ماہ محرم اور مذہب اسلام

فضل الرحمان قاسمی الہ آبادی
مذہب اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، مذہب اسلام کی تعلیمات انتہائی پاکیزہ ہیں، مذہب اسلام ایک صالح اور تہذیب یافتہ معاشرہ کوتشکیل دیتاہے، زندگی سے لے کرموت تک مختلف شعبوں میں اسلام اپنے ماننے والوں کی نہایت عمدہ طریقہ سے رہنمائی کرتاہے، اسلام نے خوشی اور غمی کاایک طریقہ متعین کردیاہے، جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ شریعت میں ہر امورمیں ضروری ہدایات ایمان والوں کو دئے گئے ہیں،جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمان اپنی زندگی کو دنیا وآخرت میں سنوارسکتاہے،
*کیامحرم غم کامہینہ ہے؟*
اسلامی کیلنڈر کا آغاز ماہ محرم سے ہوتاہے، ماہ محرم انتہائی بابرکت اور عظمت والامہینہ ہے، ماہ محرم اشھرحرم یعنی حرمت والے مہینہ میں سے ایک ہے، حرمت والے مہینہ کااحترام زمانے جاہلیت میں بھی اہل عرب کرتے تھے، فن تفسیر کے امام امام فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں، مشرکین عرب بھی ان مہینوں کااس قدر احترام کرتے تھے کہ اگر اشھرحرم میں اپنے باپ کے قاتل سے ملاقات کرتے تواس سے بدلہ نہیں لیتے تھے،ماہ محرم انہیں پاکیزہ مہینوں میں ایک ہے، جس کااحترام زمانے جاہلیت سے کیاجاتاتھا اوراسلام نے بھی انہیں محترم قراردیا، ماہ محرم عبادت کامہینہ ہے، فن تصوف کے امام امام غزالی علیہ الرحمہ نے فرمایا ماہ محرم میں زیادہ زیادہ روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ اس کے برکات پورے سال رہیں،
*ماہ محرم محترم ابتدائے آفرینش ہے نہ کہ شہادت حسین،*
عام طور سے مسلمان ماہ محرم کومحترم اور بابرکت اس لئے مانتے ہیں کہ اس مہینہ کے اندر نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہماکی دلخراش شہادت کاواقعہ پیش آیا، حالانکہ ایسانہیں ہے، ماہ محرم کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے، مہینوں کی تعداد اللہ کی کتاب میں بارہ ہے، جس دن اللہ نے آسمان وزمین اور ان کے مابین کوپیداکیا چارمہینہ ان میں محترم ہیں، بخاری شریف کتاب التفسیر میں ان چارمہینوں کوبیان کرتے ہوئے فرمایاگیا وہ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اوررجب ہیں،
قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم قابل احترام وعظمت والامہینہ اسی دن سے ہے جس دن اللہ نے آسمان وزمین کوپیداکیا،
*ماہ محرم کے محترم ہونے کاکیامطلب؟*
اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایامنہااربعہ حرم، توبہ..
ان میں چارمہینہ محترم ہیں، ان چارمہینہ میں ماہ محرم ہے، چنانچہ فن تفسیر کے امام نے تفسیرکبیر میں حرمت کامعنی بیان کرتے ہوئے فرمایا، حرمت کامعنی یہ ہے کہ ان مہینوں میں ثواب کوبڑھادیاجاتاہے اور ایسے ہی گناہ کی سزا کوبڑھادیاجاتا ہے، حرمت والے مہینہ میں نیکی کرنانفس کوپاکیزہ بنانے میں انتہائی موثر ہے، ایسے ہی ماہ محرم میں گناہ کرنے سے نفس خباثت کی طرف تیزی کے ساتھ مائل ہوتاہے، لہاذا محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پرعمل پیراشخص کے لئے لازم ہے کہ ماہ محرم اور دیگر اشھرحرم میں گناہ کوبالکلیہ جھوڑدے، اور نیکی کی طرف رواں دواں رہے تاکہ اپنے نامہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اکٹھاکرے،
*ماہ محرم اللہ کامہینہ*
ماہ محرم کی عظمت شان کا اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ہمارے پیارے نبی نے ماہ محرم کی نسبت اللہ کی طرف کیا ہے، آقانے فرمایا، رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ کاروزہ ہے، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ محرم کے مہینہ کاہے، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے بعد سب سے زیادہ شعبان کے مہینہ میں روزہ رکھتے تھے، اس کاجواب دیتے ہوئے علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ محرم کے مہینہ میں روزہ کی فضیلت کاعلم شاید آقا اخیر عمر میں ہوا جب آپ کمزور ہوگئے تھے اور روزہ رکھنے پر قادر نہیں تھے
*عاشوراء کادن اور اسلامی شریعت کاحکم،*
دس محرم کوعاشوراء کہاجاتاہے، یہ انتہائی بابرکت دن ہے، اس دن دواہم بڑے واقعات رونماہوئے، دوبڑے پیغمبروں کواسی دن بڑی مصیبت سے نجات ملی، مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تویہود کوعاشوراء کےدن روزے رکھتے کودیکھا، چنانچہ سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی، تویہودیوں نے عرض کیا، عاشوراء کادن انتہائی عظمت والاہے، اسی دن اللہ تبارک وتعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور آپ کی قوم کونجات دیاتھا اور فرعون اوراس کی قوم کوغرق کیاتھا موسی علیہ السلام نے بطور شکرانہ کے اس دن روزہ رکھاتھا، اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہم تمہارے مقابلہ میں موسی علیہ السلام کے زیادہ قریبی ہیں، لہاذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی عاشوراء کاروزہ رکھا اور حضرات صحابہ کرام کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا،
مسنداحمد بن حنبل میں الفاظ کی زیادتی ہے، وھوالیوم الذی اسودت فیہ السفینہ، یعنی عاشوراء کے دن ہی حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھری، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فتح الباری میں اس زیادتی کونقل کیا ہے، ایسے ہی محدث سہارنپوری رحمہ اللہ نے بذل المجھود میں اس زیادتی کومسند احمد بن حنبل کے حوالہ بیان کیاہے،حدیث کی کتابوں میں عاشوراء کے دن انہیں دوواقعات کاتذکرہ ملتاہے، عاشوراء کے دن پیش آنے والے بہت سارے واقعات بیان کئے جاتے ہیں لیکن ان کا ذکر حدیث کی کتابوں میں نہیں ملتا، اور نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنھما کی شہادت کاواقعہ اسی دن پیش آیا،
شہادت ایک نعمت ہے، شہید کے بارے میں اللہ کا حکم ہے، شہید کومردہ نہ کہو شہید زندہ ہے، لہاذا یوم عاشوراء کوغم کادن قرار دینا اسلامی تعلیم نہیں، اسلام میں سوگ منانا صرف تین دن جائز ہے، تین سے زیادہ سوگ جائز نہیں،اور پھر رہی بات شہادت کی تواسلامی تاریخ بیشمار شہادتوں سے بھری پڑی ہے، اگر غم منانا جائز ہوتا توسال میں کوئی ایسا دن نہ ہوتا جب شہید کے غم میں شریک ہونا پڑتا،
*ان تماشوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں،*
اسلام انتہائی پاکیزہ مذہب ہے، اسلامی تعلیمات انتہائی واضح ہیں، اسلامی شریعت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، ہرزمانے میں اسلامی شریعت میں آمیزش کی ناکام کوشش کی گئی، لیکن ہرزمانے کے علماء ربانیین نے شریعت مطہرہ بالکل واضح طورپر بیان فرمادیا تاکہ اسلامی شریعت تمام تر ملاوٹوں سے پاک صاف ہوجائے اور ہرشخص بخوبی واقف ہوجائے کہ اسلامی حکم کیاہے، موجودہ زمانے میں بھی عاشوراء کے دن نام نہاد مسلمان طرح طرح کے تماشے کرتے ہیں جن کااسلام سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کے کرنے کا ہرگز حکم نہیں دیا،اور نہ ہی شریعت مطہرہ اس کے کرنے کی اجازت دیتاہے،
*تعزیہ داری اورمقدس اسلام،*
مذہب اسلام توحید کاپرستار ہے، اللہ کے سواکسی کی عبادت کورواں نہیں سمجھتا، مقدس قرآن میں ہے،
*اتعبدون ماتنحتون،*
کیاتم ان چیزوں کی عبادت کرتے ہوجن کواپنے ہاتھوں سے بناتے ہو، تعزیہ سے بھی منت مانی جاتی ہے، تعزیہ کااسلام میں کوئی تصور نہیں، بلکہ روح ایمانی کے سراسر خلاف ہے، نہ قرآن وحدیث میں کہیں تعزیہ کاثبوت ملتاہے، نہ اس فعل شنیع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام نے کیا ہے،
*گانابجانا اسلام میں نہیں،*
ایسے ہی عاشوراء کے انتہائی بابرکت لمحات میں کچھ نام نہاد مسلمان گانابجانا ڈھول باجوں میں مست ومگن ہوتے ہیں، گانابجانا تواسلام میں حرام ہے، جب عام دنوں میں گانا بجانا حرام ہے، اور اس محترم مہینہ میں گانابجانے کاگناہ اورزیادہ بڑھ جاتاہے، ڈھول تاشا بجانا اس کا بھی ثبوت قرآن وحدیث میں کہیں نہیں، بلکہ ان مبارک گھڑیوں میں گناہ کرکے شیطان کو خوش کرنے کا ذریعہ ہے، اس سے بھی ان ناجائز چیزوں سے بچیں..
*عاشوراء کاروزہ،*
عاشوراء کادن انتہائی بابرکت ہے، اس دن کی عظمت کااندازہ اسی بات سے لگاسکتے ہیں کہ قریش مکہ بھی عاشوراء کاروزہ رکھتے تھے، یہود ونصاری بھی اس دن روزہ رکھتے تھے،
فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے عاشوراء کے دن قریش مکہ کے روزہ رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ قریش مکہ نے عاشوراء کے روزہ کوشاید اپنی پہلی شرعیتوں سے لیاہو جبکہ حضرت عکرمہ رحمہ اللہ نے وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ قریش مکہ سے کوئی گناہ صادر ہوگیا جسے انہوں نے بہت بڑا سمجھا اور اس گناہ سے توبہ کی انکو فکر ہوئی چنانچہ اس گناہ سے کفارہ کے طور پر روزہ رکھنے کا حکم دیاگیا،
اماں جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت یعنی مکہ سے مدینہ ہجرت سے پہلے بھی عاشوراء کاروزہ رکھتے تھے، اور مدینہ ہجرت کے بعد بھی روزہ رکھتے تھے،شروع اسلام میں عاشوراء کاروزہ فرض تھا اور جب رمضان کاروزہ فرض ہوگیا توعاشوراء کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی، رمضان کاروزہ ۱۰ شعبان سن ۲ ہجری میں فرض ہوا، لہاذا عاشوراء کاروزہ صرف ایک سال فرض رہا، موجودہ زمانہ میں عاشوراء کاروزہ مستحب ہے، ترمذی شریف کی روایت میں ہے، عاشوراء کے روزہ سے پچھلے ایک سال کے صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں،
*۹ یا۱۱ محرم روزہ رکھنابھی ضروری،*
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت اہتمام کے ساتھ عاشوراء کاروزہ رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ایک سال پہلے حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول عاشوراء کے دن یہود ونصاری بھی روزہ رکھتے ہیں، آپ توان کی مخالفت کرتے ہیں عاشوراء کے روزہ میں ان سے موافقت کیوں کررہے ہیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
*لئن بقیت الی قابل لاصومن التاسع،*
اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کابھی روزہ ضروربالضرور رکھوں گا، مسند احمد بن حبنل کی روایت میں ہے، عاشوراء کاروزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، عاشوراء کے ایک دن پہلے یا دن بعد بھی روزہ رکھو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے پہلے اہل کتاب کی موافقت کرتے تھے خاص طور سے ان امور میں جس میں اہل اوثان کااختلاف ہوتاتھا لیکن فتح مکہ کے بعد جب اسلام مضبوط ہوگیا تو اہل کتاب یعنی یہود ونصاری کی مخالفت کوپسند فرماتے تھے، عاشوراء کے روزہ میں ایک دن پہلے یابعد میں روزہ رکھنے کا حکم دینا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاآخر وقت کاعمل ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پختہ ارادہ کیاتھا نویں محرم کاروزہ رکھنے کا لیکن اتفاق سے اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا احتیاط اسی میں ہے کہ عاشوراء کے ساتھ نویں یاگیارہویں محرم روزہ رکھا جائے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود کی مخالفت پسند فرماتے تھے، اسی لئے فقہ حنفی میں صرف عاشوراء رکھنا نویں اورگیارہویں کاساتھ میں روزہ نہ رکھنا مکروہ ہے،
*عاشوراء کادن دعاکی قبولیت کاوقت،*
عاشوراء کادن انتہائی بابرکت دن ہے، اس دن مروجہ غیراسلامی طریقوں سے بالکلیہ پرہیز کریں، تعزیہ داری جلوس ماتم ان سب چیزوں کوکرنا اور ان مجلسوں میں شریک ہونا سب گناہ کے کام ہیں، قرآن وحدیث میں ان کاکوئی ثبوت نہیں، عاشوراء کادن خاص طور سے دعا کااہتمام کریں، قبولیت کاوقت ہوتاہے، گناہوں سے توبہ کریں، عاشوراء کے دن گھروالوں پر کھانے کے فراخی کرنا، عمدہ کھانابنانا یہ بھی مستحب ہے، رزق میں برکت کا ذریعہ ہے،اللہ تعالی ہم سب کو غیر اسلامی رسم رواج سے بچائے، عاشوراء کے نام اسلام کامذاق اڑانے سے بچائے، اور شریعت محمدیہ کی کما حقہ پاسداری کی توفیق دے…آمین…
Comments are closed.