چدمبرم شاہ جنگ

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے
شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز/ سرپرست ایڈیٹر بصیرت آن لائن )
پی چدمبرم یوں پکڑے گئے جیسے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے مجرم ہوں!
تفتیشی اہلکاران نے ان کے بنگلے کی دیواریں پھاندیں اور انہیں دھردبوچا۔ جیسے یہ خطرہ رہا ہو کہ اگر چدمبرم ہاتھ سے نکلے تو ہمیشہ کےلئے نکل جائیں گے، جیسے کہ وجئے مالیا او ر نیروامودی! تفتیشی اہلکاران نے یہ تک لحاظ نہیں کیا کہ وہ جسے پکڑنے جارہے ہیں وہ اس ملک کا سابق وزیر خزانہ بھی رہا ہے اور سابق وزیر داخلہ بھی! گرفتاری کا منظر دیکھ کر راحت اندرویؔ کا شعر یاد آگیا؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
مانا کہ ان پر آئی این ایکس میڈیا معاملے کے تحت مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات ہیں، یہ بھی مانا کہ مزید چھان بین کے لئے ان کی گرفتاری ضروری تھی، پر گرفتار ی کے طریقۂ کار پر نہ صرف حیرت ہے بلکہ یہ جو کہا جارہا ہے کہ ملک کے موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ۲۰۱۰ء کی اپنی گرفتاری کا بدلہ لیا ہے، وہ بھی غلط نہیں لگتا ہے۔ ویسے بھی ان دنوں ’سیاسی گرفتاریوں‘ یا ’سیاسی تفتیشی کارروائیوں‘ کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ مہاراشٹر نو نرمان سینا (منسے) کے سربراہ راج ٹھاکرے سے لے کر این سی پی لیڈر اجیت پوار بلکہ مہاراشٹر کے مرد آہن شردپوار تک ’تفتیش‘ کے دائرے میں ہیں۔ ہاں وہ سیاستدان جو حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں، لاکھ الزامات کے باوجود ہر طرح کی تفتیش سے بچے ہوئے ہیں۔
جب آج کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو ۲۵؍ جولائی ۲۰۱۰ء کے روز، سہراب الدین مڈبھڑ معاملہ میں گرفتار کیا گیا تھا تب پی چدمبرم ملک کے وزیر داخلہ تھے۔شاہ کی گرفتاری بھی چدمبرم کی گرفتاری ہی کی طرح انتہائی ڈرامائی تھی۔ تین مہینہ تک امیت شاہ کو سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا تھا۔ شاہ پر قتل ‘جبراًبھاری بھاری رقومات کی وصولی اور اغواء تک کے سنگین الزامات لگے تھے۔ تین مہینے بعد ۲۹؍اکتوبر ۲۰۱۰ء کو گجرات ہائی کورٹ نے شاہ کی درخواست ضمانت منظور کی لیکن دوسرے دن، جبکہ عدالت بند تھی، جسٹس آفتاب احمدان کے گھر پٹیشن لے کر پہنچے اور ان کے گجرات میں قدم رکھنے پر پابندی عائد کردی۔ ۲۰۱۰ء سے لے کر ۲۰۱۲ء تک امیت شاہ گجرات بد ررہے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ شاہ نے دہلی کے ’گجرات بھون‘ کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ بعد میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی کی درخواست پر ضمانت بھی رد کردی۔ ۲۰۱۲ء میں کہیں جاکر انہیں عدالت ِ عظمیٰ سے ضمانت مل سکی۔ کہا جاتا ہیکہ اس سارے معاملے میں اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم کا کردار سب سے اہم تھا۔ صرف امیت شاہ کے ’کارناموں‘ کی تفتییش ہی میں نہیں پی چدمبرم نے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی چھان بین میں بھی گہری دلچسپی لی تھی۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے داغ سے مودی آج تک پیچھا نہیں چھڑا سکے ہیں۔ ۲۰۱۰ء میں اس خصوصی تحقیقاتی دستے (SIT )نے جو گجرات فسادات کی چھان بین کیلئے ذکیہ جعفری کی ایماء پر سپریم کورٹ نے تشکیل دیا تھا، مودی سے پوچھ تاچھ بھی کی تھی۔ ان دنوں چدمبرم ہی وزیر داخلہ تھے۔ اس دور میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت اور اسیمانند کی تفتیش کا دائرہ بھی وسیع کیا گیا تھا۔ ان سب کا تعلق راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) سے ہے۔ سادھوی پرگیہ ،کرنل پروہت اور اسیمانند مختلف جگہ ہونے والے بم دھماکوں کے ملزم ہیں۔ پی چدمبرم، آر ایس ایس کے اتنے ہی سخت ناقد ہیں جتنے کہ کانگریس کے ایک اور قائد دگ وجئے سنگھ۔ ۲۰۰۷ء میں سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکوں کے بعد یہ دونوں ہی تھے جنہوں نے ’بھگوا دہشت گردی‘ اور ’ہندو دہشت گردی‘کی اصطلاحوں کو عام کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس کی نظر میں یہ ان دونوں کا بڑا ’گناہ‘تھا۔ بی جے پی کے لئے بھی ’دہشت گردی‘ کے لفظ کو ’ہندو‘ یا ’بھگوا‘ ان لفظوں سے جوڑنا ناقابلِ قبول رہا ہے۔ اور دونوں نے کئی بار احتجاج بھی کیا کہ لفظ دہشت گردی کو ’ہندو‘ یا ’بھگوا‘ سے جوڑ کر ایک مخصوص مذہب کونشانے پر نہ لیا جائے۔ یہ اور بات ہےکہ سنگھ پریوار بشمول بی جے پی کو دہشت گردی کو ’مسلم‘ یا ’اسلام‘ سے نتھی کرنے سے کبھی عار نہیں محسوس ہوا۔ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا بھوپال سے دگ وجئے سنگھ کے خلاف الیکشن لڑنا اس پس منظر میں بھی دیکھا جانا چاہئے۔ اور پی چدمبرم کی گرفتاری بھی۔ یہ دونوں ہی آر ایس ایس اور بی جے پی کے نشانے پر رہے ہیں۔ بھگوا عناصر کو موقع کی تلاش تھی کہ کسی طرح انہیں گھیر سکیں، بھوپال میں دگ وجئے سنگھ کو ہرا کر اور سادھوی کو جِتا کر ان ’بھگوا عناصر‘ یا ’ہندوتوادیوں‘ نے ایک ’نشانے‘ کو تو ٹھکانے لگا دیا تھا پر دوسرا ’نشانہ، چدمبر م بچے ہوئے تھے۔ پر آج کے حالات میں وہ کب تک بچ سکتے تھے! آئی این ایکس میڈیا معاملے میں مالی بے ضابطگیوں کے الزامات نے ان عناصر کو، بالخصوص امیت شاہ کو، چدمبرم کو ٹھکانے لگانے کا موقع فراہم کر دیا۔ گویا یہ کہ سابق مرکزی وزیر داخلہ سے حالیہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنی گرفتاری، گجرات بدری اور سیاسی رسوائی و ذلّت کا بدلہ چکادیا۔
مگر امیت شاہ اور پی چدمبرم کے معاملات میں بڑا فرق ہے۔ جب امیت شاہ گرفتار ہوئے تھے تب گجرات میں مڈبھیڑوںکا، بالخصوصی مسلم نوجوانوں کے مڈبھیڑوں کا ایک سلسلہ شروع تھا، یہ الزام لگ رہا تھا کہ یہ ’فرضی مڈبھیڑیں‘ ہیں اور ان کا مقصد جہاں مسلم قوم کو خوفزدہ کرنا ہے وہیں نریندر مودی کو ’ہندو ہردیہ سمراٹ‘ بنانا بھی ہے۔ گجرات میں ممبئی کے ممبرا علاقے کی ایک طالبہ عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کے مڈبھیڑ کو کون بھلا سکتا ہے! الزام تھا کہ عشرت جہاں اور اسکے ساتھی نریندر مودی کو قتل کرنے کےلئے احمد آباد میں داخل ہوئے تھے۔ یہ گجرات ۲۰۰۲ء کے مسلم کش فسادات کا انتقام لینا چاہتے تھے۔ یہ مڈبھیڑ آج تک ’فرضی‘ ہی کہا جاتا ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں ڈی جی ونجارا سمیت کئی اعلیٰ پولیس افسران کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا لیکن ہنوز کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے۔ سہراب الدین کے مڈبھیڑ کے ساتھ اس کی بیوی کوثر بی کے قتل کی المناک کہانی بھی اسی دور کی ہے۔ اس دور میں بدمعاشوں کا استعمال کرکے لوگوں سے بھاری رقومات کی وصولی کے معاملات بھی سامنے آئے تھے۔ امیت شاہ پر گجرات فسادات کی چھان بین کرنے والے پولیس کے اعلیٰ اہلکاران پر ‘بشمول آر بی سری کمار اور سنجیو بھٹ، دبائو ڈالنے کا بھی الزام لگا تھا۔ یہ تمام معاملات اب ’ٹھنڈے بستے‘ میں جا پڑے ہیں۔
جہاں تک پی چدمبرم کا سوال ہے تو معاملہ نہ فرقہ ورانہ فسادات کا ہے اور نہ فرضی مڈبھیڑوں کا‘ معاملہ کروڑ ں روپئے کی ہیرا پھیری کا ہے۔ ۲۰۰۶ءمیں پہلی دفعہ بی جے پی کے ایک لیڈر سبرامنیم سوامی نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ چدمبرم کے بیٹے کیرتی چدمبرم کی ایک کمپنی نے قوانین کی خلاف ورزی کرکے کروڑوں روپئے حاصل کئے ہیں۔ انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور سی بی آئی دونوں ہی ایجنسیوں نے اس معاملے کی تفتیش کی ہے اوردونوں ہی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس چدمبرم کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ چدمبرم الزامات سے انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا ہیکہ ای ڈی اور سی بی آئی کو ان کے خلاف ’سیاسی انتقام‘ کےلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکا چھپا سچ نہیں ہے کہ اس ملک میں جو بھی سیاسی پارٹی مرکز پر قابض ہوئی ہے وہ سی بی آئی اور دوسری ایجنسیوں کا استعمال کرتی رہی ہے۔کانگریس کا بھی یہی کہنا ہے۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی نے گرفتاری کو ’سیاسی انتقام‘ قرار دیا ہے۔ ’سیاسی انتقام‘ کا الزام کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ یہ تو’سیاسی پنڈت‘ جانیں پر چدمبرم کی ڈرامائی گرفتاری سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔ یہ سوال دریافت کیا جارہا ہے کہ کیا اس طرح سے گھر کی دیواریں کود کر ایک ایسے شخص کو جو ملک کا وزیر خزانہ اور وزیر داخلہ رہا ہو گرفتار کیا جانا ٹھیک ہے؟ اگر یہ ٹھیک ہے تو آئندہ کےلئے یہ ایک ایسی روایت، بن سکتی ہے جس پر دوسری سیاسی پارٹیاں بھی عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گی۔ اور سارا سیاسی نظام ’انتقامی‘ رنگ میں رنگ جائے گا۔
لیکن ،چدمبرم کی گرفتاری ایک عبر ت بھی ہے۔ ماناکہ پی چدمبرم نے ’ہندوتوادیوں‘ کے خلاف سخت اقدامات کیے لیکن وہ کسی بھی معاملے کو ’منطقی انجام‘ تک نہیں پہنچا سکے۔ نہ گجرات فسادات کے بنیادی ملزمین سلاخوں کے پیچھے پہنچے، نہ ہی عشرت جہاں اور سہراب الدین و کوثربی کے قاتل اور نہ ہی بم دھماکے کرنے والے دہشت گردوں کو وہ سزائیں ملیں جو انہیں ملنا تھیں۔
چدمبرم سے قبل مرکزی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل تھے۔ ان کے دور میں ۱۹؍ ستمبر ۲۰۰۸ء کو دہلی میں ’بٹلہ ہائوس انکائونٹر‘ ہوا تھا جس میں دو مسلم نوجوان مارے گئے اور دو گرفتار کئے گئے تھے۔ اس مڈبھیڑ نے جو سوالات اٹھائے تھے وہ آج بھی برقرار ہیں۔ تضادات کو آج تک نظر انداز کیا جارہا ہے۔ دگ وجئے سنگھ نے اس ’مڈبھیڑ‘ پرسوالات اٹھائے تھے، سلمان خورشد اور مرحوم عبدالرحمن انتولے نے بھی اس پر انگلیاں اٹھائی تھیں۔ اس معاملے میں جو بچّے مارے اور پکڑے گئے ان کے والدین آج تک اپنے بچوںکو بے گناہ ہی قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے کی صاف شفاف انکوائری کے مطالبے کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑایا جاتا رہا ہے۔جب شیوراج پاٹل کی جگہ ۲۰۰۸ء میں پی چدمبرم وزیر داخلہ بنے تھے تب انہوں نے واضح لفظوں میں یہ کہہ کر کہ ’’وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھانے کے بعد اس معاملے کی چھان پھٹک کی گئی ہے اور ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ مڈبھیڑ فرضی نہیں حقیقی ہے‘‘ انکوائری کے مطالبے کو رد کردیاتھا۔چدمبرم کے اس بیان کے بعد مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ’انڈین مجاہدین‘ کا خوف لوگوں پر طاری کردیا گیا تھا۔ اعظم گڑھ کو آتنک گڑھ قرار دے دیا گیا تھا اورآج بھی اس کے اثرات برقرار ہیں۔
اب جبکہ چدمبرم مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے ہیں دماغ یہ کہتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں ایک وزیر داخلہ کی حیثیت سے جو کیا وہ درست تھا۔ ممکن ہے انہوں نے امیت شاہ کی گرفتاری‘ گجرات فسادات میں نریندر مودی کی تفتیش اور بم دھماکوں کی تحقیقات میں جو گہری دلچسپی لی، وہ ’فرض کی ادائیگی‘ کے سبب لی ہو، نہ کہ ’ذاتی غرض‘ سے، اور شاید بٹلہ ہاؤس کا معاملہ بھی یہی رہا ہو۔ پر دل سے یہ آواز نکلتی ہے کہ شاید چدمبرم بھی اسی طرح ’سیاسی انتقام‘ لے رہے تھے جیسے آج امیت شاہ لے رہے ہیں۔ اور بٹلہ ہائوس مڈبھیڑ کو ’حقیقی‘ قرار دے کر شاید وہ اپنی ’سنگھ مخالف‘ ساکھ کو دھونا چاہتے تھے۔

Comments are closed.