ملک کے موجودہ حالات اور شیطانی چالیں ( قسط۳)

از قلم مونس قاسمی لہرپور
خادم مدرسہ عالیہ عربیہ مدینة العلوم اندرا نگر
ہر شخص کے ذہن میں کچھ سوالات ابھرتے رہتے ہیں اور فطرت بار بار ایسے سوالات کرنے پر مجبور کرتی رہتی ھے کیا وجہ ھے: کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں خواہ ہندوستان میں ہوں یا افغانستان میں ،فلسطین میں ہوں یا میانمار میں، شام میں ہوں یا عراق میں، بوسینیا میں ہوں یا برما میں،
فلپائن میں ہوں یا چین میں، یا دنیا کے کسی بھی خطہ میں ہوں وہ ذلیل کیوں ہیں؟
انکے خون کو پانی کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
انکی بے لوث ملکی وسماجی خدمات کے باوجود نفرت انگیزی پروان کیوں چڑھ رہی ھے؟
مسلم عورتوں کی آبروریزی اتنی سستی کیوں ہوگئی کہ ہر کوئی نوچنے کھروچنے کو تیار ہے ؟
ظلم اپنی انتہاء کو کیوں پہونچا ہوا ہے؟
قتل وغارت گری کیوں عام ہے؟
ہجومی تشدد؟
” دہشت گردی کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کو پس زندان ڈال کر ظالمانہ رویہ کیوں اختیار کیا جا رہا ہے؟
مسلمانوں پر زمین تنگ کیوں ہو رہی ہے؟
ظلم وبربریت، جبر و استبداد،اور استعماریت کا کوڑا مسلمانوں پر ہی کیوں برس رہا ھے؟
آخر ایسا کیوں ھے ماجراکیا ہے ؟
کیا اللہ نے رحمتوں کے دروازے بند کر دیئے؟
کیا اللہ کی نصرتوں نے منھ موڑ لیا؟
جبکہ قرآن کریم نے بڑے شدومد کے ساتھ اعلان عام کیا ھے
کہ
*ولله العزة ولرسوله وللمؤمنين*
سورہ منافقون آیت ۸
ترجمہ
دنیا کی تمام عزتیں اللہ، اور اسکے رسول، اور تمام مومنین کے لئے ہیں
اسی طرح سورہ بقرہ میں ہے
*اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ*
کہ اللہ تو ایمان والوں کا دوست ھے
پہر یہ خدائی نصرت بند کیوں ہے ؟
مسلمانان ِعالم دنیا کے چپہ چپہ میں پسپا کیوں ہیں
دوست تو دوست کی موقع پر مدد کرتا ہے پہر اللہ نے اپنی نصرت اور مدد کا دروازہ مسلمانوں پر کیوں بند کیا ہوا ہے؟
اسی شکوہ کو علامہ اقبال مرحوم نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے
*تو قادرو عادل ہے مگر تیرے جہاں میں*
*ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات*
یہ اور اسی طرح کے سینکڑوں سوالات ایک سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک شخص میں گاہے بہ گاہے ابھرتے رہتے ہیں ؟
چلئے
اس درد کا مداوی اور ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں
تو آئیے سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ ہم سے پہلے کیا کوئی ایسی قوم اس روئے زمین پر آباد تھی جس پر اللہ کی نعمتوں کی بارش ہوئی ہو اور فضیلتوں کے تاج اس قوم کے ماتھے کا جھومر بنے رہے ہوں
اور موقع بہ موقع انکی تمام دلی آزروئیں بروئے کار لائی گئی ہوں
جب ہم اس احساس اور جذبہ کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ھے کہ ایک قوم ایسی تھی جس پر الطاف باری تعالی ہر وقت متوجہ رہتے تھے
اللہ کا رحم وکرم انکے ساتھ تھا
انکی فضیلت کو ایک حصہ مخلوق پر مابہ الامتیاز بنایا گیا
پر یہ اسی وقت تک تھا جب تک ان میں اجراء احکام الہی تھا، اپنے پیغمبر کے طریقوں کو مضبوطی سے تھامے رکھا تھا اور اطاعت خداوندی میں اپنے شب وروز بسر کرتے تھے تو خدا اور خدائی طاقتیں اور اللہ کی مہربانیاں اور زمین وآسمان سب انکے ساتھ تھے
لیکن جب ان میں تمرد، سرکشی، نافرمانی، مکرو فریب، احکام الہی کا استہزاء، انبیاء کرام کے ساتھ تمسخر وٹھٹھا، مشرکانہ اوہام، سرایت کر گئے اور ان بد عادتوں پر منجانب اللہ انہیں بار بار متنبہ کیا گیا
پہر بھی اس قوم نے کان نہ دھرے تو اللہ تعالی نے اسی قوم کو کہ جس پر انعام واکرام کی مینھ برس رہی تھی ہلاک وبرباد کر دیا. اور انکی عزت و وقار کی جگہ ذلت ورسوائی انکا مقدر بنا دیا گیا- جو بھی آیا سب نے انکو ایک لاٹھی سے ہانک دیا – انکی کوئی حیثیت باقی نہ رہی
اب قارئین سوچ رہے ہونگے کہ وہ کون بد خصلت قوم ہو سکتی ہے جو اتنی کرم فرمائیوں کے باوجود متمرادنہ مزاج رکھتی تھی تو ہمیں معلوم ہونا چاہیےکہ
اس نااہل قوم کو یہودی لابی سے تعبیر کیا جاتا ھے ….
جاری……..
*۲۵ ذی الحجہ ۱۴۴۰ ہجری بروز دو شنبہ بوقت۶:۰۷ منٹ بعد عصر*
Comments are closed.