا نہ ہو۔

اس کے لئے انہوں نے عالمی فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبد السلام العبادی، مکہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری شیخ صالح بن زابن المرزوقی، شئون حرمین کے اس وقت کے رئیس شیخ صالح الحصین سوڈان کے ڈاکٹر ابراہیم الضریر اور برصغیر سے ڈاکٹر محمود احمد غازی اور بدر الحسن القاسمی کا انتخاب کیا تھا۔ ڈاکٹر عبد الستار ابوغدہ اور عبد الباری مشعل بھی اس بورڈ میں شامل تھے لیکن جس شخصیت کو اس بورڈ کی سربراہی کے لئے منتخب کیا گیا تھا وہ شیخ محمد مختار السلامی تھے جو اس بورڈ کے صدر تھے۔

اس بورڈ کے اجلاس میں بھی شیخ کی علمی عظمت اور فقہی بصیرت کا نقش لوگوں کے دلوں پر قائم ہوتا رہا گو کہ اسلامی مالیاتی اداروں کی آزاد روی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے دوڈھائی سالوں سے زیادہ اس بورڈ کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔

۲۰۰۷ء میں کویت کی ‘‘المنظمۃ الاسلامیہ للعلوم الطبیۃ’’ (اسلامی تنظیم برائے طبی علوم) کی طرف سے مصر کے دار الحکومت قاہرہ میں ‘‘الهندسۃ الوراثیة’’(جنیٹک انجینئرنگ) کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلم فقہاء کے ساتھ عیسائی پادری اور یہودی حاخام بھی شریک تھے۔

ایک اسرائیلی خاتون بڑی بے باکی کے ساتھ رحم مادر میں جنین کے نشو ونما اور (D.N.A) جانچ کی حقیقت اور مرد کے مادہ منوی کے عورت ك بیضہ میں داخل ہونے کے بعد ‘‘لقیحہ’’ کے تیار ہونے کی تفصیلات کو پروجیکٹر کے ذریعہ سے سمجھا رہی تھی تو شیخ محمد مختار سلامی نے اس سے سوال کردیا۔

یہ بتاؤ کہ ایک مسلمان مرد کا نطفہ یہودی عورت کے بیضہ میں ڈالا جائے یا اس کے رحم میں داخل کیا جائے تو وہ بچہ مسلمان ہوگا یا یہودی؟

اس نے اتنی ہی جرأت وبیباکی سے کہا کہ اول تو اسرائیلی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ آبادی بڑھے چاہے جس طریقہ سے ہو۔

دوسرے یہ کہ بچہ کے مسلمان یا یہودی ہونے کا مسئلہ مجھ سے نہیں سامنے بیٹھے یہودی رِبّی یا حاخام سے پوچھيے میرا کام فتوی دینا نہیں ہے۔

حاخام نے کہا کہ بیٹی یہ مت کہو ان سے کہو کہ جس طرح آپ کے یہاں فقہاء کی آراء مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ہمارے یہاں بھی دونوں طرح کی رائیں ہیں۔

اسی کانفرنس میں ایک اور واقعہ یہ پیش آیا کہ ایرانی صدر کے مشیر اور مشہور ایرانی فقیہ شیخ علی تسخیری نے ایک مختصر مقالہ پڑھا جس میں کہا كه عورت کے رحم کو اجرت پر لے کر دوسرے مرد وعورت کے مادہ سے تیار ہونے والے ‘‘لقیحہ’’ کا جنین تیار کیا جاسکتا ہے اس طرح اصل ماں حمل کے بار سے محفوظ رہ سکتی ہے۔

اس پر بھی شیخ محمد مختار سلامی نے اعتراض کیا اور قرآن کریم کی آیت (إن أمہاتہم إلا اللائی ولدنہم) پڑھی، شیخ تسخیری نے کہا کہ یہ آیت ظہار سے متعلق ہے اس کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں ‘‘دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرنے کی ممانعت آئی ہے’’ (لا یسقی أحدکم زرع غیرہ) اس پر بھی تسخیری صاحب بول پڑے کہ ‘‘لقیحہ’’ تیار ہوجانے کے بعد اس میں ‘‘سیراب’’ کرنے کا امکان ہی ختم ہوجاتا ہے۔

پھر میں نے صدر جلسہ سے اجازت لئے بغیر مداخلت کرتے ہوئے عرض کیا کہ قرآن کریم نے (نساءکم حرث لکم) کہا ہے اس لئے کسی غیر کے مادہ کو داخل کیا جائے یا اس سے تیار شدہ پودا (شتلہ) دونوں ہی حرام ہوں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن نے مطلقہ عورت اور اسی طرح وہ عورت جس کا شوہر وفات پاجائے اس کے لئے ‘‘عدت’’ رکھی ہے تاکہ ‘‘استبراء حمل’’ کا مقصد پورا کیا جائے، لہذا دوسری عورت کا رحم کسی اور کے حمل کو جنین کی شکل دینے کے لئے کرایہ پر حاصل کرنا کسی طرح جائز نہیں ہوگا۔

تسخیری صاحب اس کے بعد بھی حجت کرتے رہے کہ تم اسے ‘‘زنا’’ سمجھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اصطلاحی مفہوم میں اس پر ‘‘زنا’’ کا اطلاق ہو یا نہ ہو لیکن زنا سے بھی یہ بدتر شکل ہے، اس کی پوری داستان میں کانفرنس کی رپورٹ میں پہلے لکھ چکا ہوں یہاں تو صرف یہ بتلانا مقصود تھا کہ مرحوم شیخ محمد مختار سلامی کانفرنسوں میں بے حد حاضر دماغی سے شریک ہوتے اور کوئی غلط بات ہوتی تو اس پر تنقید کرنے میں اوروں سے پیش پیش ہی رہتے تھے۔

شیخ محمد مختار سلامی کے ساتھ ہمارا ایک یادگار سفر ۱۳۲۸ھ کا موسم حج تھا جس میں سعودی عرب کی وزارت حج کی دعوت پر ہم سبھوں کو حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی اور ‘‘ندوۃ الحج الکبری’’ میں ‘‘حجۃ الوداع کی روشنی میں دینی شعائر کے تہذیبی اثرات’’ کے موضوع پر مقالہ پیش کرنے کا بھی موقع ملا۔

اس سفر میں جواں مرگ برخوردار محمد بدر القاسمی بھی میرے ساتھ تھا۔

اس موقع پر حج کے دیگر ساتھیوں میں مصر کے ڈاکٹر زغلول النجار، تیونس کے ڈاکٹر عبد الحمید النجار اور ڈاکٹر نور الدین الخادمی جو بعد میں تیونس میں وزیر اوقاف کے منصب پر بھی فائز ہوئے مقاصد شریعت پر ان کی کئی کتابیں معروف ومتداول ہیں اور ڈاکٹر زغلول النجار قرآن کریم کے علمی اعجاز کے علمبرداروں میں ہیں۔

وزارت حج کا انتظام تو شاہانہ ہوتا ہے لیکن مہمانوں کو حج کے ارکان کی ادائیگی کا لطف بھی حاصل ہو اس کے لئے ہمیں شیخ محمد مختار سلامی کا سہارا لینا پڑا تھا۔

میدان عرفات کے خیمہ میں جب یہ محسوس ہوا کہ سامان راحت کا اثر ہم مہمانوں پر پڑرہا ہے اور لوگ نیم دراز ہوتے جارہے ہیں تو میں نے حضرت شیخ محمد مختار سلامی کو توجہ دلائی انہوں نے پھر دعا وانابت کی لذت سے ہم سبھوں کو سرشار کردیا اور لمبی وپرتأثیر دعا کرائی تو میدان عرفات میں ہونے کا لطف محسوس ہوا اور ہر کوئی سرتا پا دعاء واستغفار اور خشوع وانابت نظر آنے لگا۔

مرحوم شیخ سلامی اب رب کائنات کی آغوش رحمت میں پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے علم نافع کے ساتھ عمل صالح کے بهي نقوش چھوڑے ہیں۔

مخصوص تیونسی لباس میں بڑھاپے کی وجہ سے کسی قدر خمیدہ کمر کے ساتھ علم وعمل کا متحرک مجسمہ تها موہنی صورت، حاضر دماغی اور نیک سیرت کے ساتھ ان کی یاد عقیدت کشیوں کو برابر آتی رہے گی۔

اللہ تعالی انہیں فردوس بریں میں جگہ دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔

 

Comments are closed.